Column

ریکو ڈک، بلوچستان، کرپشن اور امیدیں

تحریر : ملک شفقت اللہ
بلوچستان کے چاغی ضلع میں واقع ریکوڈک کاپر۔گولڈ منصوبہ پاکستان کے سب سے بڑے معدنی وسائل میں سے ایک ہے، جس میں تخمیناً 12.3ملین ٹن تانبہ اور21.5ملین اونس سونا موجود ہے۔ یہ دنیا میں تانبے اور سونے کے 10سب سے بڑے غیر ترقی یافتہ ذخائرمیں شمار ہوتا ہے، لیکن یہ منصوبہ تین دہائیوں سے تنازعات اور سیاسی رکاوٹوں کی نذر ہوتا آیا ہے۔ ریکوڈک ذخائر کا پتہ پہلی بار 1970ء کی دہائی میں چلا، لیکن اصل پیش رفت 1993ء میں ہوئی جب حکومتِ بلوچستان نے ایک غیر ملکی کمپنی BHPکے ساتھ معاہدہ کیا۔ 2000ء میں یہ معاہدہ ٹیتھیان کاپر کمپنی (TCC)کو منتقل ہو گیا، جس میں کینیڈا کی بیرک گولڈ اور چلی کی اینٹوفاگاسٹا کمپنیوں کا اشتراک تھا۔ 2006ء میں، TCCنے ریکوڈک کے معدنی ذخائر کا تفصیلی سروے مکمل کیا اور 3.3بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیش کش کی، لیکن 2011 ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے معاہدہ غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں، TCCنے پاکستان کے خلاف ورلڈ بینک کے ثالثی فورم (ICSID)میں مقدمہ دائر کر دیا، جس میں پاکستان پر 5.9بلین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ یہ جرمانہ پاکستان کے مجموعی زرمبادلہ ذخائر کے تقریباً 20 فیصد کے برابر تھا، جو ایک بڑا معاشی دھچکہ ثابت ہو سکتا تھا۔ تاہم، 2022ء میں حکومت پاکستان نے بیرک گولڈ کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کیا، جس کے تحت یہ جرمانہ معاف کر دیا گیا اور منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق ہوا۔
تازہ ترین فزیبلٹی رپورٹ کے مطابق، ریکوڈک منصوبے کی کل لاگت 6.8بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے، جو کہ ابتدائی تخمینے سے 58فیصد زیادہ ہے۔ منصوبے کے تحت2028ء تک پیداوار شروع ہو جائے گی۔ابتدائی سالوں میں 45ملین ٹن سالانہ اور 2034ء کے بعد 90ملین ٹن سالانہ پروسیسنگ کی جائے گی۔37سالہ لائف سائیکل میں 90بلین ڈالر کا آپریٹنگ کیش فلو اور 70بلین ڈالر کا فری کیش فلو متوقع ہے۔جبکہ پاکستان کو 54بلین ڈالر کی مجموعی آمدنی متوقع ہے۔ ریکوڈک سے حاصل ہونے والا تانبہ اور سونا عالمی منڈی میں بیچا جا سکتا ہے، جو پاکستان کے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔اس منصوبے سے 16000سے زائد براہ راست اور بالواسطہ ملازمتیں پیدا ہونے کا امکان ہے، جن میں مقامی افراد کو ترجیح دی جائے گی، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ملازمتوں کے مواقع مقامی اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئرز کیلئے بھی میسر ہوں گے یا سی پیک کی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئرز وغیرہ طیرک گولڈ کینیڈا اور دیگر ممالک سے ہائر کرے گی اور مقامی پڑھے لکھے بے روزگار نوانوں کی قابلیت محض کان کنی کی نظر ہو جائے گی؟۔ اس کے علاوہ، بلوچستان کے دیہی علاقوں میں نئی سڑکیں، انفراسٹرکچر اور توانائی کے منصوبے بنائے جائیں گے حکومت بلوچستان کو ریکوڈک کی آمدنی میں 25فیصد حصہ ملے گا، جو صوبے کی ترقی کے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے،لیکن جب تک بلوچستان کے مقامی لوگوں کا مفاد اس میں شامل نہیں کیا جاتا تب تک یہ ترقی عارضی رہے گی۔