چولستان آباد ۔۔۔۔ سندھ برباد؟

تحریر : محمد ناصر شریف
حضرت علیؓ فرماتے ہیں لوگوں کے دلوں کو جیتو، ان پر ظلم مت کرو۔
انسانی تاریخ میں ترقی اور خوشحالی کے نام پر بے شمار مظالم ہوئے ہیں۔ کبھی طاقتور قومیں کمزور قوموں کو غلام بنا کر ان کے وسائل لوٹتی ہیں، تو کبھی سرمایہ دار مزدوروں کا استحصال کر کے اپنے منافع بڑھاتے ہیں۔ یہ رویہ اُس مشہور اصول کی عکاسی کرتا ہے’’ کسی کو آباد کرنے کیلئے کسی کو برباد کرنا’’۔ یہ محض ایک جملہ نہیں، بلکہ ایک سماجی حقیقت ہے جس کے گہرے اخلاقی، معاشی اور انسانی مضمرات ہیں۔ اگر ایک شخص یا گروہ ترقی کرتا ہے تو اس کی قیمت دوسرے شخص یا گروہ کی تباہی سے چکائی جاتی ہے۔ یہ رویہ ظلم، ناانصافی اور استحصال پر مبنی ہے، جو معاشرے میں عدم توازن پیدا کرتا ہے۔
کسی کی تباہی پر اپنی عمارت کھڑی کرنا نہ صرف اخلاقی لحاظ سے غلط ہے بلکہ یہ معاشری کیلئے ایک زہر ہے۔ اسلام سمیت تمام مذاہب میں انصاف، ہمدردی اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اگر ہم حقیقی ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں ایسا نظام بنانا ہوگا جہاں ہر فرد کی خوشحالی دوسرے کیلئے باعثِ برکت ہو، نہ کہ باعثِ زوال۔ گرین پاکستان انیشی ایٹو کے تحت ہنگامی بنیادوں پر دریائے سندھ پر چھ نہروں کی تعمیر کو مکمل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے جن کو اسٹریٹجک کینالز بھی کہا جا رہا ہے۔ ان نہروں کے ذریعے کم از کم 35لاکھ ایکڑ زمین آباد کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ان میں دو، دو نہریں پنجاب اور سندھ جبکہ ایک، ایک بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بنائی جائے گی۔ اسٹریٹجک کینال کے اس نیٹ ورک میں 4نہریں پہلے ہی تعمیر کے مختلف مراحل میں ہیں جبکہ پنجاب میں چولستان کینال اور گریٹر تھل کینال فیز ٹو پر ابھی کام شروع نہیں ہوا۔ پنجاب میں چولستان کے علاقے میں دی گئی صحرائی زمین کو سیراب کرنے کیلئے 211ارب روپے کی لاگت سے چولستان کینال بنائی جا رہی ہے جسے پنجاب اپنے حصے سے پانی دے گا۔ چولستان کینال سے بہاول نگر، بہاولپور کے ریگستان یعنی چولستان میں چھ لاکھ ایکڑ سے زائد بنجر زمین آباد ہو سکے گی۔ اسی طرح گریٹر تھل کینال فیز ٹو سے 15لاکھ ایکڑ زمین آباد کی جائے گی۔
اس منصوبے کو سب سے پہلے کاشتکاروں کی 3 تنظیموں، سندھ آباد گار بورڈ (ایس اے بی) ، سندھ چیمبر آف ایگرکلچر (ایس سی اے) اور سندھ آبادگار اتحاد (ایس اے آئی) کی جانب سے تشکیل دی گئی اینٹی کینالز ایکشن کمیٹی دیکر مسترد کیاگیا۔ سندھ آباد گار بورڈ کے صدر محمود نواز شاہ کا موقف ہے کہ کاشت کار اس ملک اور سندھ کی خاطر احتجاج کر رہے ہیں، صحرائے چولستان کی زمینوں تک پانی پہنچانے کیلئے بنائی جانیوالی کینالز کے پیچھے کیا حکمت ہے ؟۔
اضافی پانی کو مجوزہ کینالز کیلئے استعمال کیا جائے گا، آپ صحرا کی زمین کو پانی دیں گے اور جو زر خیز زمینیں ہیں، انہیں بنجر بنا دیں گے، اس میں کیا منطق ہے ۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ سندھ کے پانی کا مسئلہ 1935ء سے نہیں بلکہ 150سال پرانا ہے، برطانوی آبادکاروں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ سندھ میں کاشت کاری کیلئے پنجاب سے زیادہ رقبے پر مشتمل اراضی زیر کاشت رہی ہے۔ سندھ کے کاشت کار کسی بھی غیرقانونی فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے۔ سندھ چیمبر آف ایگریکلچر کے میران محمد شاہ کا موقف رہا کہ پانی کا مسئلہ پورے ملک کا ہے، یہ صرف سندھ یا پنجاب کا معاملہ نہیں ہے۔ سندھ آباد گار اتحاد کے صدر زبیر تالپور نے منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے سوال کیا کہ اگر صحرا کی نئی زمینوں پر کاشت کی جائے گی تو سندھ میں موجود
