ٹرمپ حکومت کا پاکستانی مصنوعات پر 29فیصد ٹیرف ٹیکس کا نفاذ

تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہماری حکومت کی جانب سے پاکستانی مصنوعات پر29فیصد ٹیرف ٹیکس کا نفاذ پاک امریکہ اقتصادی تعلقات میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہوگا۔ وائٹ ہاس میں منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے پچیس ممالک پر جوابی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا، جن میں پاکستان بھی شامل تھا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’’ اقتصادی آزادی کا دن‘‘ قرار دیتے ہوئے 25ممالک پر جوابی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا۔ پاکستان پر 29فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے جس کی وجہ صدر ٹرمپ نے یہ بتائی کہ پاکستان امریکی مصنوعات پر 58فیصد ٹیرف وصول کرتا ہے۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ امریکی معیشت کے فائدے کے لئے کیا گیا ہے۔
صدر ٹرمپ کی پالیسی کے تحت بھارت پر 26فیصد، چین پر 34فیصد، جاپان پر 24فیصد، ویتنام پر 46فیصد، جنوبی کوریا پر 25فیصد، کمبوڈیا پر 49فیصد، جنوبی افریقہ پر 30فیصد، انڈونیشیا پر 32فیصد، برازیل اور سنگاپور پر 10فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے ۔
ٹرمپ حکومت کی یہ تحفظاتی پالیسی ’’ امریکہ فرسٹ‘‘ کے اصول پر مبنی تھی۔ اس پالیسی کا مقصد دوسرے ممالک پر دبا ڈالنا تھا تاکہ وہ اپنی مصنوعات امریکہ میں تیار کریں یا اپنے ٹیرف کو کم کریں۔ امریکی منڈی تک بغیر ٹیرف رسائی کے لئے صدر ٹرمپ نے دیگر ممالک کو ترغیب دی کہ وہ امریکہ میں پیداوار کے مراکز قائم کریں۔ پاکستان پر 29فیصد ٹیرف کا نفاذ بھی اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان پر 58فیصد ٹیرف کا الزام درست تھا یا یہ محض سیاسی بیان بازی کا حصہ تھا؟۔
پاکستانی مصنوعات پر 29فیصد ٹیرف کے نفاذ سے پاکستان کی معیشت پر سنگین اثرات مرتب ہونگے، خاص طور پر ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی صنعت پر جو امریکہ کی بڑی منڈیوں میں سے ایک ہی۔ اضافی ٹیرف کے نتیجے میں پاکستانی مصنوعات کی قیمتیں امریکی صارفین کے لئے زیادہ ہو جائیں گی جس سے ان کی مانگ میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورتحال، جو کہ بیرونی قرضوں کے بوجھ، کم زرمبادلہ کے ذخائر اور صنعتی بحران سے دوچار ہے، اس طرح کے فیصلوں سے مزید بگڑ سکتی ہے۔ پاکستان کو متبادل منڈیوں کی تلاش اور امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدات پر نظر ثانی کی ضرورت ہوگی۔
یہ اقتصادی فیصلہ صرف تجارتی تعلقات تک محدود نہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات پر بھی اثرانداز ہوسکتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی اہمیت صرف اقتصادی نہیں بلکہ سیکورٹی، سیاسی اتحاد اور انسداد دہشت گردی جیسے عوامل پر بھی منحصر ہے۔ اگر پاکستان میں غیر منصفانہ یا غیر ضروری سمجھی گئی تو یہ دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کر سکتی ہے۔ سفارتی سطح پر بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی۔
پاکستانی مصنوعات پر 29فیصد ٹیرف ٹیکس کا نفاذ امریکی حکومت کی جانب سے عالمی تجارت میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اگرچہ اس فیصلے کے فوری اثرات پاکستانی معیشت پر منفی ہوں گے، لیکن طویل المدتی نتائج کا انحصار پاکستان کی جانب سے اختیار کی جانے والی حکمت عملیوں پر ہے۔ پاکستان کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اپنی برآمدات میں تنوع پیدا کرے، مسابقت بڑھائے اور سفارتی مذاکرات کے ذریعے اپنے موقف کو موثر انداز میں پیش کرے۔ اس کے علاوہ، یہ معاملہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تجارتی تعلقات میں موجود پیچیدگیوں اور چیلنجز کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ امریکی ٹیرف پالیسی سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لئے دونوں ممالک کے درمیان بہتر بات چیت اور باہمی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