پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ: چیلنجز اور حکمت عملی
تحریر : قادر خان یوسف زئی
پاکستان میں حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا کے علاقوں میں جہاں سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر حملوں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ خیبر پختونخوا کی پولیس کی حالیہ سہ ماہی رپورٹ کے مطابق، جنوری اور مارچ 2025ء کے دوران دہشت گرد حملوں میں 45 افراد جاں بحق اور 127زخمی ہوئے۔ ان اعداد و شمار میں پولیس فورس کے 37 اہلکار اور فرنٹیئر کور ( ایف سی) کے 34 جوان شامل ہیں جو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ ان حملوں کے پیچھے موجود عوامل نہ صرف پاکستان کی داخلی سکیورٹی کے لیے سنگین خطرہ ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کے استحکام کے حوالے سے سوالات اٹھا رہے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کی لہر کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک طویل تاریخ رکھتی ہے۔ 1980ء کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران اس وقت کی حکومت نے امریکی امداد کے ذریعے افغان مجاہدین کو سپورٹ کیا تھا، جس کے بعد کئی عسکری گروپوں نے اپنے مقاصد کے لیے پاکستان کی سرحدوں کے اندر بھی اپنی کارروائیاں شروع کر دیں۔ دہشت گردی کے یہ نیٹ ورک 2001ء کے بعد مزید پیچیدہ ہوئے، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان نے عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ افغان طالبان کے خلاف جنگ کے اثرات پاکستان کی سرحدوں کے اندر بھی محسوس ہونے لگی، اور خاص طور پر خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔
موجودہ حالات میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر کی وجہ نہ صرف خارجی عوامل ہیں بلکہ داخلی مسائل بھی ہیں۔ پاکستان میں غربت، بیروزگاری اور تعلیمی بحران کی وجہ سے نوجوان نسل کو دہشت گرد گروپوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ دہشت گردی کے نیٹ ورک نے ان معاشی و سماجی مسائل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ایجنڈے کو بڑھایا ہے۔ اس کے علاوہ، افغانستان میں افغان طالبان کی واپسی اور پاکستان کی سرحدوں پر موجود اسٹریٹجک گرائونڈ کی وجہ سے ان کے حملوں میں تیزی آئی ہے۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے ان حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائی ہیں، لیکن ان کی کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا مکمل طور پر خاتمہ نہ کیا جائے۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں اس امر کا واضح اشارہ ہیں کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے لیے اب مزید جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنا ضروری ہو گیا ہے۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز، خاص طور پر فوج، پولیس اور فرنٹیئر کور ( ایف سی)، نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ ان کی قربانیاں کسی بھی قیمت پر نظرانداز نہیں کی جا سکتی ہیں۔ خیبر پختونخوا اور دیگر قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف متعدد آپریشنز کیے ہیں، جن کے دوران ہزاروں دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے اور ان کے نیٹ ورک کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، پاکستانی سکیورٹی فورسز ملکی سرحدوں کو محفوظ بنانے اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں پرعزم ہیں، اور یہ عزم دہشت گردوں کے خلاف ایک اہم پیغام ہے۔ ان کے بیانات میں اس امر کا ذکر کیا گیا ہے کہ پاکستان کی فوج اپنی جدید تکنیکی صلاحیتوں اور انٹیلی جنس معلومات کے ذریعے دہشت گردوں کے حملوں کا قلع قمع کرنے کے لیے تیار ہے۔ فرنٹیئر کور اور پولیس فورس کے اہلکاروں کو مزید تربیت دینے اور جدید وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ دہشت گردوں کے حملوں کا مثر مقابلہ کر سکیں۔ ان فورسز کا کردار خاص طور پر سرحدی علاقوں میں انتہائی اہم ہے، جہاں دہشت گرد اپنے نیٹ ورک کو مستحکم کرتے ہیں۔پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے کا حل صرف سکیورٹی فورسز کے اقدامات تک محدود نہیں ہے۔ اس میں عوام کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ عوامی سطح پر دہشت گردی کی خلاف شعور اجاگر کرنا ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوامی سطح پر اس بات کی آگاہی بڑھائے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ میڈیا، تعلیمی اداروں اور دیگر عوامی پلیٹ فارمز پر اس مسئلے کے بارے میں آگاہی فراہم کرنی ہوگی تاکہ عوام دہشت گردی کے خطرات سے آگاہ ہوں اور اس کے خلاف تعاون کریں۔ پاکستان کی حکومت کو بھی معاشی ترقی کی طرف توجہ دینی ہوگی تاکہ دہشت گردی کی جڑوں کو ختم کیا جا سکے۔ بیروزگاری اور غربت کو کم کرنے کے لیے حکومت کو زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ، تعلیم کی سطح کو بہتر بنانا اور نوجوانوں کو معاشرتی طور پر مفید سرگرمیوں میں مشغول کرنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ دہشت گردی کی جانب راغب نہ ہوں۔پاکستان نے عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے کردار کو تسلیم کرایا ہے، اور دنیا بھر میں اس کی کوششوں کو سراہا جا رہا ہے۔ پاکستان کی فوج نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کے دوران بے شمار کامیابیاں حاصل کی ہیں، اور عالمی برادری نے ان کی قربانیوں کو تسلیم کیا ہے۔ تاہم، پاکستان کو عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف مزید تعاون حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کے نیٹ ورک کو عالمی سطح پر تباہ کیا جا سکے۔ پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف عالمی سطح پر مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف تعاون اور ایک جامع حکمت عملی کے ذریعے ہی اس مسئلے کا مکمل حل ممکن ہے۔ اس کے لیے پاکستان کو دیگر ممالک کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ اور دہشت گردی کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے داخلی سطح پر بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
حکومت کو دہشت گردی کے اسباب پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ معاشی ترقی کے علاوہ، حکومت کو صحت، تعلیم، اور سوشل سروسز کے شعبوں میں بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو بہترین زندگی گزارنے کے مواقع مل سکیں اور وہ دہشت گردی کے نیٹ ورک کا حصہ نہ بنیں۔ جب تک پاکستان کے اندرونی مسائل حل نہیں ہوں گے، دہشت گردی کی لہر کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے کا حل کوئی راتوں رات نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک طویل جدوجہد ہے جس میں عوام، سکیورٹی فورسز، اور حکومت کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ سکیورٹی فورسز کی قربانیاں، حکومت کے اقدامات، اور عوام کا تعاون اس جنگ میں کامیابی کی کلید ہیں۔