Column

بجلی تو سستی ہوگئی مگر!

تحریر : یاور عباس
وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے قوم کو خوشخبری سناتے ہوئے 7.41روپے فی یونٹ بجلی سستی کرنے کا اعلان کر دیا ہے عوام کو اس سے 56ارب 38کروڑ روپے کا ریلیف ملے گا، یقینا یہ خبر لوگوں کے لیے بہت اچھی خبر ہے ، اس سے بہت سارے لوگوں کو فائدہ بھی ملے گا، مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف تو ضروری ملے گا مگر اس ریلیف سے ملکی معیشت بہتر ہوسکے گی یا پھر غریب آدمی کی کمر بھی سیدھی ہو پائے گی ؟ یہ سوال بدستور باقی ہے، کیونکہ پی ٹی آئی حکومت کیخلاف مہنگائی مارچ کرنے والوں نے رجیم چینچ کر کے حکومت تو حاصل کر لی مگر مہنگائی کا ایک ایسا طوفان برپا کیا کہ عام آدمی ڈیفالٹ کر گیا، نوجوان ڈنکیاں لگاکر بیرون ملک جانا شروع ہوگئے ، درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں نوجوان کشتی حادثوں کے دوران اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ عورتیں آٹے کے حصول کے لیے لائنوں میں لگ کر سارا دن ذلیل و خوار ہوتی رہیں بلکہ پولیس کی لاٹھیاں بھی کھاتی رہیں، کچھ اموات کی اطلاعات بھی ملتی رہیں۔ متاثرین سیلاب آج بھی بے یار و مددگار امداد کے منتظر ہیں، حکومتی اتحاد نے عالمی سطح پر فنڈز اکٹھے کرنے کی مہم چلائی اور اربوں ڈالر کی امداد کے اعلانات بھی ہوئے مگر پاکستان میں کتنے ارب ڈالر آئے اور کہاں خرچ ہوئے، شاید ابھی تک کوئی رپورٹ منظر عام پر نہیں آسکی۔
میاں شہباز شریف جب سے وزیر اعظم بنے تو خدا جانے کس نے مشورہ دیا کہ عوام کی جیب سے جو کچھ نکالنا ہے وہ بجلی اور گیس کے بلوں کی مد میں نکال لیں۔ بجلی اور گیس کے بل عوام کے ڈرائونے خواب بن گئے۔ مختلف سروے رپورٹس کے مطابق پاکستان میں گزشتہ اڑھائی برس میں صرف بجلی کی قیمتیں 80فیصد تک بڑھ گئی تھیں، گیس کے بل ایک ہزار فیصد تک بڑھ گئے ۔ پٹرول 150روپے سے تین سو روپے تک گیا جو اب 256پر فروخت ہورہا ہے ۔ یوریا کھاد کی قیمتیں دوگنا سے بھی زائد ہوگئیں۔ مرغی کا گوشت 250روپے سے بڑھ کر 850روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئیں ہیں مگر حکومتی وزراء ہر ماہ پریس کانفرنس میں قوم کو خوشخبری سنا دیتے ہیں کہ مہنگائی اتنے فیصد کم ہوگئی ہے۔ جبکہ عام آدمی کا بجٹ کسی ماہ میں بھی کم نہیں ہو پا رہا۔ گزشتہ اڑھائی برس میں تو حکومت عوام کے ساتھ اعداد و شمار کا کھیل ہی کھیل رہی ہے، بجلی سستی ہوتی ہے تو تیل مہنگا کر دیا جاتا ہے اور تیل سستا کرتے ہیں تو گیس مہنگی کردی جاتی ہے۔ اگر ایک ہاتھ سے ریلیف دے کر دوسرے ہاتھ سے وہی پیسے عوام کی جیب سے کسی اور مد میں سے نکال لیے جائیں تو وہ ریلیف نہیں ہے بلکہ عوام کے ساتھ مذاق ہے۔ اصل ریلیف تو تب ہے کہ بجلی کی قیمتیں سستی ہونے پر تیل، گیس، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی واضح کمی کی جائے تو کہ عام آدمی کو محسوس ہوکہ گزشتہ ماہ کی نسبت اس مہینے کم پیسوں میں مہینہ گزر گیا ہے۔ صرف کچن آئٹمز ہی سستی کردی جائیں تو لوگوں کے چہرے نہال ہوسکتے ہیں ۔
