Columnمحمد مبشر انوار

عالمی دبائو اور ضمانت

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )
بشر کو کسی بھی صورت کامل تصور نہیں کیا جا سکتا تاہم یہ امید ضرور کی جاتی ہے کہ بشری کمزوریوں کے باوجود کچھ افراد ایسی فہم و فراست رکھتے ہیں کہ ان سے غلطی کا احتمال کم سے کم ہوتا ہے جبکہ انبیاء و رسل بہت حد تک ان بشری کمزوریوں سے پاک ہوتے ہیں لیکن بہرکیف قرآن مجید میں انہیں بھی بشر کہہ کر ہی مخاطب کیا جاتا ہے۔ بنی آدم نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور اپنی افزائش کے باعث اپنی معاشرت تبدیل کر لی ہے اور دور جدید کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، نظم و نسق و حکومت کے طور طریقے بدل چکے ہیں،بالعموم سکہ رائج الوقت اقوام عالم میں جمہوری طرز حکومت رائج ہے ،خواہ وہ پارلیمانی ہو یا صدارتی، یک سیاسی جماعتی ہو یا کثیر جماعتی، جبکہ مخصوص ممالک میں طرز حکومت ہنوز شاہی نظام جاری ہے۔ نظام خواہ کوئی بھی ہو، اس سے چنداں فرق نہیں پڑتا کہ حکمرانوں کے اقتدار کا فیصلہ ان کے فیصلوں ،جو عوام الناس کی بہتری اور ریاستی مفادات کے تحفظ سے ہی لگایا جاتا ہے کہ آیا حکمران بہترین ،اچھے یا سطحی معیار کے ہیں۔ حکمران بہترین ہو تو نہ صرف عوام الناس کے حقوق کا تحفظ کرتے ،ریاستی مفادات کو محفوظ بناتے ہیں بلکہ اپنے کردار و اعمال سے دنیا پر حکمرانی کرتے دکھائی دیتے ہیں،عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کو عمیق نظروں سے دیکھتے ہوئے، قبل ازوقت اپنا لائحہ عمل ترتیب دیتے ہیں اور اس کے مطابق پالیسیاں ترتیب دیتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف جبرا اقتدار پر قابض حکمران،ان خصوصیات سے عاری دکھائی دیتے ہیں اور ان کی نظریں اور وسعت نظر کی حد، اپنے اقتدار سے آگے دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی اور بقول ایلون مسک، جب انتہا پسند بائیں بازو کے لوگ جمہوری ووٹ کے ذریعے کامیاب نہیں ہو سکتے ،تو وہ اپنے مخالفین کو جیل بھیجنے کے لئے قانونی نظام کا غلط استعمال کرتے ہیں،یہ ان کا دنیا بھر میں آزمودہ طریقہ کار ہے ،اس کی مثالیں دیتے ہوئے مائیک بینز نے کہا ہے کہ فرانس میں مارین لی،برازیل میں بولسونارہ،پاکستان میں عمران خان ( جبکہ ماضی میں شیخ مجیب الرحمان،ذوالفقار علی بھٹو،بے نظیر بھٹو جیسی قومی شخصیات کے خلاف یہ طریقہ کار آزمایا جا چکا ہے)،اٹلی میں میٹسیو سالوینی،امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور رومانیہ میں کالن جارجیسکو۔۔۔ ہر مقبول عالمی رہنماکے خلاف فوجداری مقدمے جمہوریت کی ساکھ پر کاری ضرب ہیں۔باقی دنیا کو چھوڑیں،پاکستان اس وقت جن حالات کا شکار ہے،اس سے نکلنے کے لئے ازحد ضروری ہے کہ قانون کی بالا دستی ہو اور نہ صرف سیاسی قیدیوں بلکہ دیگر قیدیوں کو بھی انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے لیکن اقتدار کی رسہ کشی میں وقت اتنی تیزی سے گزر رہا ہے اور پاکستان پر منڈلانے والے سیاہ بادل ،اس کو گھیرے میں لیتے دکھائی دے رہے ہیں مگر ’’ حکمران‘‘ بظاہر اس سے بے نیاز مگر درپردہ،ہر صورت ایک سیاسی شخصیت کو توڑنے کی بھرپور کوششوں میں نظر آتے ہیں۔