عالمی اقتصادی جنگ اور BRICS: نیا ورلڈ آرڈر؟

تحریر: ملک شفقت اللہ
دنیا بھر میں معاشی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ تیزی سے شدت اختیار کر رہی ہے۔ مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ اور یورپی یونین، جہاں عالمی اقتصادی نظام پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے کوشاں ہیں، وہیں BRICSممالک ( برازیل، روس، بھارت، چین، اور جنوبی افریقہ) ایک متبادل عالمی نظام تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں یوریشیا گروپ کی حالیہ رپورٹ اور عالمی ماہرین کی آراء مستقبل کی عالمی اقتصادی سیاست کے بارے توجہ طلب اور غیر معمولی تصویر پیش کرتی ہیں۔BRICSممالک نے حالیہ برسوں میں امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ روس اور چین کی قیادت میں BRICSکراس۔ بارڈر پیمنٹ انیشیٹو (BCBPI)متعارف کرایا گیا ہے، جو ایک ایسا مالیاتی نظام ہے جو رکن ممالک کو اپنی قومی کرنسیوں میں لین دین کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ چین اور روس کے درمیان تجارتی حجم 2024ء میں 240بلین ڈالر تک پہنچ گیا، جس میں 80فیصد لین دین یوآن اور روبل میں کیا گیا۔ بھارت نے 2023ء میں روس سے 35فیصد خام تیل بھارتی روپے میں خریدا۔ جنوبی افریقہ اور برازیل نے بھی مقامی کرنسیوں میں تجارت کے معاہدے کیے ہیں۔BRICSممالک کی مجموعی GDPعالمی معیشت کا تقریباً 31.5فیصد بن چکی ہے، جس کی وجہ سے G7ممالک کی جی ڈی پی (30.7فیصد) سے تجاوز کر چکی ہے۔BRICSممالک کی باہمی تجارت کا حجم 2024ء میں 8ٹریلین ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔
یوریشیا گروپ کی 2025ء کی ’’ ٹاپ رسکس‘‘ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ دنیا ایک جنریشن زیرو دور میں داخل ہو رہی ہے، جہاں کوئی بھی واحد ملک یا گروہ عالمی قیادت سنبھالنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی کشیدگی عالمی معیشت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ روس کی جارحانہ اقتصادی اور عسکری پالیسیوں کے سبب یورپ میں عدم استحکام کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور نئی ٹیکنالوجیز کی غیر منظم ترقی عالمی سیکیورٹی کے لیے نئے خطرات پیدا کر رہی ہے۔ عالمی اقتصادی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ BRICSممالک کی جانب سے امریکی ڈالر کے متبادل کے طور پر ایک نئی کرنسی متعارف کروانے کی کوششیں ابتدائی مراحل میں ہیں اور اس کے حتمی اثرات کا اندازہ لگانے میں مزید وقت لگے گا۔HSBCکے چیئرمین سر مارک ٹکر کے مطابق، ’’ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں علاقائی تجارتی بلاکس زیادہ اہمیت اختیار کر رہے ہیں اور BRICSپلس جیسے گروپ عالمی معیشت پر نمایاں اثر ڈال سکتے ہیں‘‘۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے تجزیہ کار رچرڈ کوفمان کا کہنا ہے، ’’ BRICS کرنسی ایک علامتی اقدام ہوسکتا ہے، لیکن حقیقی اقتصادی نظام میں اس کی کامیابی کا انحصار ان ممالک کے باہمی اعتماد اور اقتصادی استحکام پر ہے‘‘۔