بجلی و گیس کے بلوں میں عوام کو حقیقی ریلیف دینے کے لیے پروٹیکٹیڈ، نان پروٹیکٹڈ اور سلیب ریٹ سسٹم کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ یونٹ جتنے بھی استعمال ہوں ہر یونٹ کا ریٹ ایک ہی ہونا چاہیے۔ سلیب ریٹ کے ذریعے عوام کا خون نچوڑا جارہا ہے۔ جیسے 199یونٹس کا بل 2000آتا تھا اور201یونٹ کا بل 5000سے تجاوز کر جاتا تھا یعنی صرف ایک یونٹ عوام کو 3000روپے کا پڑتا تھا پھر یہی نہیں ایک یونٹ زائد استعمال کرنے کا خمیازہ صارف نے اگلے چھ ماہ تک بھگتنا ہوتا ہے۔ وزیراعظم صاحب بجلی و گیس کے بلوں میں آپ صرف سلیب ریٹ ختم کر دیں پہلے 100یونٹ کو جو ریٹ لگ رہا ہے وہ مختص کر دیں عوام کو بہت بڑا ریلیف مل جائے گا۔ بجلی کی قیمتوں کے معاملے پر ہر حکومت سیاست کرتی آئی ہے اور اسی کے ذریعے ملکی خزانہ بھی چلایا جاتا ہے ۔ بجلی سستی کرنے کا ایک اور آسان فارمولہ یہ بھی ہے کہ جن افسران، بیوروکریٹس ، وزراء اور دیگر اداروں کو بجلی کے مفت یونٹ دئیے جاتے ہیں انہیں ختم کر دیا جائے اور بجلی چوری کا خاتمہ کر دیا جائے تو شاید عوام کو سستی ترین بجلی مل سکتی ہے۔ ہر حکومت اعتراف کرتی ہے کہ ملک سے اربوں روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے مگر اس کی روک تھام نہیں کی جاتی، کیا واقعی بجلی چور اتنے طاقتور ہیں یا پھر ریاست کمزور ہے جو بجلی چوروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتی۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے جہاں بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا وہاں یہ بھی فرمایا کہ بجلی سالانہ 600ارب روپے کی چوری ہوتی ہے جس کو ختم کرنے کا عزم کیا گیا۔ حکومت کو چاہیے کہ بجلی کی مد میں عوام کو جو ریلیف ملا ہے وہ کسی اور مد سے پورا نہ کرنے کی کوشش کرے اور نہ ہی بجٹ میں اتنے ٹیکس لگائے جائیں کہ جتنا ریلیف ملا ہے اس سے دو تین گنا زیادہ عوام پر بوجھ ڈال دیا جائے۔
گزشتہ برس جولائی میں جماعت اسلامی پاکستان نے بجلی و گیس بلوں اور مہنگائی کیخلاف بھرپور احتجاج کیا ، اسلام آباد میں دھرنا دیا بالآخر حکومت نے چند دنوں بعد ایک مذاکرات کے ذریعے دھرنا ختم کروادیا ۔ 10نکات پر اتفاق ہوا، جن میں بجلی و گیس کی قیمتیں میں کمی ایک ماہ کے اندر کرنی تھی ۔ آئی پی پیز کے معاہدے ختم کرنے تھے ، مہنگائی کم کرنا تھی وغیرہ وغیرہ ، جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن جب معاہدے کے بارے یہ اعلانات کر رہے تھے تو اس وقت وزیر داخلہ محسن نقوی ، وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ بھی ان کے ہمراہ کھڑے تھے، حافظ نعیم الرحمان نے اعلان کیا کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو ہم ایک ماہ بعد ہی دوبارہ ڈی چوک پہنچیں گے اور پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیں گے مگر 9ماہ گزرنے کے باوجود جماعت اسلامی نے کوئی احتجاجی دھرنا دیا نہ ہی کوئی لانگ مارچ کیا بلکہ چند ہفتے کے بعد احتجاجی جلسے کرنا بھی ختم کر دئیے ، دہشتگردی کے واقعات کے باعث عوام تو اس ایشو کو بھی بھول چکے تھے کہ حکومت نے 9ماہ بعد صرف بجلی کی قیمتوں میں تھوڑی سی کمی ہے جبکہ گیس ، پٹرول اور اشیائے خوردونوش میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکی۔ وزیر اعظم نے کہیں ذکر نہیں کیا کہ جماعت اسلامی کے مطالبات یا پھر ان سے کیے معاہدے کی بناء پر بجلی کی قیمتوں میں کمی کی جارہی ہے لیکن جماعت اسلامی بجلی کی قیمتوں میں کمی کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہی ہے حکومتی اتحادی جماعتیں بھی کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنے کے لیے میڈیا پر زور و شور سے بیانات جاری کر رہے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی کا کریڈٹ صرف حکومت کو جاتا ہے باقی ’’ بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ والی بات ہی ہوگی۔ جماعت اسلامی اور اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ عوام کی آواز بنیں اور حقیقی ریلیف کیلئے جدوجہد کریں ۔

جواب دیں

Back to top button