پرانی کہانیاں اور نئی سوچ

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
یہ کہانیاں اس وقت کی ہیں جب باتیں ایوانوں کی دیواروں تک محدود تھیں۔ لوگوں کو ایوان پر یقین، اعتماد اور بھروسہ تھا۔ قیام پاکستان کیلئے ہر فرد مخلص تھا۔ ملکی ترقی، سلامتی کیلئے سب یک جان تھے۔ قیام کے بعد زیادہ فیصد عوام اپنے حقوق سے بے خبر تھے، 27ویں شب کا پاکستان قوم کیلئے بڑا معجزہ تھا۔ سب مل بانٹ کر جی رہے تھے۔ لوگوں کا گزار بسر زراعت تھا، روزگار کے مواقع بہت کم تھے، تفریق و تقسیم کا وجود نہیں تھا، ایک فرد کماتا سب کھاتے، جب دنیا بھر میں جمہوریت کا پرچار تھا اور ہمارے ہاں نعرے بازی، الزامات کی سیاست، سیاسی مقدمات، ملکی املاک کی توڑ پھوڑ اور قومی خزانے کی لوٹ سے جمہوریت کے پودے کو جوان کیا جا رہا تھا۔ جب وقت اور حالات بہتر تھے منتخب نمائندوں نے خون سے سینچی ہوئی فلاحی ریاست کا خواب پورا نہیں کیا، قربانیاں دینے والے دنیا سے چلے گئے۔ آج وقت اور حالات کا رونا رویا جا رہا ہے، ایک دوسرے کی پوتڑیوں کو بوری میں بند کر کے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان سے ایسی بد بو آ رہی ہے جو نئی نسل کیلئے جان لیوا بن چکی ہے۔ سیاسی جماعتیں کئی بار حکومتوں کا حصہ رہیں، لیکن عوام کو سکھ نہ دے سکیں۔ سیاسی چالیں، سیاسی ڈرامے، کبھی اسٹیبلشمنٹ اور کبھی ایوان صدر کے کندھوں پر ڈالا جاتا رہا۔ معاشی بحالی نہ ہو سکی۔ آئینی ترمیم سے تبدیلی لانے کی مسلسل کوششیں جاری ہیں، لیکن مفادات کے فیصلے ابھی تک جاری ہیں۔ ذاتی مفادات کو کوئی جماعت ختم نہ کر سکی۔ وقت کی تیز رفتاری اور جدید ٹیکنالوجی نے چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں، ماضی سیاسی مقدمات سے داغدار ہے۔ سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف لا تعداد مقدمات درج کئے اور آج بھی ان مقدمات کی بھر مار ہے۔ 1997ء میں نواز شریف سرکار نے آصف علی زرداری پر مقدمہ درج کرنے کا پلان کیا اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری شجاعت حسین تھے، جن کی سمجھ داری اور ڈی جی اے این ایف کی غیر جانبدار رپورٹ سے مقدمہ ختم ہوا۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی جب اقتدار میں آئی تو آصف علی زرداری صاحب نے رحمت شاہ آفریدی جو ایک اخبار سے وابستہ تھے ان کو بھی رہائی دلوائی۔ اس طرح کے کئی سیاسی مقدمات ہمارے ماضی، حال کا حصہ ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست دانوں سے عام فرد تک کا یہ کمال ہے کہ ماضی کو کبھی نہیں چھوڑتے اور ترقی کے لیے ماضی کو بھولنا شرط ہے ۔ مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا بھی سنائی گئی۔ ایک مشہور مقدمہ جو وزیر اعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ پر سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں بنایا گیا تھا، رانا ثنا اللہ پر کئی مقدمات اور تشدد کی لمبی فرسٹ ہے، لیکن وہ بھی آج کل موجودہ صورتحال پر خاموش ہیں۔ عمران خان نے بھی وہی کیا جو ماضی کی حکومتوں نے کیا۔ معاشی صورتحال اگر سیاسی مقدمات سے بہتر ہو سکتی ہے تو ماضی کے ہزاروں مقدمات میں چند سو اور کا اضافہ کر لیں تاکہ عوام کو بے روزگاری، مہنگائی اور سرکاری اداروں میں رشوت جیسی پیدا گیری سے نجات مل سکے۔ یہ تمام باتیں عوامی صورتحال کی عکاسی ہیں، ڈیجیٹل رائٹس فائونڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور انسانی حقوق کی نامور کارکن نگہت داد کہتی ہیں کہ ’’ وہ ریاست جو ایک جمہوری ریاست کا دعویٰ کرے اور اس کے عوام اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ڈریں، بالخصوص حکومتی پالیسیوں، کرپشن اور دیگر مسائل پر بات کرنے سے عوام ڈرنا شروع ہو جائیں تو پھر وہ جمہوریت جمہوریت نہیں ہوتی‘‘۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ لوگ بدنامی کو اپنا نام سمجھتے ہیں، وہ شیخ صاحب بھی کہتے ہیں کہ جیل میرا سسرال ہے، ہمارے ہاں ایسے ڈائیلاگ فخر اور عزت تصور سمجھے جاتے ہیں، آصف زرداری صاحب کہتے تھے کہ ’’ جتنی مرضی سہولتیں آسائشیں ہوں لیکن جیل جیل ہے ‘‘۔ آئین پاکستان تو عدل و انصاف کا پیکر ہے، بظاہر ملک جن حالات سے گزار رہا ہے اس میں قوم کے کردار کی بڑی اہمیت ہے۔ اختیارات کا غلط استعمال معاشرتی تفریق کو جنم دیتا ہے۔.گولیوں اور بموں کا میدان جنگ نہیں ہے، بلکہ الفاظ، خیالات اور اختلاف رائے کا دور ہے، اب لوگ ایک دوسرے کے لیے دو دھاری تلوار بن کر ابھرا رہے ہیں۔ ملکی سلامتی کیلئے تو سب متحد ہیں لیکن معاشی صورتحال میں بہتری کیلئے سب کی سوچیں دوسرے سے مختلف ہیں، تفریق و تقسیم کا سب شکار ہیں، سیاسی جماعتیں جھوٹے سیاسی مقدمات کے خلاف کھڑی نہیں رہتی بالکل خود شامل حال ہوتی ہیں، سرکاری اداروں میں کھولے عام رشوت کے خلاف کیوں اقدامات نہیں کرتی، سرکاری زمینوں پر قبضے کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی، کاروباری مافیا کو کنٹرول کرنے میں کیوں ناکام ہے۔ عام شہریوں کو بر وقت انصاف میسر نہیں اور عوامی مفادات ان کی ترجیحات میں نہیں، سخت فیصلے ملکی معیشت میں بہتری لا سکتے ہیں۔ نئی نسل کے پاس سوالات کی بھر مار ہے، ریاست کے پاس ان سوالات کے جوابات کیلئے کوئی پلان نہیں، کیوں کہ حکومتیں سارا وقت آپس کی لڑائی جھگڑوں میں لگا رہی ہیں۔ اب نیا قانون پیکا نافذ کر دیا گیا ہے، جس نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے، اس قانون کی زد میں ہر فرد آچکا ہے ۔ متعلقہ ادارے کی جگہ پولیس مقدمات درج کر رہی ہے، پیکا سے عوامی سوچ کو دبایا جا سکتا ہے، لیکن ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے قوانین ملکی ترقی میں رکاوٹ ثابت ہوں گے، حکومت کو معاشی صورتحال میں بہتری کیلئے ایسے قوانین سے باز رہنا ہو گا۔