زمینوں کا کیا ہوگا ؟ سندھ کی جانب سے پہلے ہی شکایات سامنے آرہی ہیں کہ اسے 1991ء کے معاہدے کے مطابق اپنے حصے کا پانی نہیں مل رہا۔سندھ چیمبر آف ایگریکلچر کے نائب صدر نبی بخش سہتو نے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے اعداد و شمار شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ 1999ء سے 2023ء تک کے ان اعداد وشمار کے مطابق سندھ کو پانی کی 40فیصد کمی کا سامنا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پنجاب کو محض 15فیصد پانی کم مل رہا ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ چولستان کینالز بنانے کے بجائے دیا مر بھاشا ڈیم پر 240 ارب روپے خرچ کرے۔ چولستان کینالز کی تعمیر سے سندھ کی ایک کروڑ 20لاکھ ایکڑ زرعی اراضی تباہ ہوجائے گی جبکہ چولستان کینالز منصوبے سے صحرا کی صرف 12لاکھ ایکڑ اراضی پر کاشت کاری ممکن ہوسکے گی۔ سندھو دریا بچاؤ کمیٹی کے کنوینر زین شاہ نے کہا کہ جب دریائے سندھ سے پانی ان مجوزہ 6کینالز کو فراہم کیا جانے لگے گا تو اگلے 10سال میں سندھ سے ہجرت کا آغاز ہوجائے گا۔ سندھ یونائیٹڈ آباد گار فورم کے بشیر شاہ کے مطابق صوبہ سندھ زبان، زمین اور پانی کے معاملات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ کاشتکاروں کی تینوں تنظیموں کی آواز پورے صوبے میں گونجنے لگی اور پھر سندھ حکومت سمیت تمام ہی اسٹیک ہولڈرز میدان میں آگئے۔ سندھ کے گلی گلی ، کوچہ کوچہ کینالز کیخلاف سندھ کی حکومت ، پیپلزپارٹی، سیاسی و سماجی تنظیمیں وکلا برادری، سول سوسائٹی سب ہی سراپا احتجاج ہیں۔
کراچی سمیت تمام شہری علاقے بھی اس کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ کراچی سمیت سندھ میں پانی کا دارومدار دریائے سندھ پر ہی ہے۔75سال میں ایسا نہیں ہوا کہ کراچی کو سمندر کا پانی میٹھا بناکر دیاجارہا ہو ، اسکی نظر میں دریائے سندھ کی اہمیت کم ہوئی ہو۔ اندرون سندھ شاہراہوں پر ہونیوالے احتجاج کے بعد اندرون ملک تجارتی سرگرمیاں شدید متاثر ہیں، پنجاب اور کے پی کے میں پٹرولیم مصنوعات کا بحران سر اٹھارہا ہے تو سندھ میں اجناس، سبزیوں اور دیگر کی ترسیل رک گئی ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کینال کی مخالفت میں کھل کر سامنے آگئے اور منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے فوری طور پر متنازع منصوبہ واپس لینے کا مطالبہ کردیا، ساتھ ہی یہ بھی کہہ ڈالا کہ اگرمنصوبہ واپس نہ ہوا تو پیپلزپارٹی وفاقی حکومت کیساتھ نہیں چلے گی۔ بلاول بھٹو کے سخت موقف کے بعد پہلے مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے اس معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کیلئے ن لیگ کے رہنمائوں کی ہدایت دی۔ اس کے بعد وزیر اعظم کے مشیر برائے بین الصوبائی رابطہ رانا ثنااللہ نے سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن سے ایک بار پھر ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے اور دونوں رہنماؤں نے پانی کے مسئلے پر مشاورت کے عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ کینالز منصوبے پر مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے سربراہ اسحاق ڈار ہوں گے۔کمیٹی پیپلز پارٹی کی قیادت اور دیگر سے رابطہ کرکے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کا حل نکالنی کی کوشش کرے گی۔ رانا ثنااللہ نے کہا کہ تمام معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں، واٹر ایکارڈ کے مطابق کسی صوبے کا پانی کسی دوسرے صوبے کو منتقل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پانی کی تقسیم انتظامی اور تکنیکی مسئلہ ہے جس کا حل بھی انتظامی اور تکنیکی بنیادوں پر کیا جائے گا،کسی صوبے کی حق تلفی ممکن نہیں، صوبوں کے تحفظات دور کئے جائیں گے اور مشاورت کے عمل کو مزید وسعت دی جائے گی۔
رانا ثنا اللہ کے مطابق یہ پروجیکٹ سی سی آئی سے منظور ہوگا تو یہ ایکنک میں جائے گا اس کے بعد ٹینڈرنگ ہوگی اس کے بعد عملدرآمد ہوگا ۔ پنجاب اگر اپنے حصے کے پانی میں سے کوئی پروجیکٹ بناتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ 91ء کے ایکاڈ کے مطابق ہر صوبہ اپنے حصے کے پانی سے کوئی بھی پراجیکٹ بنانے کا مجاز ہے۔ صوبے کی قوم پرست پارٹیاں جنہیں سندھ نے کبھی ووٹ نہیں دیا وہ یہ الزام لگا رہی ہیں کہ یہ سندھ کو بنجر کرنے کا پروگرام ہے۔ اگر ہم ابھی یہ اعلان کر دیں تو ایسا محسوس ہوگا کہ واقعی ہم چوری کرنے جارہے تھے، بات کھلنے پر پلٹ گئے ہیں جو ہم پر الزام لگ رہا ہے ہمیں حق ہونا چاہیے کہ ہم ثابت کرسکیں کہ ہم سندھ کا پانی چھیننے نہیں جارہے تھے نہ ہی ہم چاہتے ہیں کہ سندھ بنجر ہوجائے ۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ کینال منصوبہ اگر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر احتجاج کیلئے نکلیں گے۔ سندھ کے عوام کے مفاد کیخلاف کوئی منصوبہ منظور نہیں کیا جائے گا اور وہ کینال منصوبہ روکنے کیلئے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ایک ایسا صوبہ ہے جو ہر مذہب، ہر ذات اور ہر برادری کو ساتھ لیکر چلتا ہے۔ کسی کی نیت پر شک نہیں کر رہے لیکن کسی کے ہاتھوں میں بھی نہیں کھیل رہے۔ یہ اجتماعی مقصد ہے اور ہمیں کینال منصوبے کو روکنا ہے کیونکہ یہ ملک کی بہتری کیلئے ضروری ہے۔
متنازع کینال منصوبہ ایک ایسا ایشو ہے جو وفاق کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، پانی کی منصفانہ تقسیم ہماری قومی اور عالمی ذمے داری ہے۔ جس کیلئے وفاق کو اقدامات کرنے چاہئیں، ساتھ ہی پانی حصہ سے کم ملنے کی شکایت دور ہونی چاہیے ، دوسروں کے حقوق سلب کرکے ہی نفرتوں کے بیچ بوئے جاتے ہیں اور پھر یہ بڑے خطرناک نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں وفاقی وزیر آبی وسائل معین وٹو نے کہا کہ کینالز کے معاملے پر تنازع کا باعث غلط فہمی ہے، چاروں صوبوں میں گرین پاکستان منصوبے کے تحت نہریں بننی ہیں، یہ پہلا مرحلہ ہے، مل بیٹھ کر غلط فہمی دور کر لیں گے تو تنازع بھی ختم ہو جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چولستان کی بنجر زمینیں آباد کرنے کیلئے نہروں کا منصوبہ مکمل ہوتا ہے، یا نہیں؟ آنے والے چند ہفتے میں اندازہ ہو جائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