یادرفتگان

تحریر : امتیاز عاصی
عام طور یہ فقرہ زدوعام ہے بڑی بہن ماں برابر ہوتی ہے۔والدین تو ہوتے ہیں سب بچوں کے کفیل گھر میں والدین کی وفات کے بعد بڑی بہن ہوتی ہے جو چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھتی ہے۔بہن بھائیوں اور رشتہ دار عزیزوں کا مشکل گھڑی میں پتہ چلتا ہے وہ کس حد تک ساتھ نبھاتے ہیں۔موت تو برحق ہے جس سے کسی کو مفر نہیں ہم سب کو ایک نہ ایک روز منعم حقیقی کے ہاں جانا ہے ۔والدین کی رحلت کے بعد مجھ پر مشکل وقت آن پڑا تو بڑی بہنوں نے والدین کی غیر موجودگی کو محسوس نہیں ہونے دیا بلکہ بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ مجھے یاد ہے میرے بہت پیارے بزرگ اور زنداں کے ساتھی راجا محمو یونس کہا کرتے تھے عاصی یہ تمہاری بہنیں نہیں بھائی ہیں۔ اس طرح تواتر سے کسی کے بھائی ملاقات کے لئے نہیں آتے عمررسیدہ ہونے کے باوجود ان کے سروں پر دوپٹے اور سامان ہاتھ میں لئے چلی آتی ہیں۔ سیشن جج کی عدالت سے موت کی سزا ہونے تک والدہ محترمہ زندہ تھیں 2008ء میں اگلے جہان کو سدھار گئیں تو دونوں بڑی بہنوں نے ان کی کمی محسوس نہیں ہونے دی ۔والد محترم تو میں مدینہ منورہ میں تھا وفات پا گئے تھے ۔2008ء سے 2016 ء تک دونوں بڑی بہنوں نے والدین کی غیر موجودگی کا احساس نہیں ہونے دیا۔پندرہ برس کی اسیری کوئی معمولی عرصہ نہیں ہوتا بڑی بہنوں نے اس عرصہ میں ماتھے پر شکن نہیں آنے دیا میری ضروریات کو پورا کرنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی۔ تین بڑی بہنوں کے بعد میں تھا اور ایک مجھ سے چھوٹا بھائی ہے۔ گویا اس لحاظ سے بہنوں کا دست شفقت مجھ پر سایہ کی طرح رہا۔مجھ سے بڑی بہن گزشتہ چار سال سے ڈیمنشیا (Demntia)کا شکار تھیںجو ایک لاعلاج مرض ہے جس میں انسان یادداشت کھو جاتا ہے۔صوم وصلوۃ کی پابند، حج وعمرہ کی کئی بار سعادت اور ضرورت مندوں کی حاجت وری اس کا شیوہ تھا۔ کئی ماہ سے صاحب فراش تھیں نیم بے ہوشی میں اس ناچیز کا نام لے کر پکارا کرتیں ۔ والد محترم کا یہ فقرہ مجھے یاد ہے بیوی اور بچے مل جاتے ہیں، والدین اور بہن اور بھائی نہیں ملتے۔ ایک بدبخت جیل افسر نے رشوت نہ دینے کی پاداش میں میرا نام چالان کے لئے سیکرٹری داخلہ کو بھیج دیا جس کے بعد مجھے سنٹرل جیل ساہی وال بھیج دیا گیا۔ فیض آباد بس اڈے سے رات کو والدہ کے ساتھ بس میں سوار ہوتیں اور فجر کی نماز جیل کی مسجد میں پڑھنے کے بعد میری ملاقات کرتیں۔ ہر پندرہ روز بعد ساہیوال میری ملاقات کے لئے جانا اس کا معمول تھا۔ وہ ساہی وال جیل کے ملازمین کی بہت تعریف کرتیں کہ انہیں وہ سب سے پہلے سزائے موت میں ملاقات کے لئے بھیجوا دیتے کہ یہ خواتین اتنی دور سے آئیں ہیں انہیں پہلے جانے دو۔ چار ماہ بعد ایک مہربان نے چیف سیکرٹری سلمان صدیق سے سفارش کی جنہوں نے پنجاب ہائوس اسلام آباد میں سیکرٹری داخلہ پنجاب خسرو پرویز خان سے کہہ کر مجھے سینٹرل جیل راولپنڈی بھیجنے کی ہدایت کی۔2009ء میں ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ نے موت کی سزا کو برقرار رکھا تو اطلاع ملتے ہی میں سجدہ ریز ہوگیا، اے مالک تو بہتر فیصلے کرنے والا ہے۔