جنرل عاصم کشمیر کے نجات دہندہ؟

تحریر : سی ایم رضوان
جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ بندی میں اہم کردار ادا کرنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ مل کر دیکھیں گے کہ کیا کشمیر کے تنازع کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فام ٹرتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’’ میں بھارت اور پاکستان کی مضبوط اور غیر متزلزل ثابت قدم قیادت پر بہت فخر محسوس کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے مکمل طور پر جان لیا اور سمجھا کہ موجودہ جارحیت کو روکنے کا وقت آگیا ہے جو بہت سے لوگوں کی موت اور تباہی کا باعث بن سکتی تھی‘‘۔ امریکی صدر نے کہا کہ ’’ اس کے علاوہ، میں آپ دونوں کے ساتھ مل کر دیکھوں گا کہ کیا ہزاروں سالوں بعد پریشان کن مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے، اللہ بھارت اور پاکستان کی قیادت کو اس شاندار کام پر برکت دے! ‘‘۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’’ لاکھوں اچھے اور بے گناہ لوگ مر سکتے تھے! آپ کے جرات مندانہ اقدامات سے آپ کی میراث بہت بڑھ گئی ہے، مجھے فخر ہے کہ امریکا آپ کی مدد کرنے میں کامیاب رہا کہ آپ اس تاریخی اور جرات مندانہ فیصلی پر پہنچ سکیں‘‘۔ امریکی صدر نے پاکستان اور بھارت کو عظیم اقوام قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں ملکوں کے ساتھ تجارت کو باہمی طور پر فروغ دیں گے۔ امریکا کے ساتھ امن و استحکام کے لئے تعاون جاری رکھیں گے، دوسری جانب پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاک بھارت کشیدگی پر بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔ دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنگ بندی میں امریکا اور دیگر دوست ممالک کا تعمیری کردار قابلِ تعریف ہے۔ دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر کے حل کی حمایت کا خیر مقدم کرتے ہیں، مسئلہ کشمیر کا پائیدار حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے، کشمیریوں کو خودارادیت کا ناقابلِ تنسیخ حق ملنا چاہیے۔ دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان، امریکا کے ساتھ امن و استحکام کے لئے تعاون جاری رکھے گا، پاکستان، امریکا کے ساتھ تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی تعاون مزید بڑھانے کا خواہاں ہے۔
جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ 1947ء میں تقسیم برصغیر کے وقت اپنا الگ آزاد وجود رکھنے والی جن 550سے زائد چھوٹی ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ ان میں سے جو ریاست دونوں ممالک میں سے جس کے ساتھ چاہے الحاق کر لے یا اگر اپنی حیثیت الگ رکھ سکتی ہے تو آزاد رہے، انہی آزاد ریاستوں میں ایک ریاست کشمیر ہے۔
دنیا کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی ریاست، ملک یا علاقے کے مالک اس کے باسی ہوتے ہیں اور ریاست کے فیصلے کرنے کا حق بھی انہی کو ہوتا ہے نہ کہ کسی سربراہ مملکت کو کہ وہ اپنی ریاست کا کہیں الحاق کر دے، اس وقت منتخب سربراہ بھی نہ تھے اگر کوئی ریاست کا منتخب سربراہ بھی ہو تو اس کو بھی یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ اپنے طور پر ریاست کو کسی ملک میں ضم کر دے یا کسی بین الاقوامی اتحاد میں شامل کر لے، اس کے لئے عوام کی رائے جاننا لازم ہوتا ہے اس کی قریب ترین مثال یورپی یونین کی ہے کہ کئی ممالک نے اپنے ہاں عوام کی رائے جاننے کے لئے ریفرنڈم کرائے تھے اسی ریفرنڈم کے نتائج کی بنیاد پر اب ناروے یورپی یونین میں شامل نہیں ہے، ڈنمارک میں بھی دو بار ریفرنڈم کروایا گیا تھا اس کے بعد ڈنمارک اپنے عوام کی اکثریتی رائے کے مطابق یورپی یونین کا حصہ بنا تھا۔ برصغیر کی تقسیم کی بات کی جائے تو حیدر آباد اور جونا گڑھ دو ایسی ریاستیں تھیں جن کے سربراہ مسلمان تھے لیکن عوامی اکثریت ہندوئوں کی تھی اسی بنا پر وہ دونوں ریاستیں بھارت کے ساتھ شامل ہوئیں، کشمیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس وقت کا کشمیری سربراہ مہاراجہ ہری سنگھ بھی اکثریتی عوام کی رائے کے مطابق پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہ رہا تھا، 27اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہوئی تو کشمیریوں نے بھی پاکستان کے قبائلیوں اور پاکستانی فوج کی مدد کے ساتھ علم جہاد بلند کر لیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں کشمیر کا 15ہزار مربع کلومیٹر سے زائد کا حصہ آزاد کروا لیا ابھی یہ پیش قدمی جاری تھی کہ عیاری اور مکاری سے کام لیتے ہوئے بھارت معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا، اقوام متحدہ نے فائر بندی کرواتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجوں کو اپنی اپنی جگہ پر روک دیا اور اس لائن کو سیز فائر لائن قرار دے دیا اور اقوام متحدہ میں یہ قرارداد پاس ہو گئی کہ کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنی رائے اور مرضی سے کریں گے، اس کا طریقہ کار یہ طے کیا گیا تھا کہ سب سے پہلے پاکستان اپنی افواج اور قبائلیوں کا کشمیر سے انخلا کرے گا اس کے بعد بھارتی افواج کشمیر سے نکلیں گی جس کے بعد اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کشمیر کے تمام حصوں میں استصواب رائے کروایا جائے گا جس میں کشمیری پاکستان یا بھارت جس کے ساتھ چاہیں الحاق کریں گے، اقوام متحدہ میں دو قراردادیں پاس تو ہو گئیں لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہو سکا، عمل نہ ہونے میں بھارتی سازش تھی یا اقوام متحدہ کی جانبداری تھی، پاکستان کی سستی تھی یا کشمیریوں کی بدقسمتی، لیکن تب سے کشمیری ایک خونی لکیر کے دونوں طرف اس طرح پھنس گئے کہ ایک ہی علاقے میں رہتے ہوئے وہ اپنے قریبی عزیز و اقارب کو بھی مل نہیں سکتے، 1972ء کے شملہ معاہدے میں پاکستان و بھارت نے یہ بات تسلیم کر لی تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات باہمی گفت و شنید سے حل کیے جائیں گے اور کشمیر کی سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن کا نام دے کر کشمیریوں کو مستقل طور پر جدا کر دیا گیا، پھر ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران افغان جنگ شروع ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی کشمیر کے لئے بھی مجاہدین تیار کیے گئے اور کشمیریوں کی آزادی کے لئے جہاد شروع کروا دیا گیا جسے بھارت اپنے ملک میں مداخلت سے منسوب کرتا رہا ہے، بھارتی حکمران کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ اور پاکستانی اپنی شہ رگ قرار دیتے ہیں لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کا مستقبل کیا ہے؟ دنیا کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کرتی ہے، مگر اس تنازع کو حل کرانے کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی، پچھلے سالوں میں اس علاقے میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں، سرحدوں پر لمبا عرصہ فائرنگ کے بعد امن قائم ہوا، واہگہ بارڈر سے دونوں ممالک پاکستان اور بھارت کی آمدورفت ہونے لگی، سکھوں کو پاکستان کی راہداری دی گئی لیکن کشمیریوں کے ساتھ یہ ظلم کیوں روا رکھا گیا کہ وہ ایک تحصیل یا ایک یونین کونسل میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو مل نہیں سکتے؟ آج بھی اگر دنیا میں جہاں بھی کشمیری اپنی بات کرتے ہیں تو ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کس حیثیت میں بات کر رہے ہو، آپ تو متنازعہ معاملہ میں فریق ہی نہیں کیونکہ یہ تو دو ممالک کا سرحدی معاملہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر تقسیم برصغیر کی روح کے مطابق مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے ناتے کشمیر پاکستان کا حصہ ہے تو پھر پاکستان کو اپنا علاقہ بھارت سے واپس لینا چاہئے، چاہے اس کے لئے اسے جتنی بھی بڑی جنگ لڑنا پڑے اور اگر یہ کشمیریوں کی آزادی کا مسئلہ ہے تو پھر کشمیریوں کو یہ اختیار ہونا چاہئے کہ وہ دنیا کے سامنے اپنا مسئلہ خود پیش کریں اور اپنی آزادی کی جنگ بھی خود لڑیں، اس وقت بظاہر یہ لگتا ہے کہ پاکستان اور بھارت تقسیم کشمیر کے فارمولے پر متفق ہیں، جس کی بنا پر بھارت نے 5اگست 2019ء کو اپنے آئین کی دفعات میں ترامیم کر کے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کے لوگوں کو جائیدادیں خریدنے کی اجازت دے کر کشمیر کے اس حصے کو مکمل طور پر بھارت میں شامل کر لیا ہے جبکہ پاکستان اور کشمیر کا بچہ بچہ یہ سمجھتا ہے کہ کشمیری اپنے سے بالا فیصلوں کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے۔ اب حکومت پاکستان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی آزادی کے لئے سب سے پہلے عالمی ضمیر کو اس طرح جھنجھوڑے کہ اب نہیں تو کبھی نہیں اور اگر ہم کشمیر کے نجات دہندہ نہیں تو کوئی اور نہیں۔
دوسری جانب آج دنیا تسلیم کر چکی ہے کہ پاک فوج خطہ کی طاقتور ترین فوج ہے۔ یہ بھی تسلیم شدہ ہے کہ پاکستان سے بڑا کشمیر کا وکیل دنیا میں کوئی اور نہیں اور کشمیر کے عوام بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت اگر صدیوں سے مظالم کے شکار کشمیریوں کا کوئی نجات دہندہ بن سکتا ہے تو وہ پاک فوج کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر ہی بن سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ 10مئی کو بھارتی میزائل حملوں کے بعد پاکستان کے آپریشن بنیان مرصوص شروع کیے جانے کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی عروج پر پہنچ گئی تھی اور پاکستان نے جس طرح تاریخ میں پہلی بار انڈیا کی تباہی کا کام شروع کر دیا تھا اس پر خطے کی بدمعاشی کا دعویدار بھارت بلبلا اٹھا تھا اور منت سماجت کرکے امریکہ سے جنگ بندی کی بھیک مانگنے لگا تھا جس کے بعد امریکی مداخلت کے نتیجے میں دونوں ملک جنگ بندی پر آمادہ ہو گئے تھے جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اعلان کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت فوری اور مکمل سیز فائر کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے رات بھر ثالثی کی اور مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ بھارت اور پاکستان نے مکمل اور فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ یاد رہے کہ 10مئی کو علی الصبح پاکستان نے بھارتی جارحیت کے جواب میں جس ’’ آپریشن بنیان مرصوص‘‘ ( آہنی دیوار) کا آغاز کیا تھا اس میں بھارت میں ادھم پور، پٹھان کوٹ، آدم پور ایئربیسز اور کئی دیگر ایئر فیلڈز سمیت براہموس اسٹوریج سائٹ اور میزائل دفاعی نظام ایس 400کے علاوہ متعدد اہداف کو تباہ کر دیا تھا۔ سکیورٹی ذرائع نے بتایا تھا کہ پاکستان کے عوام اور مساجد کو جن ایئر بیسز سے ٹارگٹ کیا گیا تھا، ان اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح پاکستانی میزائلوں سے بیاس کے علاقے میں براہموس اسٹوریج سائٹ تباہ کر دی گئی تھی، جبکہ پاک فوج نے پٹھان کوٹ میں ایئر فیلڈ کو بھی تباہ کر دیا، راجوڑی اور نوشہرہ میں پاکستان میں دہشت گردی کروانے والے بھارتی ملٹری انٹیلی جنس کے تربیتی مراکز بھی تباہ کر دیئے گئے تھے۔ جس پر بھارت کی جانب سے جنگ بندی کی درخواست جنگ بندی کی گئی۔ تب سے اب تک دنیا بھر میں پاکستان کی عسکری بالادستی کو مسلسل خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے کہ جس نے انڈیا کی بے اصول بدمعاشی کو نکیل ڈالی۔ اب یہ سنہری موقع ہے جنرل سید عاصم منیر کشمیر کے نجات دہندہ بن کر یہ تاریخی کارنامہ سر انجام دے دیں۔