Column

وقت کی اہم ضرورت

وقت کی اہم ضرورت
محمد مبشر انوار
پاکستان اور پاکستانی جس قیامت خیز معرکہ میں ،بقضل خدا،سرخرو ہوئے ہیں،اس کا شکر ادا ہی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اللہ رب العزت کی خصوصی مددو نصرت ہی تھی ،جس نے پاکستان ،افواج پاکستان اور پاکستانیوں کو اس میں سرخرو کیا ہے ۔ بعد ازاں جس عاجزی و انکساری کا اظہار ہر سطح پر پاکستان کی جانب سے کیا گیا ہے،بطور مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ رب العزت کو یہ عاجزی انتہائی پسند ہے اور اس کے جواب میں اللہ کریم اپنا مزید فضل و کرم اپنے بندوں پر کرتا ہے اور انہیں کسی بھی معرکے میں گرنے نہیں دیتا تاوقتیکہ یہ عاجزی و انکساری ان میں موجود رہے۔ویسے تو زندگی کے کسی بھی معرکہ میں فتح کے لئے کئی ایک عوامل بروئے کار آتے ہیں اور زندگی بذات خود ایک معرکے سے کم نہیں اور اس میں کامیابی و فتح کے لئے انسان کو انفرادی حیثیت میں ہی کئی ایک مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔تاہم عاجزی و انکساری ایک بنیادی و لازم جزو ہے۔ پاکستان نے حالیہ معرکے میں اپنے تئیں پوری کوشش کی کہ کسی طرح یہ بلا ٹل جائے،قطعا مقصد یہ نہیں تھا کہ پاکستان یہ جنگ لڑ نہیں سکتا تھا بلکہ پرامن رہتے ہوئے ہی معاملات کو سلجھانا دانشمندی کہلاتی ہے،یہی کوشش پاکستان کی بھی تھی کہ کسی طرح معاملات بغیر میدان میں اترے نپٹ جائیں۔ ممکنہ طور پر اس کے پس پردہ یہ حقائق بھی ہوں کہ اپنی عسکری صلاحیت کو بہرطور ابھی آشکار کرنے کا مناسب وقت نہ ہو،کہ جس طرح پاکستان نے فیصلہ کن برتری حاصل کر لی تھی ،اس کے بعد یوں فی الفور جنگ بندی کے فیصلے کو تسلیم کر لینا ،قطعا آسان نہیں کہ فوج کاجذبہ و جنون اور کامیابی کی بھوک،بڑھتے ہوئے قدموں کو نہیں روک پاتی لیکن الحمد للہ ،پاک فوج کی یہ خصوصیت اسے دیگر افواج سے ممتاز کرتی ہیں کہ نظم و ضبط کے حوالے سے یہ فورس انتہائی منظم ہے اور اپنے کماندار کے حکم پر جہاں تمام رکاوٹیں توڑتی ہوئی اہداف حاصل کرنے کی کوششیں کرتی ہے وہیں وہ اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی اور ہنستے مسکراتے،موت کے اعلی ترین درجہ و مقام،مقام شہادت کو گلے لگاتی ہے۔ یہ جذبہ دنیا کی کسی اور فورس میں کم ہی دکھائی دیتا ہے جو واقعتا شہادت کی موت کوایک ابدی زندگی تصور کرتے ہوئے ،ہنستے مسکراتے یوں لپٹ جاتے ہوں جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب کے گلے کا ہار بن جاتا ہے، میرے نزدیک یوں تو مسلمانوں کی اکثریت اس لازوال موت کی خواہش رکھتی ہے لیکن یہ نصیب ان خوش نصیبوں کا ہے جنہیں اللہ رب العزت اس عہدہ جلیلہ کے لئے منتخب کرتا ہے، بے شک بخشی ہوئی روحیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ البتہ یہاں غالبا فرمان الٰہی یا حدیث قدسی ہے کہ جو شخص خالصتا راہ حق؍اللہ کی راہ میں بروئے کار آیا اور اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کی، اس