ایران کی رنگ آف فائر اسٹریٹجی کا مستقبل؟
تحریر : قادر خان یوسف زئی
ایران، امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات ہمیشہ سے مشرق وسطیٰ کے سیاسی منظر نامے کی اہم ترین کہانیوں میں سے ایک ہیں، اور اس کہانی کے مختلف پہلو ہمیشہ عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ ایران کی رنگ آف فائر اسٹریٹجی، امریکہ کا ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے میں عجلت، اور اسرائیل کا ایران کو خطرہ سمجھنا، یہ سب عوامل مشرق وسطیٰ کے مستقبل کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت پیدا کرتے ہیں۔ ایران کی رنگ آف فائر اسٹریٹجی ایک طویل المدتی حکمت عملی ہے جس کا مقصد مشرق وسطیٰ میں ایران کے اثر و رسوخ کو بڑھانا اور اپنے حریفوں خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کے خلاف طاقتور پوزیشن حاصل کرنا ہے۔ ایران نے اپنی اس حکمت عملی کے تحت غیر ریاستی کرداروں جیسے حزب اللہ، حماس، اور حوثی قبائل کے ذریعے اپنے مقاصد کو آگے بڑھانی کی کوشش کی ہے۔ اس اسٹریٹجی کا مقصد نہ صرف ایران کے اتحادیوں کو معاونت کرنا رہاہے، بلکہ اس کے ذریعے ایران اپنی جنگی حکمت عملیوں کو بڑھا کر اپنے حریفوں کو میدان جنگ میں کمزور کرتا ہے۔ ایران کی یہ حکمت عملی کسی بھی ممکنہ سیاسی معاہدے یا عالمی دبائو کے باوجود اپنے مفادات کو پائیدار بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایران اور امریکہ کے درمیان کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو اس اسٹریٹجی کا کیا ہوگا؟ کیا ایران اپنی رنگ آف فائر اسٹریٹجی کو ترک کر دے گا یا یہ اسٹریٹجی معاہدے کے باوجود جاری رہے گی؟ ایران کے اسٹریٹجک مفادات میں شامل ہے کہ وہ اپنے حریفوں کے خلاف طاقتور پوزیشن حاصل کرے، اور اس کے لیے وہ اپنی علاقائی ملیشیائوں کو کمک فراہم کرتا رہے گا۔ ایران کی اس اسٹریٹجی کو مکمل طور پر ترک کرنا اس کے لیے ایک مشکل فیصلہ ہو گا کیونکہ یہ نہ صرف اس کی فوجی طاقت کا حصہ ہے بلکہ اس کے لیے یہ حکمت عملی قومی مفاد کی علامت بھی بن چکی ہے۔ اگر ایران اقتصادی فوائد کے باوجود اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لاتا، تو یہ معاہدہ عالمی سطح پر ایک عارضی حل ثابت ہو سکتا ہے، لیکن ایران کی رنگ آف فائر اسٹریٹجی ہمیشہ اس کی پالیسی کا ایک لازمی جزو بنے رہے گی۔
صدر ٹرمپ، جو ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کے خواہش مند ہیں، مگر ساتھ ہی اسرائیل کو ایران کے لیے خطرہ بھی بتا رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی سیاست ہمیشہ سے غیر روایتی رہی ہے، اور انہوں نے ہمیشہ اپنے فیصلوں میں تیز رفتار پیش رفت کی کوشش کی ہے۔ ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کی جلدی کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ ایران کے ساتھ معاہدہ کر لیتے ہیں تو اس سے امریکہ کو عالمی سطح پر ایک بڑی کامیابی ملے گی، اور ان کی یہ مہم خطے کے عرب ممالک کے لیے یہ ایک مثبت پیغام ثابت ہو گا۔ ٹرمپ اسرائیل کے لئے عرب ممالک سے تسلیم کرانے کا منصوبہ اب بھی رکھتے ہیں تاہم، یہ دلچسپ بات ہے کہ صدر ٹرمپ جو ایران کے ساتھ معاہدے کے حق میں ہیں، وہ اسرائیل تو کبھی ایران کو عرب ممالک کے لیے بھی ایک خطرہ بتاتے ہیں۔