اس کے ساتھ ساتھ، کمپنی بلوچستان میں سماجی ترقی کے منصوبے شروع کرے گی، جن میں تعلیم، صحت اور پینے کے پانی کے منصوبے شامل ہیں۔ اب تک کے معاہدوں میں مالی تفصیلات اور آمدنی کی تقسیم کے حوالے سے مکمل شفافیت نظر نہیں آتی۔ اگر مالی معاملات عوام کے سامنے نہیں رکھے گئے تو ماضی کی طرح بدعنوانی اور غیر منصفانہ فیصلے اس منصوبے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند گروپ اور دہشت گرد تنظیمیں غیر ملکی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کے خلاف حملے کر چکی ہیں۔گوادر اور سی پیک کے دیگر منصوبوں پر ہونے والے حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ریکوڈک بھی ممکنہ طور پر خطرے میں ہو سکتا ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ریکوڈک سے نکالا گیا تانبہ اور سونا خام شکل میں بیرون ملک بھیجا جائے گا، جبکہ بلوچستان حکومت یہاں ریفائنری لگانے کی خواہاں تھی۔ اگر یہ معدنیات پاکستان کے اندر ہی پروسیس کیے جائیں تو اس سے معیشت کو زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن عالمی ثالثی معاہدے کے بعد ایسا ممکن نہیں رہا۔
یہ منصوبہ بنیادی طور پر پاکستان کے لیے ایک سنہری موقع ہے، لیکن ماضی کے منصوبوں سے پیش آنے والے چیلنجز کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل میں کوئی لائحہ عمل تیار نہ کیا گیا تو یہ سی پیک اور گوادر پورٹ کی طرح متنازع اور سست روی کا شکار ہو سکتا ہے۔ سیاسی مداخلت اور بیوروکریسی کی رکاوٹیں اس منصوبے کو مزید تاخیر کا شکار کر سکتی ہیں۔ اگر سکیورٹی کے مسائل حل نہ ہوئے تو بیرونی سرمایہ کار خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ اگر آمدنی کی شفافیت یقینی نہ بنائی گئی تو بلوچستان کی عوام میں مزید محرومی اور غصہ پیدا ہو گا، جس کا فائدہ تخریب کار قوتیں اٹھائیں گی۔ معاہدے کی تمام تفصیلات کو عوام کے سامنے رکھا جائے اور ریکوڈک کے مالی معاملات کو اوپن ڈیٹا کے طور پر پیش کیا جائے۔ بلوچستان میں ایک مخصوص فورس بنائی جائے جو اس منصوبے کی حفاظت کو یقینی بنائے، تاکہ سرمایہ کاروں کو تحفظ حاصل ہو، اور اعتماد بحال رہے۔ ریفائنری لگانے کے آپشن پر دوبارہ غور کیا جائے، اور عالمی ثالثی معاہدے میں گنجائش نکالنے کی کوشش کی جائے، تو پاکستان میں ہی معدنیات کی پروسیسنگ کا انتظام ہونے سے زیادہ منافع ملک میں ہی رہے گا۔ ریکوڈک پاکستان کے معدنی وسائل کا سب سے بڑا خزانہ ہے، لیکن اس سے حقیقی فوائد تبھی حاصل ہوں گے جب حکومتی پالیسی واضح، شفاف اور عوامی مفادات پر مبنی ہو۔ اگر اسے سی پیک اور گوادر بندرگاہ کی طرح سست روی، بدانتظامی اور سیاسی مداخلت کا شکار بنا دیا گیاتو یہ اس سے استفادہ حاصل کرنا بھی محض خواب رہے گا۔ اب وقت ہے کہ حکومت اس منصوبے کو انتہائی سنجیدگی سے لے اور بلوچستان سمیت پورے ملک کو اس کے حقیقی فوائد پہنچانے کے لیے شفاف حکمت عملی اختیار کرے۔

جواب دیں

Back to top button