2015ء میں اچانک کیس سپریم کورٹ میں لگ گیا تو میرے وکیل جناب سردار اسحاق خان بڑے برہم ہوئے تم نے کس بینچ کے پاس لگوایا ہے یہ تو بات نہیں سنتے۔ جس بینچ نے میرا کیس سنا اس میں جسٹس اعجاز چودھری بینچ کے سربراہ تھے، جبکہ دوسرے دو ججوں میں جسٹس گلزار احمد، جو بعد ازاں چیف جسٹس آف پاکستان بنے اور جسٹس اقبال حمید الرحمان جو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے تھے۔ وہ معروف چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس حمود الرحمان کے بیٹے ہیں، آج کل شرعی عدالت کے چیف جسٹس ہیں۔ حق تعالیٰ نے مہربانی کی، میرے وکیل نے قریبا اڑھائی گھنٹے بحث کی جس کے بعد میری موت کی سزا عمر قید میں بدل گئی۔ بہن مرحومہ نے بتایا کہ کیس کی سماعت کے دوران درود شریف کا باقاعدگی سے ورد کرتی رہیں جو ایک بہن کی اپنے بھائی سے محبت کا مظہر ہے۔ بڑی بہن ان دنوں زندہ تھیں بہنوں کی خوشی دیدنی تھی سزائے موت عمر قید میں بدلنے کے بعد ایک اور دریا کو ابھی عبور کرنا تھا۔ وہ بی کلاس کا دوبارہ آرڈر سیکرٹری داخلہ سے کرانا تھا۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کا موقف تھا آپ کا اسٹیٹس بدل گیا ہے لہذا دوبارہ بی کلاس کے آرڈر کرانے ہوں گے۔ حق تعالیٰ، راجا زاہد کو عمر خضر دے ان کی کاوشوں سے چند دنوں میں بی کلاس کا آرڈر آگیا ہے۔ راجا صاحب راولپنڈی میں تحصیل دار رہ چکے تھے اور صوبائی سیکرٹریٹ لاہور میں سیکشن آفیسر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ آج کل اسلام آباد میں سردار تنویر الیاس کے ساتھ سنتورس میں اچھے عہدے پر فائز ہیں۔ اللہ کریم ان کے بھائی راجا شعیب عادل کو صحت دے وہ طویل عرصہ سے علیل ہیں۔ میں اپنے چھوٹے بھائی عزیزی حاجی ریاض کا ذکر نہ کروں تو زیادتی ہوگی۔ وہ ان دنوں ریڈیو پاکستان اسلام آباد میں کنٹرولر نیوز تھے۔ میرے لئے بھاگ دوڑ انہی کی ذمہ داری تھی کبھی لاہور کے چکر لگا رہے ہیں تو کبھی ہائی کورٹ ۔اس طویل اسیری کے دوران جن دوست احباب اور مہربانوں نے میرا بھرپور ساتھ دیا ان میں بلوچستان کے اس وقت کے چیف سیکرٹری جناب احمد بخش لہڑی، وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر ظفر اقبال قادر، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایڈیشنل سیکرٹری محمد افضل خان ،سابق بیوروکریٹ فصیح الدین خان، سابق ڈائریکٹر اینٹی کرپشن ملک طارق رحیم حیدری اور صحافیوں میں میرے عزیز دوست جنگ کے کرائم رپورٹر حافظ وسیم اختر ملک میرے دل پر نقش رہیں گے۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں بہن سے کی طبیعت کچھ زیادہ ناساز تھی۔ چاند رات سے ایک روز پہلے میں انہیں دیکھنے گیا اگلے روز صبح پانچ بجے اطلاع آئی بہن مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تنہا چھوڑ گئیں ہیں۔ حق تعالیٰ کے فیصلوں پر انسان سوائے صبر شکر کرنے کے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ عیدالفطر کو جب عالم اسلام کے مسلمان عید کی خوشیاں منا رہے تھے تو میں ایک بار پھر یتیم ہو گیا۔ میرا خیال رکھنے والی مجھے ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئیں۔ میں ان تمام دوستوں اور عزیزوں کا مشکور ہوں جو اپنی عید کی خوشیاں چھوڑ کر میری بہن کی میت کو کندھا دینے آئے۔