Abdul Hanan Raja.Column

یوم القدس، شیطان بزرگ اور عالمی مردہ ضمیری

عبد الحنان راجہ
القدس کے معاملہ پر عالمی مردہ ضمیری تو ہے ہی مگر اس پہ امت مسلمہ کی خامشی نہ صرف تکلیف دہ بلکہ باعث ندامت کہ اہل اسلام کی غالب اکثریت ایمان کے آخری درجہ سے بھی گزر چکی۔ سوال اسرائیلی مظالم و بربریت ظلم یا انسانی حقوق کی بیہمانہ پامالی کا نہیں کہ مسلمانوں سے یہود دشمنی کی تاریخ چودہ صدیاں پرانی اور عیسائی و صیہونی طاقتوں کا گٹھ جوڑ بھی نئی بات نہیں۔ قابل غور، توجہ طلب، لمحہ فکریہ اور باعث ذلت تو یہ کہ پوری امت مسلمہ او آئی سی اور پھر اقوام متحدہ نام نہاد ہی سہی کس مرض کی دوا اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے اہل غزہ و فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کو دور جدید کے درندوں اور وحشیوں کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑ رکھا ہے۔ ؟ اسلام آباد کے معروف ہوٹل میں ایرانی سفارت خانہ کی طرف سے یوم القدس کی تقریب میں غزہ پر مظالم کے مناظر دیکھ کر دل تو خون کے آنسو رو ہی رہا تھا مگر ایک سوال ذہن کے نہاں خانہ میں بجلی کے کوندے کی طرح آیا کہ کیا اہل فلسطین سرزمین مقدس کے وارث ہونے کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ اس سوال کا شافی جواب فلسفیانہ ہے اور نہ مقررانہ و صحافیانہ۔ تشفی کی صورت ایک ہی کہ امت آگے بڑھ کر ظالم کا ہاتھ روک دے مگر فی الوقت ایں خیال است محال است والی بات ہی نظر آتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے افطار ڈنر کی تقریب یوم القدس کے اعادہ کے طور پر ہی تھی۔ مختلف ممالک کے سفرا سمیت سیاسی سماجی مذہبی اور صحافتی زعما کے علاوہ ہر طبقہ فکر کی نمائندگی رہی۔
سفیر اسلامی جمہوریہ ایران ڈاکٹر امیر مقدم نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ رہبر انقلاب امام خمینی نے رمضان الکریم کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر منانے کا جو تصور دیا یہ اسی کے ثمرات ہیں کہ پوری دنیا جمعہ الوداع کو یوم القدس کے طور پر مناتی ہے۔ انہوں کے کہا کہ ناجائز ریاست اسرائیلی کی جارحیت کے خلاف حماس کی مزاحمت ناقابل فراموش اور قبلہ اول کی آزادی کے لیے ہماری اعلی ترین قیادت تک نے خون پیش کیا۔ امریکہ و اسرائیل ایک طرف مذاکرات تو دوسری طرف بربریت جاری رکھے ہوئے ہیں یہ ناقابل قبول اور فسطائیت ہے۔ سفیر ایران نے پاکستان کے دوٹوک موقف پر حکومت اور پوری قوم کو خراج تحسین پیش کیا۔ معروف دانشور و سابق وفاقی وزیر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا دنیا میں دو فاسٹ ریاستیں ہیں اسرائیل اور بھارت۔ اور یہ کسی طور مسلمانوں بالخصوص پاکستان کو طاقتور نہیں دیکھ سکتے۔ ایران کی اسرائیل کے خلاف جد و جہد مثالی اور امریکہ کا ایرانی روحانی راہنما علی خامنہ ای کو خط انکی کوشش کا اعتراف ہے۔ سابق وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے کہا کہ غزہ انسانیت کا المیہ ہے۔ بیت المقدس کے مسئلہ کو اجاگر کرنے کے لیے امام خمینی نے جو تصور دیا وہ قابل تحسین اور صد شکر کہ پوری امت نے اس تصور کو قبول کیا۔ جو اسرائیل کے لیے نرم گوشہ اپنائے گا وہ ماضی کا حصہ بن جائے گا۔ پیر سید حیدر گیلانی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ القدس کیوں ہوتا ہے ۔ کشمیر میں کیوں ظلم کیوں۔ مسلم ممالک کو یہ سوچنے کی ضرورت اور لسانی مذہبی و علاقائی تقسیم ختم کر کے امت واحدہ بنے بغیر ہم زوال سے نہیں نکل سکتے۔ صدر جمعیت ایل حدیث سید ضیا اللہ بخاری کا کہنا تھا کہ پاکیزہ اہداف کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ اصلاح احوال کی جائے اور اتحاد کو مستحکم۔ پوری امت کو ریاست پاکستان و ایران کی طرح موقف اپنانا ہو گا۔ سربراہ وحدت المسلمین راجہ ناصر عباس نے کہا کہ قضیہ فلسطین اب عوام کے ذمہ ہے ظلم کے خلاف مزاحمت فطری ہے اور یہ کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ مگر افسوس کہ اقوام متحدہ اس معاملہ میں رسوا ہو رہی ہے۔ مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ فلسطین اور کشمیر امت کے مسائل ہیں۔ چیئرمین مسلم لیگ ن راجہ ظفر الحق نے کہا کہ قائد اعظم نے بھی اسرائیل کو مغرب کا ناجائز بچہ کہا اور اب ھم بھی یہی سمجھتے ہیں۔ اب دو ریاستوں کی بات اپنے موقف کی خلاف ورزی ہے۔ یہ اسلام دشمن قوت کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ اب بھی اسرائیل کو بچانے کے لیے آوازیں اور فارمولے سامنے آ رہے ہیں۔ سابق چیئرمین سینٹ نیر بخاری سابق وزیر علی محمد خان افتخار نقوی نے کہا کہ ایران ایسا ملک کہ جس کی فلسطین بارے پالیسی واضح جرات مندانہ ہے۔ اتنی بربریت تاریخ میں نہیں دیکھی گئی۔ اس مسئلہ کو مضبوط سفارتی حمایت چاہیے جو اقوام عالم کو اس کے جائز حل پر مجبور کرے۔ تحریک منہاج القران کے راہنما معروف سکالر صاحبزادہ پروفیسر علی اختر اعوان بھی شریک تقریب تھے نے راقم سے گفتگو میں مختلف مکاتب فکر کے علما و مشائخ کی پروگرام میں شمولیت فلسطینیوں سے اظہار محبت و عقیدت اور یک جہتی کی
علامت قرار دیا مگر یہ ناکافی۔ اب عملا اقدامات جن میں امت کا کشمیر و فلسطین پر متفقہ و جان دار موقف اور مسلم ممالک کے مضبوط معاشی و عسکری اتحاد لازم کے بغیر ذلت اور مظلومیت ختم ہونے کو نہیں۔ یوم القدس سیمینار کے اگلے روز القدس کمیٹی پاکستان کے زیر اہتمام پیر سید حیدر گیلانی کے زیر صدارت نیشنل پریس کلب میں غزہ اور اقوام عالم کا کردار کے عنوان سے سیمینار میں بھی شرکت اور اظہار خیال کا موقع ملا۔ معروف تجزیہ نگار عبداللہ حمید گل کی فکر انگیز گفتگو نے عالمی برادری کی ضمیر کو خوب جھنجھوڑا، ان کا کہنا تھا کہ تاریخ فیصلہ کرے گی کہ قاتلوں کے ساتھ کون تھا اور مظلوموں کا ساتھی کون۔ ایل غزہ کربلا کی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے عزائم واضح اور امریکہ کی پشت پناہی گریٹر اسرائیل کے قیام کو شہ دے رہی ہے۔ دو ریاستی فارمولا ناقابل قبول ہے۔ سید حیدر گیلانی نے کہا کہ مسلمہ اور عالمی برادری مذمت سے آگے نہیں بڑھ رہی اور 50لاکھ مسلم فوج کے باوجود غزہ پر اسرائیلی بربریت کے نہ رکنے کا مطلب جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہے۔ تنظیم اہل سنت انٹرنیشنل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ضمیر شاہ کاظمی کا یہ جملہ ضرب المثل کہ مقام افسوس کہ ہم افطار کچوریوں و فروٹ اور اہل غزہ بموں اور بارود سے کریں۔ نیشنل پریس کلب کے صدر افضل بٹ کا کہنا تھا کہ بیت المقدس کی آبادی کیلئے ہمیں اپنے اندر بدر، خندق اور خیبر جیسے جذبہ ایمانی کی ضرورت ہے، دیگر مقررین جن میں پیر حسیب احمد نظیری جے یو پی کے نائب صدر سعید احمد نقشبندی سابق وزیر ڈاکٹر ندیم خان اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر علی واجد گیلانی نے امت مسلمہ کے اتحاد اور نیٹو کی طرز پر مشترکہ اسلامی فوج کے قیام پر زور دیا۔ راقم الحروف نے مختصر گفتگو میں کہا کہ فلسطینیوں پہ بدترین مظالم پر عالم اسلام اور اقوام متحدہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ قتل عام اور یہودیوں کی وہاں آباد کاری اسرائیلی ریاست کے قیام کی طرف عملی قدم ہے۔ آج جو کچھ کشمیر اور فلسطین میں ہو رہا ہے وہ لمحہ فکریہ ہے، تقریب کے آرگنائزر سید امجد حسین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں عورتوں اور بچوں پر ہونے والی بربریت کو دیکھ کر درندے بھی شرمندہ ہیں، بدقسمتی یہ کہ امت مسلمہ متحد نہیں۔ ہر دو تقاریب اہل غزہ سے اظہار یکجہتی ضرور مگر اب ظلم کا جواب مذمت سے نہیں مرمت سے ہی لازم۔
لکھتے ہیں تیرے غم میں تحریر مسجد اقصیٰ
بے بس تو ہیں بے حس نہیں مسجد اقصیٰ

جواب دیں

Back to top button