ColumnFayyaz Malik

سپیشل مانیٹرنگ یونٹ اور تھانہ کلچر

تحریر : فیاض ملک
پنجاب پولیس آج بھی ایکٹ 1861اور 2002کے تحت صوبے بھر میں امن و امان کوقائم رکھنے اور قانون پر عملدرآمد کرانے کا پابند ادارہ ہے، قیام پاکستان کے بعد خان قربان علی خان سے لیکر عامر ذوالفقار خان تک54 آفیسر اس فورس کی کمانڈ کرچکے ہیں جبکہ ڈاکٹر عثمان انور55ویں آئی جی کی حیثیت سے اس وقت پنجاب پولیس کی کمانڈ کررہے ہیں ،پولیسنگ کا سوال آزادی سے پہلے اور بعد میں کافی بحث کا موضوع رہا ہے اور اس مقصد کیلئے مختلف حکومتوں کی جانب سے متعدد کمیشن، کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، جن میں کچھ زیادہ اہم کمیشن اور کمیٹیاں درج ذیل ہیں:1832 کی منتخب کمیٹی،پولیس کمیشن 1860،1902کا پولیس کمیشن،1926کی لمسڈن کمیٹی،جسٹس جے بی کانسٹینٹائن کے تحت 1961کا پولیس کمیشن،میجر جنرل اے او مٹھا کے ماتحت 1969کا پاکستان پولیس کمیشن، ایم اے کے چودھری کی سربراہی میں 1976کی پولیس اسٹیشن انکوائری کمیٹی،رفیع رضا کی قیادت میں 1976کی پولیس ریفارمز کمیٹی،اسلم حیات کی سربراہی میں 1976کی پولیس کمیٹی،ایم اے کے چودھری کی سربراہی میں 1990 کی پولیس ریفارمز امپلی منٹیشن کمیٹی،2001کی پنجاب گورنمنٹ کمیٹی شہزاد حسن پرویز کی سربراہی میں2000کی پولیس اصلاحات پر فوکل گروپ بنایا گیا تھا ،اس پاور پلان کی منتقلی کے نتیجے میں پولیس کے قانونی ڈھانچے میں بڑی تبدیلی آئی،صوبائی حکومت کے اختیارات کو اضلاع میں منتقل کرنے اور پولیس کے عوامی احتساب کو متعارف کرانے پر زور دیا گیا،پاور پلان کی منتقلی کے مطابق 2001میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر کو ختم کر دیا گیا اور پبلک سیفٹی کمیشن کا نظام متعارف کرایا گیا۔ان تبدیلیوں کو ایک نئے پولیس قانون میں شامل کیا گیا جو 2002 میں نافذ کیا گیا تھا،ان متعدد کمیشن اور کمیٹیوں کے باوجود آج بھی صورتحال یہ ہے کہ ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اس ادارے کی کارکردگی کیسے بہتر بنائی جائے، حالانکہ بات بڑی سیدھی اور واضح ہے کہ تھانہ کلچر جرائم میں اضافے کا سبب ہے اور جب تک پولیس میں بامعنی اور با مقصد اصلاحات نہ لائی جائیں تب تک تھانہ کلچر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس اور عوام کے درمیان جو بداعتمادی کا جو پہلو موجود ہے وہ ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ جب بھی کسی دو فریقین میں اعتماد کی کمی ہوتو وہ ادارے اپنی حیثیت اور ساکھ کو بہتر طور پر پیش نہیں کرسکتے، ایسا نہیں کہ پورے پولیس کے نظام میں اچھے لوگ یا ایسے افراد نہیں جو قانون کی حکمرانی اور شفافیت پر مبنی پولیس نظام کے حامی نہیں ہر حکومت کی جانب سے تھانہ کلچر کو تبدیل کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جا نے کے بلند و بانگ دعوے کئے جاتے ہیں مگر اس حکومت کے جاتے ہی وہ دعوے دم توڑ جاتے ہیں اور نئی حکومت کے آتے ہی یہ دعوے اگلے پانچ سال کیلئے پھر زندہ ہوجاتے ہیں ،قیام پاکستان کو 77سال گزر گئے مگر یہ تھانہ کلچر کب تبدیل ہوگا؟اس سوال کا جواب تاحال زیر بحث ہے،تھانہ کلچر کی تبدیلی کا یہ سوال اس لئے اٹھانا پڑ رہا ہے کہ کچھ ایسے ہی دعوے ماضی کے حکمران بھی کرتے رہے ہیں،کیونکہ آج بھی تھانوں اور ڈکیتی، راہزنی اور چوری جیسے جرائم کی ایف آئی آر کا بروقت اندراج نہ کرنا اور شہریوں کو مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کرنا ہمیشہ پولیس کی اولین ترجیحات میں شامل رہا ہے، ایف آئی آر کے اندراج سے لیکر انصاف کے حصول تک ایک شہری کن کن مشکلات کا سامنا کر چاہتا ہے اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے، جہاں جرائم کی شرح میں اضافے کا انکشاف کچھ عرصہ قبل ہونے والی وزیر اعلیٰ کی میٹنگ میں پنجاب پولیس کے ہی 2024کے جرائم کا ریکارڈ میں سامنے آیا تھا،جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اچھی خاصی برہمی کا بھی اظہار کیا تھا ، وہی اب ایک بار پھر پنجاب پولیس کی کارکردگی کی رہی سہی کسر کا پول وزیراعلیٰ آفس کی جانب سے جاری ہونے والی اس رپورٹ نے کھول کر رکھ دیا ہے جس میں وزیراعلیٰ آفس کے سپیشل مانیٹرنگ یونٹ نے 6ہزار136افراد کی مقدمہ درج کرانے کے بعد پولیس کے رویہ پر سروے کرکے اس کی رپورٹ وزیر اعلیٰ اور آئی جی پنجاب کو بھجوا دی۔