کی آخری منزل جنت ک یاعلی ترین ٹھکانوں میں سے ہے لیکن وہ جن کے مطمع نظر راہ خدا کے علاوہ کچھ اور رہا، ان کو اس کا صلہ اسی دنیا میں ،ان کے گمان کے مطابق دے دیا جاتا ہے اور آخرت میں ان کا حصہ کچھ نہیں ،اور اس کا حتمی فیصلہ اللہ رب العزت کی ذات،بندے کی نیت کے مطابق کرنے والی ہے ، ہم جو بظاہر دیکھتے ہیں،جس کے متعلق ہمیں بتایا گیا ہے،اس پر اپنی رائے و گمان رکھتے ہیں۔
عجز و انکساری کے بعد شکر ادا کرنا بھی اللہ کے نزدیک ایک پسندیدہ ترین عمل ہے،جس کے بدلے وہ اپنے بندوں کو مزید نوازتا ہے،پاکستان میں اس کامیابی و فتح کے بعد ،پاکستانی عوام کی اکثریت ،جیسے جنگ سے قبل ہاتھوں میں پاکستانی و تحریک انصاف کے پرچم لئے ،اس بے مثال کامیابی و فتح کا شکر ادا کرنے ،بعینہ جیسے جنگ سے قبل فوری طور افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوئی،شکرادا کرنے کے لئے سب سے پہلے باہر نکلی۔ شنید ہے کہ تحریک پاکستان کے ان کارکنان پر دوبارہ ریاست کی طرف سے سخت ہاتھ دکھایا گیا لیکن بعد ازاں یوں محسوس ہوتا ہے کہ پالیسی میں تبدیلی دیکھی گئی ہے اور ان کارکنوں کو رہا بھی کر دیا گیا ہے،جو یقینا موجودہ صورتحال کے تناظر میں خوشگوار ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔تاہم ریاستی پالیسی میں تبدیلی یوں ہی تو نہیں آتی تاوقتیکہ انہیں یہ یقین نہ ہوجائے کہ واقعتا جن شہریوں کے خلاف وہ بروئے کار آتے رہے ہیں،یہ وہی شہری ہی تو ہیں جو سب سے پہلے،جذبہ حب الوطنی میں ،اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے،ان کا حوصلہ بڑھایا اور انہیں یہ اعتماددیا کہ عوام اس کٹھن وقت میں فوج کے ساتھ کھڑی ہے،جبکہ اندرونی معاملات پر اس کٹھن وقت گذرنے کے بعد بات ہو سکتی ہے۔ صد شکر کہ افواج پاکستان نے اپنی پیش ورانہ مہارت کا بھرپور اظہار کیا اور چند منٹوں/گھنٹوں میں ہی دشمن کو شکست فاش دے کر اور گھٹنوں کے بل کردیا وگرنہ یقین واثق ہے کہ یہ قوم کسی بڑی بیرونی آزمائش کی صورت میں ( اللہ کریم اس سے محفوظ رکھے،آمین) ،باقاعدہ طور اپنے فوجیوں کے شانہ بشانہ اگلے مورچوں پر نظر آتی،جس کا مظاہرہ اس قوم نے ہمیشہ کیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف حکومت پاکستان نے شکرادا کرنے کے لئے 16مئی کے دن کا اعلان کیا،گو کہ چھ دن گزرنے کے بعدہی سہی، دنیا بھر میں پاکستان کے سفارت خانوں میں باقاعدہ طور پر اس یوم تشکر کا انعقاد کیا گیا ہے اور راقم بھی اس تحریر کو سپرد قلم کرنے کے بعد سفارت خانہ پاکستان ریاض میں آج کے یوم تشکر میں شریک ہوگا،قوی امید ہے کہ صدر پاکستان، وزیر اعظم پاکستان،وزیر دفاع و خارجہ کے علاوہ سپہ سالار کے پیغامات سنائے جائیں گے،ممکنہ طور پر ائیر چیف مارشل کا پیغام بھی ہوگا اور سفیر پاکستان بنفس نفیس اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد،مختصر ترین نوٹس پربھی سفارت خانہ پاکستان کی عمارت میں ،اس بڑی کامیابی پر شکر ادا کرنے کے لئے موجود ہوگی،گو کہ تارکین وطن پاکستان کی اس کامیابی پر انتہائی مسرور و نازاں ہیں،پاکستانیوں کے روئیے حیران کن طور پر بدل چکے ہیں،ان میں اعتماد عود آیا ہے ،مقامی افراد کی نظروں میں پاکستانیوں کے لئے محبت جھلکتی صاف نظر آتی ہے،اس سب کا شکر ادا کرنا لازم ہے۔
