Column

گمان

علیشبا بگٹی

گمان دو طرح کے ہوتے ہیں۔ اچھا اور برا۔ مطلب خوش گمانی اور بد گمانی۔
خوش گمانی ایک ایسا عمل ہے، جس میں انسان ایک منفی یا غیر واضح صورتحال کو مثبت زاویہ دے کر اپنے ردِعمل کو تبدیل کرتا ہے۔ جو انسان کے خیالات اس کے جذبات اور رویے کو متاثر کرتے ہیں۔ مثال اگر کوئی دوست فون نہ اٹھائے، تو خوش گمان شخص سوچے گا کہ ’’ شاید وہ مصروف ہے‘‘۔ جبکہ بدگمان شخص فوراً منفی مفہوم اخذ کرے گا۔ جیسے ہم کسی کو کال کرتے ہیں وہ موبائل سائلینٹ کر کے سو جاتا ہے۔ باتھ رُوم چلا جاتا ہے۔ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے، کہیں مصروف ہوتا ہے یا موبائل چارج پر لگا ہوتا ہے اسے پتہ نہیں چلتا کہ کال آرہی ہے۔ کال نہیں اٹھا سکا۔ تو ذہن میں گمان شروع ہوتا ہے۔ کہ جان بوجھ کے کال نہیں اٹھا رہا۔ اس گمان کے منفی اثرات پیدا ہونگے۔ غصہ ، بغض ، حسد پیدا ہوتا ہے ۔ برے گمان سے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں اور فسادات پیدا ہوجاتے ہیں۔ رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے ، دوسروں کے بارے خود سے چیزوں کو ، معاملات کو بدگمانی میں بدل لینے کی وجہ سے تعلقات میں دوری اور خرابی جڑ پکڑتا ہے۔ کسی فرد یا صورتحال کے بارے میں بہتر اور مثبت سوچ رکھنا، بغیر کسی ثبوت کے منفی سوچ اختیار نہ کرنا ہی خوش گمانی ہے۔ حدیثِ ہے کہ ’’ اللّٰہ سے خوش گمان رہو، کیونکہ وہ اپنے بندوں کے گمان کے مطابق معاملہ فرماتا ہے‘‘۔
اسلامی تعلیمات میں خوش گمانی کو اخلاق حسنہ کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ ’’ حسن ظن حسن عبادت میں سے ہے‘‘۔ قرآن پاک میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، یقیناً بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘۔
ایک محترمہ ٹیکسی ڈرائیور کے برابر والی سیٹ پر بیٹھ کر سفر کر رہی ہے۔ حالانکہ پچھلی سیٹیں خالی ہیں۔
ایک شخص مسجد کے آگے سے گزر رہا ہے ، جبکہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ اور وہ نماز ادا کیے بغیر آگے گزر جاتا ہے۔
آپ ایک آدمی کے پاس سے گزرتے ہیں اور اسے سلام کرتے ہیں مگر وہ جواب نہیں دیتا۔
ان تینوں صورتحال میں ہماری بدگمانی بالکل غلط ثابت ہوگی۔ جب اس سچائی کا پتہ چلے گا کہ محترمہ، ٹیکسی چلانے والے کی اہلیہ ہیں۔ اس آدمی نے دوسری مسجد میں نماز پڑھ لی ہے۔ اس شخص نے آپ کے سلام کی آواز سنی ہی نہیں ہے۔
اکثر دفعہ آپ معاملے کے صرف ایک رخ کو دیکھتے ہیں لہذا دوسرے رخ کو آپ مثبت طرح سے لیں، تاکہ لوگوں کے ساتھ زیادتی اور ان کی حق تلفی نہ ہو۔ دوسروں سے متعلق ہمیشہ نیک گمان رکھیں۔ اچھا گمان چاہے اپنے بارے میں ہو یا کسی دوسرے کے بارے میں ہو، نیک نیتی ہے۔ ہمیں حکم بھی اچھا گمان کرنے کا دیا گیا ہے۔ اچھا گمان اچھی سوچ اور اچھی صحبت کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ کسی نے کہا۔ اگر کسی بھائی کو پہاڑ کی چوٹی پر یہ پکارتے ہوئے سنو۔ ’’ انا ربکم الاعلی‘‘ یعنی میں تمہارا عظیم ترین رب ہوں۔۔ تو میں یہی گمان کروں گا کہ وہ قرآن کی تلاوت کر رہا ہے۔۔ خوش گمانی مثبت مفروضہ یا مثبت نسبت کا خود ساختہ ذہنی رویہ اور ایک نفسیاتی حالت ہے۔ جس میں انسان دوسروں کی نیت یا عمل کو مثبت زاویے سے دیکھتا ہے، یہاں تک کہ غیر واضح یا منفی نظر آنے والی صورتحال میں بھی۔ خوش گمانی والے لوگ نرم دل اور تعاون پسند ہوتے ہیں۔ یہ ہمیشہ بہتری کی توقع رکھتے ہیں، اُمید پرستی خوش گمانی کا مرکز ہے۔ مثال، اگر کوئی ہم سے بدتمیزی کرے اور ہم یہ سوچیں کہ شاید وہ کسی پریشانی میں ہے، تو یہ رویہ معاشرتی فساد سے بچا سکتا ہے۔ خوش گمانی ڈپریشن، ذہنی دبائو کو کم کرتی ہے۔ بے چینی سے بچاتی ہے۔ اور لچک کو بڑھاتی ہے۔ خوش گمانی، بظاہر ایک سادہ رویہ ہے، مگر دراصل یہ انسان کے وجودی شعور، اخلاقی ساخت، اور نظریہ حقیقت سے براہِ راست وابستہ ہے۔ خوش گمانی کو محض ایک معاشرتی خوبی نہیں بلکہ ایک فلسفیانہ استعارے کے طور پر بھی پرکھنا چاہیے۔ خوش گمانی بھی ایک ایسا ہی انتخاب ہے۔ یہ اس وقت بامعنی بنتا ہے۔ جب انسان ہر اس لمحے میں مثبت سوچ کو اختیار کرتا ہے۔ جس میں وہ منفی تجزیے کا حق بھی رکھتا ہو۔ یہ فیصلہ، اگرچہ سادہ لگتا ہی، مگر درحقیقت ایک وجودی بغاوت ہے۔ خوش گمانی کو اگر خیر کے زمرے میں رکھا جائے تو یہ اس ’’ مثالی خیر‘‘ کی طرف ایک قدم ہے۔ کانٹ کے نزدیک، انسان وہی عمل کرے جو ہر انسان کے لیے اصول بن سکے۔ اس معیار سے دیکھیں تو خوش گمانی دوسروں کے ساتھ ویسا ہی برتائو ہے، جیسا ہم اپنے لیے چاہتے ہیں۔ ارسطو کے مطابق اچھا انسان وہ ہے جو اعتدال میں رہتے ہوئے حسنِ ظن رکھتا ہے۔ کچھ مفکرین خوش گمانی کو شعوری ارادے سے جوڑتے ہیں۔ انسان کا شعور ہمیشہ کسی شے کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اور وہ شے جیسی نظر آتی ہے، ویسی ہوتی نہیں۔ خوش گمانی دراصل حقیقت کے ایک مخصوص زاویے سے ’’ مشاہدہ‘‘ ہے۔ یہ مشاہدہ شعور کی اخلاقی ترتیب کی غمازی کرتا ہے۔ خوش گمانی ، انسان کی ایک ایسی مثبت نفسیاتی کیفیت ہے جو نہ صرف فرد کی شخصیت کو نکھارتی ہے بلکہ معاشرے میں محبت کو فروغ بھی دیتی ہے۔ خوش گمانی انسانی رویوں کا وہ پہلو ہے جو کسی بھی سماج کی فکری بنیاد کو مستحکم کرتا ہے۔ ’’ خوش گمانی دلوں کو جوڑتی ہے، بدگمانی دلوں کو توڑتی ہے‘‘۔
’’ خوش گمانی محبت کو بڑھاتی ہے، اور بدگمانی نفرت کو جنم دیتی ہے‘‘ ۔
’’ اچھے دل والے ہمیشہ خوش گمان ہوتے ہیں، کیونکہ وہ ہر حال میں بہتری دیکھنے کا ہنر رکھتے ہیں‘‘۔
’’ اگر دل میں خوش گمانی ہو تو ہر بات میں خیر نظر آتی ہے‘‘۔
جب آپ خود میں مزید بہتری کی گنجائش نہیں سمجھتے تو آپ خوش فہم ہیں اور جب آپ خود کو مزید بہتر سے بہتر کرنے کی جستجو کے ساتھ اپنے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم کرتے ہیں تو آپ خوش گمان ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ معاشرے میں بدگمانی بہت عام ہے لیکن کیا کریں، دھوکہ دہی کی کثرت نے ہی تو اِسے جنم دیا ہے۔ ’’ خوش گمانی‘‘ میں ذرہ بھر مبالغہ اِسے خطرناک ’’ خوش فہمی‘‘ میں بدل دیتا ہے۔ جو جلد یا بدیر منہ کے بل گرا دیتی ہے۔ خوش گمانی بیک وقت ایک اخلاقی خوبی اور ایک فلسفیانہ معمہ ہے۔ یہ انسان کے شعور کا ایک انتخاب ہے، جو بعض اوقات روح کی بلندی بن جاتا ہے اور بعض اوقات (باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے )
حقیقت سے فرار۔ اس کا دار و مدار اس پر ہے کہ ہم اسے کب، کیوں، اور کیسے اپناتے ہیں۔
’’ خوش گمانی ایک چراغ ہے، مگر اس کے جلنے یا جلانے کا فیصلہ عقل، وقت، اور ارادہ کرتے ہیں‘‘۔
’’ خوش گمانی ایک ایسا چراغ ہے جو دل کے اندھیروں کو روشن کرتا ہے‘‘۔
نطشے جیسے فلسفی خوش گمانی کو ایک کمزور انسان کا دفاعی ہتھیار سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ’’ نیکیاں، کمزوروں کی چالاکیاں ہیں۔ خوش گمانی ایک طرح کی مصلحت پرستی ہے‘‘۔ نطشے کے مطابق خوش گمانی انسان کو کمزور اور مفعول بناتی ہے، یہ زندگی کی تلخیوں سے نظریں چرا کر آرام پسندی میں رہنے کا بہانہ ہے۔ خوش فہمی اور اچھے گمان میں کتنا فرق ہوتا ہے؟ خوش فہمی انسان کی اپنی ذات کے بارے میں ہوتی ہے کہ وہ کسی غلط بات کو صحیح سمجھ رہا ہو بعض اوقات یہ دوسروں کی جھوٹی تعریفوں کا نتیجہ بھی ہوتی ہے اور یہ نقصان کی صورت بن سکتی ہے۔ بیوقوفی اور خوش گُمانی میں بھی فرق سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ آپ جتنی بھی اچھی خوش گمانی رکھیں مگر غلاظت کے ڈھیر سے کبھی بھی گلاب کی خوشبو نہیں آسکتی۔ خوش گمانی ضرور رکھیں۔ مگر کیکر، منچنیل یا سربرا اوڈولم کا بیج بو کر آم، انار یا گمان

جواب دیں

Back to top button