اسرائیل اور ایران کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں، اور اسرائیل نے کئی بار یہ کہا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام اسرائیل کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام کو اسرائیل کی طرف سے ایک وجودی خطرہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کرتا ہے تو وہ اسرائیل کے لیے ایک براہ راست چیلنج بن سکتا ہے۔ لیکن ٹرمپ جو ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اسرائیل کے تحفظ کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ تضاد ایک ایسا پہلو ہے جس پر سوچنا ضروری ہے۔ صدر ٹرمپ کا ایران کے ساتھ معاہدے کی جانب تیز قدم بڑھانا ایک پیچیدہ حکمت عملی کا حصہ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ٹرمپ جنگ سے بچنا چاہتے ہیں، لیکن یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے معاہدے کی جانب بڑھ رہے ہوں، تاکہ اپنی عالمی پوزیشن کے دوران یہ ثابت کر سکیں کہ انہوں نے عالمی سطح پر امن قائم کرنے کی کوشش کی۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کے ذریعے امریکہ کی ساکھ کو مزید مستحکم کریں، لیکن وہ اس حقیقت سے غافل نہیں ہیں کہ اسرائیل کا موقف ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے انتہائی سنجیدہ ہے۔
اسرائیل کا موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام پورے خطے میں طاقت کے توازن کو خراب کر رہا ہے، اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ کی حکمت عملی اور ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کی خواہش اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عالمی سطح پر امریکہ کا اثر و رسوخ اور ایران کے جوہری پروگرام پر قابو پانے کی کوشش انہیں عالمی سیاست میں ایک کامیاب قائد کے طور پر پیش کر سکتی ہے۔ یہ ایک سیاسی چال ہو سکتی ہے، تاکہ ٹرمپ اپنی پوزیشن کو مستحکم کر سکیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل اس معاہدے کو اپنے تحفظ کے لیے خطرہ سمجھے گا؟۔ اگر ایران اور امریکہ کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے تو اس کا عالمی سطح پر کیا اثر پڑے گا؟ اگرچہ ایران کو اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی رنگ آف فائر اسٹریٹجی سے دستبردار ہو جائے گا۔ ایران ہمیشہ اپنے حریفوں کے خلاف اپنی پوزیشن کو مستحکم رکھنے کی کوشش کرے گا، اور اس کے لیے وہ اپنے حامی گروپوں کو کمک اور تعاون فراہم کرتا رہے گا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام اور اس کی جنگی حکمت عملی عالمی سطح پر ایک پیچیدہ مسئلہ بن کر رہ جائے گی، جو کہ اس کے مستقبل کے تعلقات پر بھی اثر ڈالے گا۔
صدر ٹرمپ کی جلد بازی اور ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کی کوشش ایک پیچیدہ حکمت عملی کا حصہ ہو سکتی ہے، جس کا مقصد امریکہ کی ساکھ کو مستحکم کرنا اور اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانا ہو سکتا ہے۔ تاہم، ایران کی رنگ آف فائر اسٹریٹجی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں، اور یہ ہمیشہ ایران کے اسٹریٹجک مفادات کا حصہ رہے گی۔ اگرچہ ممکنہ معاہدہ ایران کو عالمی سطح پر اقتصادی فوائد فراہم کرے گا، لیکن اس کے باوجود ایران اپنی پوزیشن کو مستحکم رکھنے کے لیے اپنی جنگی حکمت عملی کو جاری رکھے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس معاہدے کا اثر نہ صرف ایران اور امریکہ کے تعلقات پر پڑے گا بلکہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن اور عالمی سیاست پر بھی گہرا اثر ڈالے گا۔