نوشتہ دیوار تو سامنے نظر آرہا ہے مگر ہوس اقتدار و اختیار ،آنکھوں کو خیرہ کئے ہوئے ہے اور ریاستی مفادات کو پس پشت ڈال کر ،زور زبردستی و من مانی کی جارہی ہے وگرنہ کسی ہوش مند قیادت سے اس روئیے کی توقع کسی بھی صورت نہیں کی جا سکتی۔یورپی یونین کاانسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں پر، جی ایس پی پلس سٹیٹس پر از سرنو جائزہ،قیادت کے لئے ضرورت سے زیادہ کافی ہوتا مگر یہاں تو حالات اس سے کہیں آگے جاتے دکھائی دے رہے ہیں کہ امریکہ میں اپنی نوعیت کا پہلا بل پیش ہونے جارہا ہے کہ جس میں فوجی قیادت کے خلاف قانون سازی کا امکان ہے، اس کے باوجود پاکستان میں معاملات، معاملہ فہمی سے کہیں دور نظر آرہے ہیں۔
علاوہ ازیں! اس وقت پاکستانی حکومت کے لئے بڑا اور اہم مسئلہ، نئی امریکی انتظامیہ ہے کہ جہاں تما م تر کوششوں کے باوجود، پاکستان امریکی انتظامیہ کو اپنی سہولت کے لئے تیار نہیں کر پایا بلکہ پاکستان کی ہر کوشش کے جوا ب میں امریکہ کی جانب سے انفرادی طور پر ایک ہی مطالبہ سامنے آ رہا کہ ’’ فری عمران‘‘۔ اس کا ثبوت ہم وزیرداخلہ کے گزشتہ دور امریکہ کے دوران بخوبی کر چکے ہیںکہ وزیرداخلہ اپنے تئیں جس بھی امریکی عہدیدار یا ممکنہ عہدیدار سے ملے، انہیں قائل کرنے کی کوشش کی، ملاقات کے اختتام پر مجوزہ رکن کانگریس و ممکنہ انتظامی عہدیدار کی جانب سے باضابطہ طور پر اپنے ایکس ’’X‘‘ اکائونٹ پر ’’ فری عمران‘‘ کا پیغام جاری ہو گیا۔ غالب گمان یہی ہے کہ امریکی انتظامیہ کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لئے، چین مخالف تنظیم میں شرکت تک کر لی گئی۔ گو کہ بعد ازاں لاعلمی کا اظہار کرکے چین کو رام کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جو نقصان ہونا تھا، وہ ہو چکا جبکہ امریکہ براہ راست چین کے ساتھ اپنے روابط کو از سر نو ترتیب دیتے ہوئے کئی ایک اقدامات ایسے لے رہا ہے جس سے اعتماد کی فضا بحال ہو سکے، تاہم پاکستان میں اقتدار پرست ٹولے کی اس حرکت کو بہرطور ہوس اقتدار سے ہی تعبیر کیا جائے گا کہ جس میں انہوں نے ریاستی مفاد کو پس پشت ڈال دیا۔ امریکی انتظامیہ ماضی کی نسبت انتہائی تیزی کے ساتھ اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتی نظر آ رہی ہے اور ان کی کوشش ہے کہ جلد از جلد فروعی معاملات سے چھٹکارا حاصل کرکے، اپنے اصل منشور پر عمل پیرا ہوں،گو کہ اپنے اصل منشور پر بھی وہ بہرطور اقدامات اٹھا رہی ہے۔ اسی ضمن میں امریکی کانگریس کا ایک وفد، مستقبل قریب میں پاکستان کا دورہ کر رہا ہے، جس میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق، پاکستان کی سیاسی صورتحال پر ٹھوس مذاکرات و اقدامات کی توقع لئے ہوئے، وفد پاکستان کا دورہ کرے گا اور اس دورے سے قبل ہی امریکی انتظامیہ کی خواہش ہے کہ پاکستانی حکومت توقعات کے مطابق سیاسی عدم استحکام سے نکلے اور بالخصوص عمران خان کو، غیر قانونی قید سے رہائی دی جائے۔ دوسری طرف پاکستانی حکومت کے اقدامات دیکھیں تو ان کے ہاتھ پیر پھولے ہوئے نظر آتے ہیں کہ میڈیا میں مسلسل یہ دعوے کئے جارہے ہیں کہ عمران خان ڈیل کے لئے منتیں کر رہا ہے لیکن پس پردہ اس عالمی دبائو کے تحت حکومت ہر صورت یہ چاہتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح عمران خان کو کسی پیشکش پر راضی کرلیا جائے اور امریکی انتظامیہ کے سامنے سرخرو ہو سکے۔ جبکہ عمران خان، نجانے کس مٹی کا بنا ہوا ہے کہ اتنی سختیوں کے باوجود اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں اور یہ بھی سمجھ سے باہر ہے کہ اپنے سیاسی رفقاء و خاندان سے ملاقاتیں نہ ہونے کے باوجود، اسے کس طرح بیرونی دنیا کی خبریں ہیں یا اس کا اپنا سیاسی وجدان ہے، جو اسے اس قدر پر یقین بنائی ہوئے ہے کہ وہ کسی طرح ’’ حکمرانوں‘‘ کی بات سننے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی گھٹنے ٹیکنے کے لئے تیار ہے۔ جب کہ ماضی میں اس کے برعکس ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ جیسے ہی کوئی سیاسی رہنما، واضح الفاظ میں تو صرف نواز شریف ہی ایسا سیاستدان ہے کہ جیسے ہی اسے پابند سلاسل کیا گیا ہے، اس کے رابطے فورا مقتدرہ سے قائم ہو جاتے اور مسلسل پس پردہ مذاکرات میں یقین دہانیاں کروائی جاتی کہ مائی باپ جیل سے نکال دیں، آپ کی خواہش کا احترام کیا جائے گا، جو کیا جاتا رہا اور طے شدہ وقت کے مطابق ’’ زبان بند‘‘ رکھی جاتی، کسی قسم کی کوئی بیان بازی سامنے نہ آتی۔ تقریبا اس سے ملتی جلتی صورتحال اس وقت بھی نواز شریف کی جانب سے دیکھنے کو مل رہی ہے، خود ساختہ جمہوریت نواز، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ مستانہ بلند کرنے والا، فارم 47پر نامزد رکن اسمبلی ہے اور اسی پر کیا موقوف نہ صرف اس کا خاندان بلکہ اس کے بیشتر ارکان اسمبلی فارم 47پر نامزد ہیں،صم بکم بنا ہوا ہے ۔
بہرحال حالات و واقعات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اس وقت پورا نظام عمران خان کے سامنے بری طرح مفلوج دکھائی دے رہا ہے، اس سے نکلنے کا راستہ تو سامنے ہے مگر اس پر چلنے سے ’’ ذاتی انا و ضد‘‘ چھلنی ہوتی ہے، جو اندریں حالات کسی صورت بھی گوارا نہیں جبکہ ریاستی مفادات بے شک اس کی بھینٹ چڑھ جائیں۔ حکومت لاکھ کوشش کرے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو، سرکاری خرچ پر پاکستان لا کر، سیمینارز کروا کر ’’ سب اچھا ہے ‘‘ کی رپورٹ پیش کرنے کی کوشش کریں لیکن عالمی دنیا بالعموم جبکہ امریکہ بالخصوص اس کی حقیقت سے واقف ہیں اور خواہ حکمران لاکھ کوشش کریں کہ غیر اہم اور جیب میں پڑے تحریک انصاف کے سکوں سے امریکی وفد کی ملاقات کروا کر گلو خلاصی کی کوشش کریں، سب بے سود ثابت ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ امریکی انتظامیہ کو بذریعہ امریکی سفارت خانہ پاکستان، یہاں کے حالات اور حقیقی تحریک انصاف کے نمائندگان کا بخوبی علم ہے۔ اس پس منظر میں کوئی لاکھ کہے کہ عمران خان ڈیل مانگ رہا ہے، نوشتہ دیوار یہی ہے کہ عالمی دبائو اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ’’ حکمرانوں‘‘ کے لئے ’’ رجیم چینج‘‘ برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے تو دوسری طرف اس کے گرنے کے بعد نئے حالات میں خود کو محفوظ رکھنے کے لئے ضمانت کے لئے سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے۔

جواب دیں

Back to top button