امریکہ اور ایران کے مفادات کا توازن
قادر خان یوسف زئی
امریکہ اور ایران مذاکرات عدم اعتماد کی فضا میں شروع ہوئے ہیں، یہاں سب سے اہم امر یہ ہے کہ ایران کی عوام بھی ان مذاکرات سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ ایرانی معاشی حالات اس وقت انتہائی خراب ہیں۔ 2018ء میں امریکہ کی جانب سے جوہری معاہدے سے انخلا کے بعد ایران کی معیشت مزید مشکلات کا شکار ہوئی ہے، اور یہ مذاکرات ایرانی عوام کے لیے ایک اہم امید بن کر ابھرے ہیں۔ ایران کی اسٹاک مارکیٹ میں حالیہ اضافہ اور کرنسی کی قدر میں معمولی بہتری اس امر کا غماز ہے کہ ایرانی عوام کو امید ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان کسی معاہدے کی صورت میں ان کی زندگیوں میں کچھ بہتری آ سکتی ہے۔ لیکن یہ امیدیں اتنی مضبوط نہیں ہیں، کیونکہ مذاکرات کے دور میں ایران کو سخت معاشی مشکلات کا سامنا ہے، اور عالمی سطح پر اس کے تعلقات کی نوعیت اب بھی پیچیدہ ہے۔
اسی طرح، اسرائیل کا موقف بھی اس مذاکراتی عمل میں اہمیت رکھتا ہے۔ اسرائیل ہمیشہ سے ایران کے جوہری پروگرام کو ایک سنگین خطرہ سمجھتا آیا ہے، اور وہ اس مر پر اصرار کرتا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔ اسرائیل کے مطابق، اگر ایران کے جوہری پروگرام پر کوئی معاہدہ طے پاتا ہے، تو یہ خطے میں اس کے لیے مزید خطرات پیدا کر سکتا ہے، اور اسرائیل کو اپنی دفاعی حکمت عملی میں مزید تبدیلیاں لانی پڑیں گی۔ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے قریبی تعلقات ہیں، اور یہ بات چیت کے دوران دونوں ممالک کے مفادات کا ایک اہم پہلو بن کر سامنے آتی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے مسلسل یہ پیغام بھیجا جا رہا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں سے دور رکھنے کے لیے فوجی آپشن ہمیشہ موجود رہنا چاہیے، اور وہ اس امر پر زور دیتا ہے کہ ایران کے ساتھ کسی معاہدے کی صورت میں مزید شفافیت کی ضرورت ہوگی۔
اس کے برعکس، ایران کا ہمیشہ سے یہ دعویٰ ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف اور صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے، اور وہ کسی بھی صورت میں جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کے جوہری پروگرام کی تمام سرگرمیاں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA)کی نگرانی میں ہیں، اور اس کے لیے کوئی بھی غیر قانونی سرگرمی نہیں ہو رہی ہے۔ ایران کے لیے یہ امر انتہائی اہم ہے کہ عالمی برادری اس کے جوہری پروگرام کو ایک خطرہ نہ سمجھے، اور اس کے لیے بین الاقوامی ضمانتوں کی ضرورت ہے۔
مذاکرات میں ایک اور اہم موضوع میزائل پروگرام ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ ایران کے میزائل پروگرام کو اپنے جوہری پروگرام کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ وہ اسے ایک اور خطرہ سمجھتا ہے جو مشرق وسطیٰ کی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ایران نے ہمیشہ اس بات کو مسترد کیا ہے کہ اس کے میزائل پروگرام کو کسی معاہدے میں شامل کیا جائے، کیونکہ اسے اپنے دفاعی حقوق کا تحفظ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایران کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے، کیونکہ اگر امریکہ نے اس امر پر اصرار کیا کہ ایران اپنے میزائل پروگرام پر بھی مذاکرات کرے، تو یہ ایران کے لیے اپنی قومی خودمختاری کو خطرے میں ڈالنے جیسا ہوگا۔ امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ ایک انتہائی پیچیدہ اور خطرناک آپشن ہے جس سے دونوں فریقین کے لیے نقصان کا سامنا ہوگا۔ دونوں طاقتیں اس حقیقت کو بخوبی سمجھتی ہیں کہ جنگ میں جانے کے نتائج نہ صرف ان کی داخلی معیشتوں اور سکیورٹی کو نقصان پہنچائیں گے، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں ایک نئے بحران کو جنم دیں گے جس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس ہوں گے۔ اس کے باوجود، اسرائیل کو اس جنگ میں ملوث کرنے کی حکمت عملی کچھ ایسی ہو سکتی ہے جس کا مقصد ایران پر دبا ڈالنا ہو، تاہم اس کے نتائج بھی خطے میں مزید پیچیدگیوں کا باعث بنیں گے۔
اس صورتحال میں امریکہ اور ایران دونوں کے لیے لچک دکھانا انتہائی ضروری ہوگا۔ دونوں ممالک کے مفادات ایک دوسرے کے متضاد ہیں، لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی ہوگی کہ نہ تو امریکہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کی اجازت دی سکتا ہے، اور نہ ہی ایران اس امر کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو محدود کر دے۔ تاہم، یہ لچک دکھانا ممکن ہے کہ امریکہ ایران کے جوہری پروگرام کو بین الاقوامی نگرانی میں لانے کے بدلے ایران کو کچھ اقتصادی فوائد اور پابندیوں میں نرمی دینے پر راضی کر سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران اپنے جوہری پروگرام میں نرمی کے بدلے اقتصادی فائدے کی طرف مائل ہو سکتا ہے، بشرطیکہ امریکہ ضمانت دے کہ وہ دوبارہ معاہدے سے انحراف نہیں کرے گا۔
اگر دونوں ممالک اس صورتحال میں لچک دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ مذاکرات کی کامیابی نہ صرف امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری کا سبب بنے گی، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں ایک نئی سیاسی فضا قائم ہو سکتی ہے۔ یہ یقینی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان فوراََ ہی کسی معاہدے پر پہنچانا ممکن نہیں اس کے لئے مذاکرات کے دوران دونوں فریقین کو اپنے اندرونی دبا کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔ ایرانی حکومت کے لیے مذاکرات میں کامیابی حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے عوام کو دکھا سکے کہ اس کے اقدامات عالمی سطح پر ایران کے مفادات کے لیے فائدہ مند ہیں۔ امریکہ میں بھی یہ دبا موجود ہے کہ وہ ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے اس خطے میں طویل المدتی امن کا قیام ممکن بنائے، کیونکہ یہ دنیا بھر میں اس کی خارجہ پالیسی کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ اس مذاکرات کے نتیجے میں نہ صرف امریکہ اور ایران کی پالیسیاں متاثر ہوں گی، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں اس کے اثرات محسوس ہوں گے۔
اگرچہ یہ مذاکرات ایک پیچیدہ عمل ہیں، تاہم ان کے نتیجے میں ایک نئی سفارتی فضا کا آغاز ہو سکتا ہے، جس سے عالمی سیاست میں ایک نیا رخ آ سکتا ہے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں، تو یہ نہ صرف مشرق وسطیٰ کے ممالک کے لیے ایک نیا سبق ہوگا بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک مثال قائم کرے گا کہ بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے عالمی بحرانوں کا حل ممکن ہے۔ لیکن یہ سب اس امر پر منحصر ہے کہ دونوں ممالک کتنی لچک دکھا سکتے ہیں اور کیا وہ ایک دوسرے کے مفادات کا احترام کرتے ہوئے کسی متفقہ حل تک پہنچ سکتے ہیں۔ اگر مذاکرات میں ناکامی ہوتی ہے تو اس کا نتیجہ نہ صرف امریکہ اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنے گا بلکہ پورے خطے میں ایک نئے تصادم کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