Column

سبز پاسپورٹ اثاثہ ہے بوجھ نہیں

 

تحریر : عقیل انجم اعوان
ہماری دنیا 1914ء سے پہلے سرحدوں سے آزاد تھی لوگ یورپ سے انڈیا یا امریکہ بغیر کسی پاسپورٹ کے آزادانہ سفر کر سکتے تھے۔ معروف مصنف اسٹیفن زوائگ نے اپنی یادداشت دی ورلڈ آف یسٹرڈے میں جنگ عظیم اول سے پہلے کے دور کو اسی انداز میں یاد کیا۔ آج ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جو سرحدوں سے متعین ہے۔ اگر آپ انگلینڈ کے بادشاہ یا جاپان کے شہنشاہ نہیں ہیں تو سفر کے لیے پاسپورٹ اور زیادہ تر صورتوں میں ویزا بھی درکار ہوتا ہے۔ بین الاقوامی سرحدوں پر افراد کو ان کی قابلیت کے بجائے ان کے پاسپورٹ سے پہچانا جاتا ہے۔ جرمنی کا ایک اسکول چھوڑنے والا طالب علم بغیر ویزا 180سے زائد ممالک کا سفر کر سکتا ہے، مگر ایک نامور پاکستانی سائنس دان کو یورپ میں سائنسی کانفرنس میں شرکت کے لیے ویزا مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے کمزور ترین سفری دستاویزات میں شامل ہو چکا ہے اور جنگ زدہ ممالک جیسے افغانستان اور شام کے برابر آ چکا ہے۔ 2023ء میں پاکستانیوں کو شینگن ویزا کی دوسری سب سے زیادہ مستردیاں ملیں اور نصف درخواستیں رد کر دی گئیں۔ پاکستانیوں کو صرف یورپ ہی نہیں دیگر ممالک میں بھی اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہ ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ کی کم ہوتی ہوئی قدر ملک اور اس کے پالیسی سازوں کے لیے تشویش کا باعث ہونی چاہیے مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ ان کو اس بات سے کوئی مسئلہ یا پریشانی نہیں ہے۔ پاکستانی ہمیشہ سے عالمی مسافر رہے ہیں مگر آج ویزا پابندیاں ان کے راستے کی بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔ دوسری جانب انڈونیشیا جیسے ملک جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے مشابہت رکھتا ہے شینگن ویزا کے لیے سب سے زیادہ منظوری کی شرح رکھتا ہے۔ پاکستان اس نہج پر کیسے پہنچا، اور کیا اس صورتحال کو بدلا جا سکتا ہے؟ ایک مضبوط اور معتبر پاسپورٹ ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ عالمی اعتماد کی بحالی کے لیے سوچ میں تبدیلی ضروری ہے۔ ہر عمل کے نتائج ہوتے ہیں۔ جب کوئی ملک ویزا دیتا ہے تو وہ توقع رکھتا ہے کہ اس کے ملک میں آنے والے اس کے امیگریشن قوانین کا احترام کریں گے۔ خلاف ورزیوں جیسے کہ ویزا کی مدت سے زیادہ قیام یا بے بنیاد پناہ کی درخواستیں نا صرف افراد کے لیے مسائل پیدا کرتی ہیں بلکہ مستقبل کے درخواست گزاروں کے بارے میں دوسرے ممالک کے رویے کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ پاکستان میں ہر تین میں سے ایک فرد 15سے 29سال کی عمر کا ہے یہ دنیا کی سب سے نوجوان آبادیوں میں سے ایک ہے۔ اس اثاثے کو یورپ کی طرف غیر قانونی ہجرت کے دوران بحیرہ روم میں نہیں مرنا چاہیے۔ حکومت کو شہریوں کو غیر قانونی ہجرت ویزا کی خلاف ورزیوں اور پناہ گزین قوانین کے غلط استعمال کے نتائج کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے فعال اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
ابھی چند ہفتے قبل آئرلینڈ کے حکام نے ایک پاکستانی شہری پر جعلی افغان پاسپورٹ کے ذریعے 48000یورو کی دھوکہ دہی کا الزام عائد کیا۔ ایسے واقعات ملک کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں جس کی وجہ سے حقیقی مسافروں کے لیے ویزا حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی دولت آسمان سے نہیں برستی، زندگی ہر جگہ چیلنجز سے بھری ہوئی ہے۔ ہر فرد کو عالمی مواقع تلاش کرنے کا حق حاصل ہے مگر صرف اسی صورت میں جب وہ مطلوبہ مہارت یا قابلیت رکھتے ہوں۔ کوئی بھی ترقی یافتہ ملک 250ملین پاکستانیوں کو اپنے میں جگہ نہیں دے سکتا اور ہر ملک اپنی ضرورت کے مطابق ہنر مند پیشہ ور افراد کو ترجیح دیتا ہے۔ زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک اپنی سرکاری ویب سائٹس پر طلب میں موجود پیشوں کی فہرست شائع کرتے ہیں اور معلومات صرف مستند ذرائع سے حاصل کرنا ضروری ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کے دور میں رہ رہے ہیں جہاں ریموٹ ورک کے مواقع بڑھ رہے ہیں ادائیگی کے ذرائع دستیاب ہیں اور کوئی بھی شخص ایک لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کنکشن کے ذریعے کاروبار شروع کر سکتا ہے۔ اگر آسٹریلیا کا ایک نوجوان جسے کوڈنگ کا علم نہیں تھا ایک سادہ گرافک ڈیزائن کا آئیڈیا 3.2بلین ڈالر کی کمپنی کو ’’ کنوا‘‘ میں تبدیل کر سکتا ہے جو آج مائیکروسافٹ اور ایڈوب جیسے عالمی اداروں سے مقابلہ کر رہی ہے تو ایک پاکستانی گریجویٹ ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟ ہمارے پاس صلاحیت ہے مگر وژن کی کمی ہے۔ ملک میں تعلیمی پالیسیوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو کاروبار دوست پالیسیوں کو نافذ کرنا ہوگا۔ کاروباری ضوابط میں آسانی پیدا کرنی ہوگی اور بین الاقوامی ادائیگی کے جائز ذرائع پر غیر ضروری پابندیاں ختم کرنی ہوں گی۔ جمود کی شکار پالیسیاں پاکستان کو خطے سے پیچھے رکھ رہی ہیں عالمی ترقی تو دور کی بات ہے۔ صنعت اور زراعت دونوں کو مضبوط مراعات کی ضرورت ہے۔ کیا یہ تشویشناک نہیں کہ دنیا کا ساتواں سب سے بڑا گندم پیدا کرنے والا ملک اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے گندم درآمد کرنے پر مجبور ہے؟۔
ایک مضبوط اور معتبر پاسپورٹ آج کی گلوبل دنیا میں ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ پاکستان کی معیشت کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے کاروباری افراد اور برآمد کنندگان کو اپنی خدمات اور مصنوعات عالمی سطح پر پیش کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ اس کے لیے شہریوں کو بین الاقوامی سطح پر ذمہ داری کے ساتھ سفر کرنا ہوگا اور حکومت کو اپنے پاسپورٹ کی ساکھ بہتر بنانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ گزشتہ 20سال میں پاکستان اپنے عام شہریوں کے لیے ایک بھی بڑا ویزا فری معاہدہ حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اگر سبز پاسپورٹ کو اثاثہ بنانا ہے بوجھ نہیں تو قوم اور پالیسی سازوں کو فوری اور ذمہ دارانہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ ورنہ کچھ ممالک کی طرف سے پاکستانی پاسپورٹ پر مکمل پابندی کا خطرہ حقیقت بن سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button