یہاں اس امر پر بحث کرنا کہ حکومت پاکستان نے یوم تشکر کا اعلان چھ روز بعد کیوں کیا،بے معنی سا لگتا ہے کہ فارم 47کی حکومت سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے ؟عمل ،الفاظ سے زیادہ بولتے ہیں،اورگزشتہ بیس پچیس روز میں حکومتی کارکردگی کا پول بری طرح سے کھل چکا ہے حتی کہ بعد ازاں جو دعوے حکومت کی جانب سے کئے جارہے ہیں،بالخصوص وزیر اعلی پنجاب اور ان کی کابینہ میں مخصوص وزرائ،شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کرنے والیوں نے حکومت کا مذاق بنوا دیا ہے۔ وفاقی وزراء کی جانب سے عالمی میڈیا میں دئیے گئے انٹرویوز اور ان میں انکشافات کا، ایسے وقت میں جب اس کا فائدہ بھارت کو ہوتا،گو کہ یہ اب انکشافات بھی نہیں رہے لیکن کسی وفاقی وزیر کی طرف سے کہے گئے الفاظ کا وزن تو بہرحال ہوتاہے بعینہ ویسے ہی جیسے آج تک سابق وزیراعظم نواز شریف کے الفاظ،عالمی عدالت میں پاکستان کا پیچہا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب سخت ترین دنوں میں ،سابق وزیراعظم ،حسب سابق خاموش بیٹھے رہے کہ جب ان سے یہ توقع تھی کہ روایتی حریف بھارت کی بلاجواز جارحیت پر ،پاکستان کی حمایت میں وہ کچھ بولیں گے ،لیکن وہ صم بکم کی تصویر بنے رہے،ویسے صد شکر کہ وہ نہیں بولے وگرنہ کون جانے کہ ممبئی حملوں جیسا ہی کوئی بیان داغ دیتے؟جنگ بندی کے بعد بھی انتہائی بے معنی سا بیان دیا گیا،جس کا کوئی فائدہ بہرحال پاکستان کو نہیں ہوا البتہ یہ خبریں ضرور گرم ہیں کہ کچن کابینہ میں ایک بار پھر افواج پاکستان کے کردار پر نکتہ چینی کی گئی،جس کی خبریں مقتدرہ کو بھی پہنچ گئی ہیں،واللہ اعلم،اور یہ بھی شنید ہے کہ ان خبروں کے بعد ہی تحریک انصاف کے کارکنان پر سختی میں کمی آئی ہے،جو بہرحال نہ تو قابل ستائش ہے اور نہ ہی قابل تقلید کہ قانون کی بالادستی میں ایسی کسی سختی یا نرمی کی گنجائش ہی نہیں ہوتی اور پاکستان کو اس موڑ پر کھڑے ہوکر یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ کیا اسے دوبارہ معکوس کا سفر کرنا ہے یا دائروں کے سفر سے نکل کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے؟ اس صورت میں مقتدرہ کو سوچنا ہوگا کہ باربار آزمائے ،چلے ہوئے کارتوسوں پر انحصارکرنا ہے، ذاتی انا و ضد کے اسیر رہنا ہے یامتیادل قیادت اور نوجوان خون پر جو تمام تر اختلافات کے باوجود ،کٹھن وقت میں ’’ پاکستان ‘‘ کی سلامتی،حفاظت وآن کے لئے تن کر کھڑے ہوئے ،پاکستان میں قانون کی بالادستی کے خواہاں ہیں،کہ اس امر کا فیصلہ ہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!!!

جواب دیں

Back to top button