Column

پاکستانی معیشت اور ترقیاتی منصوبے

تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان کی معیشت اس وقت جس نازک دور سے گزر رہی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ملک کو اس وقت مہنگائی، بیروزگاری، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، اسمگلنگ اور بجلی و گیس چوری جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ان تمام عناصر نے معاشی ڈھانچے کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے اور ملکی معیشت کو ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے جس سے نکلنا ایک قومی چیلنج بن چکا ہے۔ اس صورتحال میں حکومتِ وقت کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری اور ان پر عملدرآمد کی سنجیدہ کوششیں یقیناً قابل توجہ اور لائق تجزیہ امر ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں جب بھی معیشت بحرانوں کا شکار ہوئی، ترقیاتی منصوبوں پر یا تو کٹوتی کی گئی یا انہیں مکمل طور پر روک دیا گیا۔ 1970ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے سوشلسٹ اقدامات ہوں یا 1990ء کی دہائی میں سیاسی عدم استحکام کے دور میں معاشی بدحالی، ہر دور میں ترقیاتی عمل متاثر ہوا۔ تاہم کچھ مواقع ایسے بھی آئے جہاں بدترین حالات کے باوجود تعمیر و ترقی کا عمل جاری رکھا گیا جیسے جنرل پرویز مشرف کے دور میں انفراسٹرکچر اور ٹیلی کمیونیکیشن کا پھیلا یا نواز شریف دورِ حکومت میں موٹر وے نیٹ ورک کا آغاز وغیرہ وغیرہ۔
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی منتظمانہ مہارت کا پورا پاکستان قائل ہے۔ حالیہ معاشی چیلنجز بہت ہی مشکل ہیں جن میں گردشی قرضوں کا پہاڑ، پاکستانی روپے کی گراوٹ اور مالیاتی خسارہ شامل ہے ، ان سب مشکلات کے باوجود وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت موجودہ حکومت نے معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ ترقیاتی منصوبوں کی منظوری کو ترجیح دی ہے۔ یہ ان کی منتظمانہ مہارت اور ماضی میں پنجاب میں بطور وزیراعلیٰ ان کے کامیاب ترقیاتی ماڈل کا تسلسل دکھائی دیتا ہے۔
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی ( ایکنک) کے حالیہ اجلاس میں 1275 ارب روپے سے زائد کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دی گئی۔ ان منصوبوں میں ٹرانسپورٹ و مواصلات، ریلوے کی اپگریڈیشن، انفراسٹرکچر کی تعمیر اور خلائی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری شامل ہیں۔ یہ منصوبے نہ صرف موجودہ معاشی جمود توڑنے میں مدد دے سکتے ہیں بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کریں گے۔ اس سلسلے میں سندھ سیلاب ایمرجنسی بحالی منصوبہ بھی سرفہرست ہے۔ ایکنک کی طرف سے 88.4ارب روپے کے سندھ
سیلاب ایمرجنسی بحالی منصوبے کی منظوری متاثرہ علاقوں کی بحالی اور علاقائی ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ کے بدترین سیلابوں کے بعد متاثرہ علاقوں میں انفراسٹرکچر کی تباہی، آب رسانی اور نکاسی آب کے نظام کی تباہ کاریوں کا ازالہ اس منصوبے کا بنیادی ہدف ہے۔
موٹر وے اور ریل کا مربوط نظام علاقائی ترقی کا ضامن ہے۔ لاہور، ساہیوال اور بہاولنگر کو ملانے والے موٹر وے منصوبے کے لیے 436ارب روپے کی منظوری ان پسماندہ علاقوں کے لیے خوش آئند ہے جو عرصہ دراز سے سفری اور تجارتی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اسی طرح پاکستان ریلوے کے لیے ویگنوں اور کوچز کی خریداری اور آپٹیکل ریموٹ سنسنگ سیٹلائٹ منصوبے کی منظوری جدید ریاستی صلاحیتوں کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔ ML۔1منصوبہ سے اقتصادی امکانات روشن ہونگے۔ 2022ء میں منظور شدہ ML۔1 ریلوے منصوبہ، جو پاکستان کے ریلوے نیٹ ورک کو جدید خطوط پر استوار کرے گا، نہ صرف سفری معیار میں بہتری لائے گا بلکہ ملک کی تجارت، خاص طور پر چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC)کے تحت، مزید فروغ پائے گی۔ ان منصوبوں کی منظوری سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت صرف وقتی مالیاتی بحرانوں کو حل کرنے پر ہی نہیں بلکہ پائیدار ترقی پر بھی یقین رکھتی ہے۔ تاہم یہ چند سوالات انتہائی اہم ہیں کہ ان منصوبوں پر عملدرآمد کی رفتار کیا ہو گی؟ کرپشن اور بیوروکریٹک رکاوٹوں سے کیسے نمٹا جائے گا؟ ان منصوبوں کے ثمرات عام شہری تک کیسے پہنچیں گے؟ یہ سوالات ہر محب وطن شہری کے ذہن میں ابھر رہے ہیں اور ان کا جواب حکومتی کارکردگی دے گی۔
موجودہ معاشی حالات میں ترقیاتی منصوبوں کی منظوری ایک جرات مندانہ قدم ہے جو حکومت کے ترقیاتی وژن کا غماز ہے۔ تاہم اس کے ثمرات عام شہری تک پہنچانے کے لیے شفافیت، احتساب، اور مربوط حکمت عملی ناگزیر ہے۔ اگر ان منصوبوں پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے تو یہ یہ منصوبے پاکستان کی تقدیر بدلنے کی قوت رکھتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button