وقف بل پر ہندوستانی مسلمانوں کے خدشات اور حکومتی موقف

خواجہ عابد حسین
قسیم ہند کے بعد وقف جائیدادوں کا پس منظر ( پس منظر برائے وقف بل 2024)1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد، ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی پیچھے رہ گئی، جبکہ مسلمانوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد پاکستان ہجرت کر گئی۔ تقسیم کے نتیجے میں لاکھوں افراد کی املاک متاثر ہوئیں، اور مسلمان اداروں، خاص طور پر وقف جائیدادوں کو شدید نقصان پہنچا۔
تقسیم کے فوراً بعد، جن مسلمانوں نے پاکستان ہجرت کی، ان کی جائیدادیں Evacuee Propertiesکے زمرے میں آ گئیں، اور حکومت نے ان پر قبضہ کر لیا۔ اس سے کئی وقف جائیدادیں بھی متاثر ہوئیں جو بظاہر ذاتی ملکیت کے طور پر رجسٹرڈ تھیں۔ آزادی کے بعد، وقف کے معاملات کو منظم کرنے کے لیے کوئی جامع قانون موجود نہیں تھا۔ مختلف ریاستیں اپنی اپنی پالیسیوں کے تحت وقف جائیدادوں کا انتظام کرتی رہیں، جس سے شفافیت کی کمی اور بدعنوانی کے مواقع پیدا ہوئے۔
وقف ایکٹ 1995اس قانون کے ذریعے ہندوستان میں ریاستی سطح پر وقف بورڈ قائم کیے گئے تاکہ وقف املاک کا تحفظ کیا جا سکے اور ان کی نگرانی ایک منظم طریقے سے ہو۔ اس میں تمام بورڈ ممبران مسلمان ہونے کی شرط رکھی گئی، تاکہ مذہبی اور فلاحی مقاصد کے مطابق انتظام ممکن ہو۔ وقت کے ساتھ، وقف جائیدادوں پر ہندو قوم پرست تنظیموں کے اعتراضات بڑھنے لگے۔ بعض مقامات پر مساجد کو مندر کی جگہ قرار دے کر عدالتوں میں مقدمات دائر کیے گئے۔ اس
تناظر میں وقف جائیدادیں صرف قانونی ہی نہیں بلکہ مذہبی اور سیاسی مسئلہ بھی بن چکی ہیں۔
سچار کمیٹی کی رپورٹ ( 2006): یہ رپورٹ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ہندوستانی مسلمان دیگر اقلیتوں کے مقابلے میں زیادہ پسماندہ ہیں۔ اس رپورٹ میں وقف جائیدادوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کو مسلم ترقی میں استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
وقف بل 2024: وقف بل 2024ء کو اسی تاریخی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، جہاں مسلمانوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ ان کی وقف جائیدادوں پر ریاستی کنٹرول بڑھا کر انہیں اقلیتوں کے مذہبی و معاشی ڈھانچے کو مزید کمزور کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان کی پارلیمنٹ نے متنازعہ وقف بل 2024ء کو منظور کر لیا ہے، جس کے تحت مسلمانوں کی وقف جائیدادوں کے انتظام میں غیر مسلموں کو شامل کیا جائے گا اور حکومت کو ان جائیدادوں کی توثیق میں زیادہ اختیارات دئیے جائیں گے۔
مسلمانوں کے خدشات:
1۔ مسلم رہنما اس بل کو آئینی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بل مسلمانوں کے اداروں کی خود مختاری ختم کرکے حکومت کو ان پر کنٹرول دینے کی کوشش ہے۔
2۔ بہت سی وقف جائیدادیں صدیوں پرانی ہیں اور ان کے دستاویزات موجود نہیں۔ نئے قوانین کے تحت ان جائیدادوں کو ضبط کیا جا سکتا ہے۔
3۔ غیر مسلموں کو وقف بورڈز میں شامل کرنا مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت تصور کیا جا رہا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ بل وقف جائیدادوں کے انتظام میں شفافیت لائے گا اور بدعنوانی کو روکے گا۔ غیر مسلموں کو بورڈز میں شامل کرنے کا مقصد انتظامی معاملات میں مدد کرنا ہے، نہ کہ مذہبی امور میں مداخلت۔ نئے قوانین سے جائیدادوں کے تنازعات کو حل کرنے میں آسانی ہوگی اور مرکزی رجسٹریشن سسٹم سے انتظام بہتر ہوگا۔
4۔ حزب اختلاف نے اس بل کو مسلم دشمنی سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بی جے پی کی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔ جبکہ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ یہ بل تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے گا اور اسے ملک کی ترقی کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔
مسلم تنظیمیں اس بل کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کر چکی ہیں۔
بل کے قانون بننے سے ہندوستان میں مذہبی تنائو بڑھ سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ بل ہندوستان میں مذہبی اور انتظامی اصلاحات کی ایک بڑی کوشش ہے، لیکن اس کے اثرات مسلم اقلیت کے لیے تشویشناک ہو سکتے ہیں۔ شفافیت اور انصاف کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