ہسپتالوں کی نجکاری اور مال روڈ پر دھرنے کی حقیقت؟

تحریر : عبد القدوس ملک
پنجاب حکومت کی جانب سے حال ہی میں سرکاری ہسپتالوں کی سروسز کو آئوٹ سورس کرنے کے عمل کا آغاز کیا گیا، جس کے تحت پہلے مرحلے میں پنجاب بھر کے چند منتخب ہسپتالوں میں یہ پالیسی عملی طور پر نافذ بھی کر دی گئی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف پنجاب کے مختلف اضلاع سے آئے ہوئے محکمہ صحت کے ملازمین نے لاہور میں مال روڈ چئیرنگ کراس پر دھرنا دے رکھا ہے، جو مسلسل جاری ہے۔ مظاہرین ’’ نجکاری نا منظور‘‘، ’’ ملازمین کا استحصال نامنظور‘‘ ، اور ’’ سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری نا منظور‘‘ جیسے نعرے لگا رہے ہیں۔ تاہم، زمینی حقائق اور حکومتی موقف کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ’’ نجکاری‘‘ اور ’’ آئوٹ سورسنگ‘‘ جیسے اصطلاحات کے مفہوم کو واضح طور پر سمجھیں۔نجکاری سے مراد ہے کہ کسی بھی سرکاری ادارے، محکمے یا سہولت کو مکمل طور پر نجی شعبے کے حوالے کر دیا جائے، جس کے بعد اس کی انتظامیہ، پالیسی سازی، اور مالی کنٹرول ریاست کے ہاتھ سے نکل کر نجی کمپنیوں یا سرمایہ داروں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔ اس عمل میں حکومت کا ادارے پر اختیار تقریباً ختم ہو جاتا ہے اور سروس کی قیمت، معیار، بھرتیاں و برخاستگیاں سب کچھ نجی کمپنیوں کے صوابدید پر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آئوٹ سورسنگ ایک مکمل طور پر مختلف طریقہ کار ہے جس میں کسی ادارے کے اندر موجود مخصوص شعبے جیسے صفائی، سیکیورٹی، ٹیکنیکل مینٹیننس یا دیگر نان کلینیکل خدمات کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے نجی کمپنیوں کو ٹھیکے پر دیا جاتا ہے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ ان خدمات کی نگرانی اور کنٹرول اب بھی حکومت کے پاس رہتا ہے اور سروس کے معیار کی جوابدہی بھی حکومت کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پنجاب حکومت اور محکمہ صحت کی جانب سے بھی یہی وضاحت سامنے آئی ہے کہ کسی بھی سرکاری ہسپتال کی نجکاری نہیں کی جا رہی بلکہ صرف مخصوص خدمات کو آئوٹ سورس کیا جا رہا ہے تاکہ مریضوں کو بہتر سہولیات میسر آ سکیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت کو آئوٹ سورسنگ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا جواب بھی ماضی کے انتظامی ڈھانچے اور موجودہ حالات میں چھپا ہوا ہے۔ اکثر مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جب سرکاری ملازمین مستقل ہو جاتے ہیں تو ان میں کام سے دلچسپی کم ہو جاتی ہے، بعض مقامات پر غیر حاضری، رشوت، ، جعلی بلنگ، اور بدعنوانی عام ہو جاتی ہے۔ یہ عوامل نہ صرف ادارے کے بجٹ کو تباہ کرتے ہیں بلکہ مریضوں کو صحت کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم کر دیتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں حکومت کے لیے یہ ایک ناگزیر فیصلہ بن جاتا ہے کہ وہ ایسی سروسز کو ان لوگوں کے سپرد کرے جو کارکردگی اور معیار کی بنیاد پر جوابدہ ہوں۔ جہاں تک احتجاج کرنے والے ملازمین کا تعلق ہے، ان میں سے اکثریت ایڈہاک یا کنٹریکٹ پر بھرتی ہوئی ہے، جن کے معاہدے میں واضح درج ہوتا ہے کہ ان کی مدتِ ملازمت محدود ہو گی اور ادارہ معاہدے کی تجدید یا اختتام کا اختیار رکھتا ہے۔ اگر کوئی معاہدہ ختم ہو رہا ہے تو یہ ادارے کا قانونی حق ہے اور اس پر احتجاج یا دھرنا اخلاقی یا آئینی لحاظ سے درست نہیں سمجھا جا سکتا۔
بدقسمتی سے سوشل میڈیا اور بعض گروپس کی جانب سے اس معاملے کو نجکاری کا رنگ دے کر عوام اور ملازمین میں خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے، حالانکہ نہ تو کسی مستقل ملازم کو نکالا گیا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی پالیسی زیر غور ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سروس کی بہتری کے لیے محدود پیمانے پر آئوٹ سورسنگ کی جا رہی ہے، جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ مریضوں کو بروقت، صاف ستھری اور معیاری سہولیات میسر آئیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم زمینی حقائق کا درست ادراک کریں، حکومت کے موقف کو سمجھیں اور منفی پراپیگنڈا کا شکار ہونے کے بجائے اصلاحِ احوال کی طرف بڑھیں۔ ملازمین کو چاہیے کہ وہ اپنے فرائض دیانت داری سے انجام دیں تاکہ حکومت کو ایسے سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ احتجاج کی بجائے اداروں کو شفافیت، خدمت اور بہتری کی جانب لے جانے میں اپنا کردار ادا کریں، تب ہی ہم ایک حقیقی عوام دوست نظامِ صحت تشکیل دے سکیں گے۔