Column

متوازن زندگی

تحریر : علیشبا بگٹی
ایک بادشاہ تھا، جس کی سلطنت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے محل سونے چاندی سے بھرے ہوئے تھے، خدام قدموں میں بچھے رہتے تھے، اور ہر آرزو پلک جھپکتے پوری ہو جاتی تھی۔ مگر اس سب کے باوجود بادشاہ اکثر اداس، بے سکون اور بے چین رہتا تھا۔ ایک دن بادشاہ نے اپنے مشیروں سے کہا۔ ’’ میرے پاس سب کچھ ہے، مگر سکون نہیں۔ مجھے بتائو، یہ دل کا سکون اور ذہن کی راحت کہاں ملتی ہے؟‘‘۔ مشیروں نے کئی طبیب بلائے، فلسفیوں سے ملاقاتیں کرائیں، مگر بادشاہ کا دل مطمئن نہ ہوا۔ ایک دن ایک فقیر دربار میں آیا اور کہا، ’’ اے بادشاہ۔ اگر آپ واقعی سکون چاہتے ہیں تو ایک کام کریں۔ اپنے محل سے نکلیں، سات دن عام لوگوں کی زندگی گزاریں، اور پانچ چیزوں کا مشاہدہ کریں۔ جسم، ذہن، رشتہ، روح اور وقت‘‘ ۔ بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ وہ بھیس بدل کر رعایا میں شامل ہو جائے گا۔
پہلے دن وہ ایک کسان کے ساتھ کھیت میں گیا۔ وہاں اس نے جسمانی محنت دیکھی۔ زمین کھودنا، پانی دینا، سورج کی تپش سہنا ۔ مگر کسان خوش تھا۔ بادشاہ نے سوچا، جسم کی صحت زندگی کا پہلا ستون ہے۔
دوسرے دن وہ ایک استاد کے ساتھ بیٹھا۔ استاد علم بانٹ رہا تھا، سوالات کا جواب دے رہا تھا، اور مطمئن تھا۔ بادشاہ نے سمجھا، ذہنی سکون اور علم دوسرا ستون ہے۔
تیسرے دن وہ ایک ماں کو بچوں کی دیکھ بھال کرتے دیکھ رہا تھا، ان کے ساتھ ہنس رہی تھی، کھیل رہی تھی۔ بادشاہ نے جانا، رشتے اور محبت تیسرا ستون ہیں۔
چوتھے دن وہ ایک درویش کے پاس گیا، جو نماز، مراقبہ، اور ذکر میں مشغول تھا۔ اس نے کہا، ’’ دل کا سکون رب کے ذکر میں ہے‘‘۔ بادشاہ نے سمجھا، روحانیت چوتھا ستون ہے۔
پانچویں دن وہ ایک غریب مگر خوشحال دکاندار سے ملا، جو اپنے وقت کو منظم طریقے سے استعمال کر رہا تھا۔ نہ ضرورت سے زیادہ کام، نہ بیکار بیٹھا۔ بادشاہ نے جانا کہ وقت کا نظم پانچواں ستون ہے۔
پانچ دن بعد، بادشاہ محل واپس آیا۔ مگر اب وہ بدل چکا تھا۔ اس نے محل میں اعلان کروایا۔ ’’ اب میں توازن والی زندگی گزاروں گا۔ نہ صرف حکومت کروں گا، بلکہ خود کو وقت دوں گا، عبادت کروں گا، رشتوں کو وقت دوں گا، ورزش کروں گا، اور روز علم حاصل کروں گا‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بادشاہ اپنی زندگی کے باقی دن نہایت خوش، مطمئن اور پرسکون رہا۔ اس کی سلطنت بھی ترقی کرتی گئی، کیونکہ جو خود متوازن ہو، وہی دوسروں کو توازن دے سکتا ہے۔
اصل سکون اور کامیابی صرف دولت یا اختیار میں نہیں، بلکہ جسم، ذہن، رشتوں، روح اور وقت کے درمیان توازن میں چھپی ہے۔