رپورٹ کے مطابق ایف آئی آر کے اندراج کے بعد23سو32لوگوں نے پولیس کے رویہ اور کارروائی پر اعتماد کا اظہار کیا جبکہ15سو 50 لوگوں کو پولیس کے رویہ سے پریشانی کا اظہار کیا،561ایف آئی آرز پر غلط نمبر درج جبکہ 313ایف آئی آرز میں مطلوبہ مدعی دستیاب نہیں تھا،408مدعیان نے پولیس کے عدم تعاون کی شکایات کی،729 کیسز ابھی تھانوں میں زیر التوا ہیں،لاہور پولیس کے تھانہ باغبانپورہ ،سبزہ زار،گارڈن ٹائون کے اے ایس آئیز اور ایک ایس پی آفس کے عدم تعاون کے رویہ کی شکایت بھی کی گئی،پولیس اہلکاروں کے بدتمیزی میں ملوث ہونے کی متعدد رپورٹس موصول ہوئی ہیں، جن میں عوام کے ساتھ برتائو کے دوران بدتمیزی، اختیارات کا غلط استعمال، اور نامناسب طرز عمل شامل ہیں، افسران پر اپنے فرائض کی انجام دہی کے عوض رشوت مانگنے کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں، کچھ کیسز میں اہلکاروں پر ذاتی مالی فائدے کیلئے جان بوجھ کر تحقیقات میں ہیرا پھیری کرنے کا الزام لگایا گیا ہے، متعدد کیسز میں پولیس افسران نے بروقت شکایات کا جواب دینے میں ناکام ہو کر غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔شکایات کے ازالے میں بلاجواز تاخیر، ضروری چھاپے مارنے سے انکار، اور سنگین معاملات میں کارروائی کی مجموعی کمی شامل ہے،جس کی وجہ سے متاثرہ افراد میں مزید پریشانی اور عدم تحفظ پیدا ہوا ہے۔متعدد افسران نے غیر جانبداری سے انصاف کو برقرار رکھنے کے بجائے بااثر افراد یا طاقتوروں کا ساتھ دیا ہے،متعدد معاملات میں، مبینہ طور پر شکایات کو نظر انداز کیا گیا ہے، اور متاثرین کو قانونی تحفظ اور سہارا حاصل کرنے کے بجائے تنازعات کے حل کیلئے دبائو ڈالا گیا ہے جس کے وہ حقدار ہیں، چوری کی گئی رقم برآمد ہوئی ہے، یہ الزام لگایا گیا ہے کہ پولیس نے برآمد شدہ رقم کا ایک حصہ اپنے پاس رکھا اور شکایت کنندہ کو صرف ایک مخصوص رقم واپس کی،چوری شدہ موبائل فونز کا سراغ لگانا صرف فیس کی ادائیگی پر شروع کیا جاتا ہے، جو شکایت کنندہ کو برداشت کرنا ہوتا ہے،موبائل فون چوری کے واقعات میں پولیس کی جانب سے ردعمل کی شرح خاصی کم ہے۔واضح رہے کہ وزیر اعلی کے سپیشل مانٹیرنگ یونٹ کی یہ رپورٹ ایک محدود دائرہ کار میں مرتب کی گئی ہے اگر اس کو پورے پنجاب میں درج ہونے والے مقدمات اور ان کی تفتیش کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی ایمانداری سے تیار کیا جائے تو حقائق اس سے بھی زیادہ خوفناک ہوسکتے ہیں ، صوبے میں بڑھتے ہوئے جرائم ایک تلخ حقیقت ہے جس سے آنکھیں نہیں پھیری جاسکتیں، لیکن پولیس کا عوام کے ساتھ رویے کو اب ہنگامی بنیادوں پر بہتر بنانا ہوگا ،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ13کروڑ عوام کے صوبے کی ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے وزیر اعلیٰ مریم نوازکی جانب سے محکمہ پولیس کوگاڑیاں، آلات، اسلحہ، ٹریننگ،سمیت دیگر وسائل مہیاکئے بھی جارہے ہیں تاکہ ہر قسم کے جرائم پر با آسائی قابوپایا جاسکے ، اس قدر وسائل کے اب پولیس کو بھی چاہیے کہ وہ زبانی کلامی دعوئوں کی بجائے عملی طور پر کارکردگی دکھاتے ہوئے جرائم کنٹرول کرے اور صوبے بھرمیں کرائم ریٹ کو ہر صورت نیچے لائے، ہم جمہوری ملک کے شہری ہیں ہمارے تحفظ کے مقصد سے قانون کی بالادستی کو قائم رکھنا پولیس کی ذمہ داری ہے مگر عموماً پولیس اپنے منصبی تقاضوں اور فرائض کو بھول جاتی ہے ایسے میں انصاف کو یقینی بنانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ضرورت ہے کہ پولیس اپنی کارکردگی کو عملی طور پر بہتر بنائے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عوام انہیں اپنا محسن سمجھیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ محکمہ پولیس کسی بھی قوم اور معاشرے کی اصلاح و فلاح اور ترقی و بلندی کا ایک اہم ترین شعبہ تصور کیا جاتا ہے، اگرعوام اور پولیس کے درمیان خوف کے رشتے کو ختم کیا جائے اور عوام دوست پولیس رویے کو فروغ دیا جائے تو پولیس کو مجرم پکڑنے اور گواہی حاصل کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے، جس سے جرائم کے اعداد و شمار میں بھی کمی آ سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button