Column

سٹے کی درخواستوں کا 15دن میں فیصلہ

سٹے کی درخواستوں کا 15دن میں فیصلہ
تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
عدالتی اصلاحات و نظائر کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا حالیہ حکم نامہ ایک غیرمعمولی اور خوش آئند فیصلہ ہے۔ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ تفصیلات کے مطابق اب سٹے کی درخواستیں لمبے عرصے تک لٹکائی نہیں جائیں گی۔ عدالت عالیہ لاہور کا یہ فیصلہ اب صرف ایک انتباہ ہی نہیں بلکہ ایک عدالتی فیصلے کی اچھی خبر ہے جو انصاف کی فوری فراہمی کی سمت ایک موثر قدم ہے۔
پاکستان کے عدالتی نظام میں سٹے آرڈرز (Stay Orders)کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ اہم قانونی سہولت وقت کے ساتھ ساتھ انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔ سٹے کی آڑ میں مقدمات کے فیصلے برسوں تک التوا کا شکار رہتے تھے۔ 2009میں قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی (National Judicial Policy Making Committee – NJPMC) نے اس مسئلے کا ادراک کرتے ہوئے ’’ فوری انصاف‘‘ کی بنیاد پر ایک اصلاحی لائحہ عمل پیش کیا تھا۔ 2012کی نظرثانی شدہ پالیسی میں واضح طور پر سٹے آرڈرز پر 15دن کے اندر فیصلہ دینے کی ہدایت شامل کی گئی، مگر عملی طور پر اس پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
10 مئی2025ء کو لاہور ہائی کورٹ کے ڈائریکٹوریٹ آف ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی جانب سے جاری کردہ مراسلے ( نمبری 5636) میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر تمام ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ آرڈر 39رولز 1و 2کے تحت دی گئی سٹے کی درخواستوں کا فیصلہ 15دن کے اندر کریں۔
سیکشن 104سی پی سی اور آرڈر 43رول 1کے تحت سٹے کے خلاف دائر تمام اپیلیں، جو 3ماہ سی زائد عرصے سے التوا میں ہیں، انہیں ایک مہینے کے اندر نمٹایا جائے۔
یہ فیصلہ صرف ایک عدالتی حکم ہی نہیں بلکہ ایک اصولی و انقلابی تبدیلی بھی ہے۔ اس کا اطلاق آئندہ عدالتی نظام میں کئی پہلوں سے مثبت اثرات مرتب کرنے کا باعث بنے گا۔
اس فیصلے سے انصاف کی بروقت فراہمی میں مدد ملے گی۔ عدلیہ کا اصل کام یہ ہے کہ سستا اور فوری انصاف مہیا کیا جائے۔ سٹے آرڈرز کے طویل عرصہ تک برقرار رہنے سے انصاف عملاً موخر ہو جاتا تھا۔
اس فیصلے سے عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ کم ہوگا۔ التوا شدہ مقدمات کی بڑی وجہ غیر معینہ مدت کے سٹے آرڈرز تھے۔ یہ اقدام مقدمات کی جلدی تکمیل کی راہ ہموار کرے گا۔
اس فیصلے سے عدالتی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔ عدالتی افسران کی کارکردگی پر مثبت اثر پڑے گا کیونکہ انہیں مقررہ مدت میں فیصلے کرنے ہوں گے۔
اس فیصلے سے بدنیتی پر مبنی درخواستوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ایسے وکلاء اور سائلین جو بدنیتی کے تحت سٹے آرڈر لیتے تھے اب انہیں بروقت جواب دینا ہوگا۔
اس فیصلے کی پذیرائی کے ساتھ ساتھ چند اہم سوالات بھی جواب طلب ہیں۔
کیا تمام عدالتوں کے پاس اتنے وسائل، ججز اور معاون عملہ موجود ہے کہ وہ مقررہ مدت میں فیصلے کر سکیں؟
کیا وکلاء برادری اس تبدیلی کو مثبت انداز میں لے گی اور اپنی تیاری کو مختصر وقت میں مکمل کرے گی؟
عوام کو اس تبدیلی سے آگاہی کیسے دی جائے گی تاکہ وہ انصاف کی فوری طلب پر زور دیں؟
لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ عدالتی تاریخ میں ایک روشن باب کا اضافہ ہے۔ اگر اس پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد ہوتا ہے تو یہ انصاف کی تاریخ میں ایک سنگِ میل ثابت ہو گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عدالتی نظام کو محض تاخیری حربوں سے آزاد کرایا جائے اور عوام کو یہ یقین دلایا جائے کہ ’’ انصاف ملے گا، جلد ملے گا اور یقینی طور پر ملے گا‘‘۔
حوالہ جات:
1۔ مراسلہ نمبر: 5636، ڈائریکٹوریٹ آف ڈسٹرکٹ جوڈیشری، لاہور ہائی کورٹ
2۔ قومی عدالتی پالیسی: NJPMC-2009، نظرثانی 2012
3۔ سول پروسیجر کوڈ 1908: آرڈر 39رولز 1و 2، آرڈر 43رول 1، سیکشن 104

جواب دیں

Back to top button