ہم سب ایک ’’ بیلنسڈ لائف‘‘ یعنی متوازن زندگی چاہتے ہیں ۔ جہاں کام، صحت، گھر، رشتے، دوستی، اور سچائی کو برابر وقت ملے۔ ہم یہ سب کچھ کیوں چاہتے ہیں؟ کیونکہ ہم زندگی کو سنوارنا چاہتے ہیں۔ مگر اکثر اسے بگاڑ بیٹھتے ہیں۔ مشہور مصنف ’’جیمز پیٹرسن‘‘ نے اس بارے میں کہا ہے کہ ’’زندگی پانچ گیندوں کا کھیل ہے۔ کام، خاندان، صحت، دوست اور ایمانداری۔ یہ سب آپ ایک ساتھ ہوا میں اچھال رہے ہوتے ہیں‘‘۔
ایک دن آپ سمجھتے ہیں کہ’’ کام‘‘ والی گیند ربڑ کی ہے۔ اگر وہ گِر جائے تو واپس اچھل آئے گی۔ لیکن باقی چار گیندیں شیشے کی ہیں۔ اگر وہ گریں، تو شاید ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائیں۔ یہ صرف ایک مثال نہیں، یہ حقیقت کا آئینہ ہے۔ کام دوبارہ آ سکتا ہے۔ پیسے پھر دوبارہ مل سکتے ہیں۔ لیکن اگر صحت چلی جائے۔ رشتے ٹوٹ جائیں۔ یا ایمانداری کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے، تو وہ شاید کبھی واپس نہ آئے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کام کو چھوڑ دیں۔ کام کرنا ضرورت ہے، مگر اس میں حکمت ہونی چاہیے۔ جیسے ایک جنرل اپنی فوج کو بڑی حکمت سے میدانِ جنگ میں ترتیب دیتا ہے، ویسے ہی ہمیں اپنے وقت اور توانائی کو منظم کرنا ہوگا۔ ذاتی زندگی میں ہر چیز اہم ہے۔ ماں باپ، رشتے دار، دوست، صحت، نیند، سکون مگر پروفیشنل لائف میں صرف ایک یا دو کام واقعی اہم ہوتے ہیں۔ باقی سب یا تو موخر کیے جا سکتے ہیں، یا کسی اور کو سونپے جا سکتے ہیں۔
متوازن زندگی ایک ایسا تصور ہے، جو فرد کی جسمانی، ذہنی، جذباتی، روحانی اور سماجی جہتوں کے ہم آہنگ ارتقاء کو بیان کرتا ہے۔ انسانی زندگی پیچیدہ نظاموں کا مجموعہ ہے۔ جس میں جسم، ذہن، روح اور معاشرتی رشتے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ متوازن زندگی وہ طرزِ حیات ہے جس میں ان تمام عناصر کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی
ہے۔ جدید دور کی تیز رفتاری، مادہ پرستی، اور بے یقینی نے اس توازن کو بگاڑ دیا ہے، جس سے تنائو، ذہنی بیماریوں اور رشتوں میں دراڑیں پیدا ہو رہی ہیں۔ متوازن زندگی کا مطلب ہے کہ فرد اپنی زندگی کے تمام اہم پہلوں کو مناسب وقت، توجہ اور توانائی دیتا ہے۔ جیسے مناسب غذا، نیند، ورزش، مثبت سوچ، خود آگاہی، صبر و برداشت، مقصدِ حیات کا ادراک، عبادات، اخلاقی اقدار، خاندان، دوست، برادری سے مثبت روابط، کام میں لگن، اطمینان اور ترقی کی راہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے انسان کو معلومات کے سیلاب میں مبتلا کر دیا ہے۔ مسلسل موبائل، سوشل میڈیا اور سکرین ٹائم نے جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کیا ہے۔ اس کا حل ’’ ڈیجیٹل ڈائیٹ‘‘ ہے، یعنی ٹیکنالوجی کے استعمال میں توازن اور حدود کا تعین۔ متوازن زندگی نہ صرف فرد کی ذاتی کامیابی اور خوشی کی ضمانت ہے، بلکہ ایک صحت مند، پرامن اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد بھی ہے۔

جواب دیں

Back to top button