ColumnQadir Khan

افغان مہاجرین کی واپسی ایک سنگین چیلنج

قادر خان یوسف زئی
پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے، اور اس کی سب سے بڑی وجہ افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردوں کی مسلسل کارروائیاں ہیں۔ پاکستان کی مشکلات صرف داخلی نہیں، بلکہ خارجی بھی ہیں۔ افغانستان کی سرحد سے دہشت گردوں کے حملے، افغان مہاجرین کی موجودگی اور ان کے ذریعے پاکستان میں موجود سہولت کاروں کا مسئلہ، ان تمام پیچیدہ صورتحال نے پاکستان کی حکومت اور عوام کو مسلسل فکر میں ڈال رکھا ہے۔ افغانستان کی تاریخ اور پاکستان کے ساتھ اس کی سرحدی کشمکش کے باوجود، ان مسائل کا حل نہ صرف پاکستان کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے، بلکہ یہ عالمی سطح پر بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ پاکستان کے داخلی مسائل اور اس سے جڑے ہوئے مسائل نے عالمی برادری کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آیا افغانستان میں امن کی بحالی سی پاکستان میں استحکام ممکن ہو سکے گا یا نہیں۔
افغانستان میں افغان طالبان کے 2021ء کے قبضے کے بعد، پاکستان کی سرحدوں پر دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آ گئی ہے۔ پاکستانی حکام نے متعدد بار اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد، پاکستان کی سرحدی علاقوں میں حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے حساس علاقوں میں افغان سرزمین سے دہشت گردوں کی دراندازی نے پاکستان کی سیکیورٹی کو ایک سنگین مسئلہ بنا دیا ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے ان حملوں کو روکنے کی لیے کئی آپریشنز کیے ہیں، لیکن افغان سرزمین سے دہشت گردوں کی موجودگی نے ان آپریشنز کی کامیابی کو محدود کر دیا ہے۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ دہشت گردوں کی سرکوبی کے ساتھ ساتھ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد کو بھی اپنے اندر حل کرے۔ اعداد و شمار کے مطابق، 2023ء تک افغانستان سے تقریباً3.5 ملین افغان پاکستان میں پناہ گزین ہو چکے ہیں۔ 2018ء کے بعد پاکستان نے غیر دستاویزی افغانوں کی جبری وطن واپسی کا آغاز کیا تھا اور اس کے نتیجے میں نومبر 2023ء تک تقریباً 900000افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔ بعد ازاں افغان حکومت اور عالمی اداروں کی جانب سے بار بار توسیع دی جاتی رہی اور اب دوبارہ، پاکستانی حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ اگلے مرحلے میں مزید 10لاکھ افغان مہاجرین کو واپس بھیجے گی۔ پاکستان 1979ء میں افغانستان پر روسی قبضے کے بعد لاکھوں افغانوں کا میزبان بنا جو اپنی جان بچا کر پاکستان میں پناہ لینے کے لیے آئے۔ اس کے بعد 1990ء میں اور پھر 2021ء میں جب افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کیا، تو اس کے نتیجے میں مزید افغان باشندوں کی بڑی تعداد نے پاکستان کا رخ کیا اور یہاں پناہ لی۔ اس کے باوجود، عالمی مالیاتی ادارے بھی پاکستان پر افغان مہاجرین کے مسئلے کے بڑھتے ہوئے دبائو کے لیے مناسب تعاون فراہم نہیں کر رہے۔ بلکہ اس کے برعکس، عالمی ادارے پاکستان کی کمزور معیشت کے باوجود مزید دبائو بڑھا رہے ہیں، جس سے پاکستان کے لیے اس بحران کا حل تلاش کرنا اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں افغان مہاجرین کے لیے رہائش پذیر ہیں، جہاں وہ اپنے خاندانوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ پناہ گزیں کیمپ بھی نہ صرف ان کے لیے پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں، بلکہ ان میں سہولت کاروں کا بھی عمل دخل ہے جو ان مہاجرین کو پاکستان کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث کرتے ہیں۔ پاکستانی حکام نے متعدد بار اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ افغان مہاجرین کے کیمپوں اور علاقوں میں موجود سہولت کار پاکستانی ریاست کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں۔ یہ سہولت کار ان مہاجرین کو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں، جو کہ پاکستان کے لیے ایک اور بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت انگیز مہم نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ یہ مہم نہ صرف پاکستان کے اندر خطرناک ثابت ہو رہی ہے بلکہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی کا باعث بھی بن رہی ہے۔ پاکستان میں بعض گروہ اور افراد افغان مہاجرین کو اپنے ملک کے وسائل کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ مہم افغان مہاجرین کے خلاف عوامی رائے کو زہر آلود کر دیتی ہے اور معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتی ہے۔
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے حالیہ برسوں میں دہشت گردوں کے خلاف کئی آپریشن کیے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان دہشت گردوں کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق، 2023ء کے آغاز سے اب تک خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں افغان سرزمین سے دراندازی کے کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ان حملوں میں درجنوں افراد کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، اور ان حملوں کا سب سے زیادہ اثر پاکستان کے سرحدی علاقوں پر پڑا ہے۔ ان حملوں کا مقصد پاکستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کو مستحکم کرنا اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں کو فروغ دینا ہے۔
پاکستان کو ان مسائل کے حل کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی اور افغان مہاجرین کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پاکستان کو نہ صرف افغان حکومت کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا، بلکہ عالمی برادری کا بھی تعاون درکار ہے۔ افغانستان میں امن کی بحالی پاکستان کے لیے ضروری ہے، تاکہ دہشت گردوں کی موجودگی کا خاتمہ ہو سکے اور افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل بہتر طریقے سے مکمل ہو سکے۔ اس کے علاوہ، پاکستان کو اپنے داخلی سیکیورٹی کے نظام کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ کیا جا سکے اور ان کی پاکستان میں موجودگی کو روکا جا سکے۔ پاکستان کو افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے ایک مکمل منصوبہ بندی کرنی ہوگی، جس میں ان کی حفاظت اور انہیں واپس بھیجنے کے دوران پیدا ہونے والے مسائل کا حل شامل ہو۔ عالمی سطح پر اس امر پر زور دیا جانا چاہیے کہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کے قیام کے بعد ہی افغان مہاجرین کی واپسی ممکن ہو گی اور پاکستان کی سیکیورٹی کی صورتحال بھی بہتر ہو سکے گی۔
پاکستان کے لیے افغان مہاجرین کے مسئلے کو حل کرنا ایک سنگین چیلنج ہے، افغان مہاجرین کی واپسی، دہشت گردی کی روک تھام اور پاکستان کی سیکیورٹی کو مستحکم کرنے کے لیے عالمی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔ جب تک افغانستان میں امن کا قیام نہیں ہوتا، تب تک پاکستان کو اس چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا، جو نہ صرف پاکستان کی سیکیورٹی کے لیے، بلکہ پورے خطے کی استحکام کے لیے ضروری ہے۔

جواب دیں

Back to top button