پاکستان کا خزانہ: خواب یا حقیقت

تحریر : تجمیل حسین ہاشمی
گزشتہ روز پاکستان کے موقر اخبارات کی شہ سرخیوں میں وزیراعظم پاکستان جناب شہباز شریف کا ایک اہم بیان شائع ہوا، جس میں انہوں نے کہا: ’’چیف آف آرمی سٹاف کی مدد سے پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کریں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا: ’’کھربوں ڈالر مالیت کے معدنی ذخائر کی مدد سے ہم آئی ایم ایف کو خیرباد کہہ دیں گے۔‘‘ یہ بیانات بلاشبہ پاکستان کے معاشی حالات میں ایک بڑی تبدیلی کی نوید ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قوم کے بہتر دن اب زیادہ دور نہیں۔ بلاشبہ 25کروڑ عوام کے خیالات اور نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں، لیکن ایک بات پر سب متفق ہیں کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ ماضی میں ہماری حکومتوں کو ان معدنی ذخائر کی پراسیسنگ کیلئے وسائل کی کمی کا سامنا رہا، تاہم موجودہ حکومت اس جانب سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کی مشترکہ کوششوں سے معاشی صورتحال میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔ یہ کالم ان لوگوں کیلئے ہے جو اس خوشخبری یا حقیقت پر یقین نہیں کر پا رہے۔ میں کہنا چاہوں گا کہ اپنی سوچ کو مثبت رکھیں اور ایسا کوئی عمل نہ کریں جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے۔ اب بات کرتے ہیں ان معدنی ذخائر کی، جن سے قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ معروف صحافی شہزاد اقبال کو دیئے گئے انٹرویو میں بیرک گولڈ کے سی ای او مارک بیرسٹو نے کہا کہ ان کی کمپنی سعودی عرب، امریکہ اور دیگر ممالک سے سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرے گی۔ خیال رہے کہ کینیڈا کی بیرک گولڈ کمپنی نے ریکوڈک منصوبے پر پاکستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر نکالنے کی منظوری دیدی ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق یہ کمپنی ریکوڈک منصوبے میں 3ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی، جب کہ ذرائع کے مطابق 2028میں اس منصوبے کی پہلی پیداوار متوقع ہے۔ دنیا تیزی سے ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہی ہے اور وہی ممالک آگے ہیں جو سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے قدرتی وسائل کو مثر انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ آج کل ایک اصطلاح بار بار سننے کو ملتی ہے: ’’نایاب زمینی عناصر(Rare Earth Elements – REEs)۔‘‘ یہ عناصر مستقبل کی معیشت، دفاع اور توانائی کا بنیادی ایندھن تصور کئے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے: کیا پاکستان کے پاس بھی یہ خزانہ موجود ہے؟ نایاب زمینی عناصر 17دھاتی عناصر پر مشتمل ہوتے ہیں، جن میں نیوڈیمیم، سیریئم، سمرئیم اور یٹریم شامل ہیں۔ یہ عناصر زمین میں بہت کم مقدار میں پائے جاتے ہیں اور عموماً دوسرے معدنیات کے ساتھ مخلوط ہوتے ہیں، جنہیں علیحدہ کرنا ایک مہنگا اور پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔ ان عناصر کے بغیر جدید زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ ان کا استعمال درج ذیل شعبوں میں ہوتا ہے: موبائل فونز، لیپ ٹاپس اور ٹیبلٹس، الیکٹرک گاڑیاں اور بیٹریز، ونڈ ٹربائنز اور سولر پینلز، دفاعی ٹیکنالوجی (گائیڈڈ میزائلز، ریڈار) فائبر آپٹکس اور میڈیکل آلات۔ دنیا میں چین اس وقت REEsکی پروسیسنگ میں 85فیصد حصہ رکھتا ہے اور سب سے بڑا پیدا کنندہ ہے۔ پاکستان بھی ان نعمتوں سے محروم نہیں۔ خاص طور پر بلوچستان، گلگت بلتستان، اور چاغی کے پہاڑی سلسلوں میں نایاب زمینی عناصر کے ذخائر موجود ہونے کے شواہد پاکستانی جیولوجیکل سروے اور بعض غیر ملکی اداروں نے پیش کئے ہیں۔ بدقسمتی سے ریکوڈک اور سیندک جیسے منصوبے سونے اور تانبے تک محدود رہے، جب کہ انہی علاقوں میں نایاب عناصر بھی چھپے ہوسکتے ہیں۔ ماضی میں کوئی مکمل قومی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی، اور نہ ہی ریفائننگ ٹیکنالوجی پر خاطر خواہ توجہ دی گئی۔ درپیش چیلنجز اور اس وقت ضروری ٹیکنالوجی کی متقاضی ہے۔ ماضی کی حکومتوں میں پالیسی سازی میں مستقل مزاجی کی کمی رہی ہے۔ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور بدعنوانی، رشوت ستانی نے سرمایہ کاری کی راہیں مسدود کیں۔ اداروں کی طرف بے جا قانون سازی نے سرمایہ کار کی مشکلات کو بڑھایا ہے۔ اداروں کی طرف سے رشوت اور بے جا تنگ کرنا معمول بن چکا ہے۔ اس کی روک تھام کیلئے صوبائی حکومتوں کی طرف سے اقدامات نہیں کئے جارہے۔ موجودہ حکومت اب اس میدان میں سنجیدہ ہے۔ لیکن مقاصد کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک صوبائی حکومتیں لا اینڈ آرڈر کی صورت حال کو بہتر کرنے میں کردار ادا نہیں کریں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت مکمل اور جدید جیولوجیکل سروے کو جاری رکھے ۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تحقیق، ریسرچ کو فروغ دیا جائے۔ سرمایہ کاری کیلئے شفاف اور پرکشش ماحول فراہم کیا جائے۔ مقامی صنعت اور مزدوروں کو تربیت دے کر بیروزگاری کم کی جائے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو ہنرمند بنا کر دشمن کے پروپیگنڈے سے بچایا جائے۔ صوبائی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کو لسانی پرچار ختم کرنا ہوگا۔ تفریق و تقسیم پیدا کرنیوالے بیانات سے دور رہنا ہوگا۔ جب بھی وفاق ملکی معیشت کی بہتری کیلئے آگے بڑھا ہے، چند ایک سیاسی جماعتوں کی طرف سے لسانیت، تقسیم کو ہوا دی جاتی رہی ہے۔ گلی محلوں میں ریاست مخالف بیانات دینے والے کی پکڑ ضروری ہے، جو اس بات کا مال کھا رہے ہیں۔ ملکی استحکام آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ جیسا کہ آرمی چیف بھی اس جانب توجہ دے رہے ہیں کہ پاکستان معدنی وسائل کے ذریعے دنیا کے خوش نصیب ممالک میں شامل ہوسکتا ہے، اور اپنی کمزور معیشت کو مضبوط کرنے کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ پاکستان 2028میں ایک کامیاب معیشت کے ساتھ کھڑا نظر آئے گا۔ اس کامیابی پر لوگوں کو یقین نہیں آرہا لیکن یہ سچ ہے کہ پاکستان دنیا میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے گا، انشاء اللہ۔ لیکن ریاست کے ساتھ فرد کو اپنے کردار، رویے کو بھی بہتر کرنا پڑے گا۔ اب مافیا گیری، پیدا گیری، ڈاکو گیری نہیں چلے گی۔ احتساب کا وقت بہت قریب ہے۔