حالیہ جغرافیائی سیاسی کشیدگی کے پیش نظر یہ سوال انتہائی اہم ہو چکا ہے کہ کیا یہ اقتصادی سرد جنگ عالمی ایٹمی جنگ کا رخ اختیار کر سکتی ہے؟۔ امریکہ، چین، اور روس کے درمیان تنازعات، خاص طور پر یوکرین جنگ اور تائیوان تنازعہ کے تناظر میں، ایک نیا سرد جنگی ماحول پیدا کر چکے ہیں۔ اگر اقتصادی جنگ مزید شدت اختیار کرتی ہے اور مغربی ممالک BRICSپر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرتے ہیں، تو یہ تنازع فوجی تصادم میں بھی بدل سکتا ہے۔ روس اور چین کے درمیان عسکری اتحاد مضبوط ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں مغرب اور مشرق کے درمیان دفاعی تقسیم بڑھ رہی ہے۔ نیٹو نے مشرقی یورپ میں اپنی موجودگی میں اضافہ کر دیا ہے، جو روس کے لیے براہ راست خطرہ بن سکتا ہے۔ اگر امریکہ اور اس کے اتحادی چین کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے مزید سخت اقدامات کرتے ہیں، تو چین تائیوان کے معاملے میں جارحانہ رویہ اپنا سکتا ہے، جس سے عالمی تنازعہ شدت اختیار کر سکتا ہے۔ ایران، شمالی کوریا، اور روس کے قریبی تعلقات مغربی ممالک کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ امریکہ بھی آہستہ آہستہ اپنے اتحادی کھو رہا ہے۔ امریکہ کی جارحانہ، جنگی سوچ نے اتحادی ممالک کو تذبذب میں ڈال دیا ہے کہ کیا وہ آنے والے وقت میں امریکی بلاک میں مزید رہ سکتے ہیں یا نہیں۔ ٹروڈو نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کی مذمت میں کہا ہے کہ امریکہ اب کینیڈا پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور وہ ہرگز اس پاگل پن کو عملی جامہ پہننے نہیں دیں گے۔
پاکستان کی معیشت عالمی جغرافیائی سیاست سے براہ راست متاثر ہوتی ہے، اور اس بدلتے ہوئے عالمی نظام میں پاکستان کو محتاط اور متوازن پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو چین اور BRICSممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کے ساتھ ساتھ مغربی منڈیوں سے بھی فائدہ اٹھانے کی پالیسی اپنانی چاہیے۔ پاکستانی معیشت کو ڈالر پر انحصار کم کرتے ہوئے، چینی یوآن اور دیگر علاقائی کرنسیوں کے ساتھ تجارت کو فروغ دینا چاہیے۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں ایک ثلث اتحاد قائم کیا جا رہا تھا جس میں پاکستان، روس اور چین اقتصادی طور پر اتحاد کر کے نئے دور کا آغاز کرنے والے تھے۔ چین کا ون بیلٹ ون روڈ انیشی ایٹو اور سی پیک جیسے معاہدوں کے آغاز سمیت گوادر پورٹ کی از سر نو تعمیر میں پاکستان کی معاونت کرنا بھی اسی پالیسی کا حصہ تھا۔ لیکن کرونا کے دور میں جب عالمی معیشتیں زمین بوس ہونے لگیں تو اس فیصلے کو تاخیر کا شکار ہونا پڑا۔ جس کی وجہ سے اس اتحاد کا حصہ بننے والے پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک کو سفر کرنا پڑا۔ لیکن اب جہاں منظر نامہ بدل رہا ہے وہیں پاکستان کو غیر جانبدار رہتے ہوئے امریکہ، چین، اور روس کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھنے چاہئیں تاکہ کسی بھی ممکنہ عالمی اقتصادی جنگ کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ پاکستان کو روس اور ایران کے ساتھ توانائی کے منصوبوں میں شراکت داری بڑھانی چاہیے تاکہ تیل اور گیس کی درآمدات میں تنوع پیدا کیا جا سکے۔ پاکستان کو مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ عالمی سطح پر مسابقتی رہ سکے۔
BRICS ممالک کا عالمی معیشت میں بڑھتا ہوا کردار اور یوریشیا گروپ کی پیش گوئیاں ہمیں ایک ایسے مستقبل کی طرف لے جا رہی ہیں جہاں روایتی عالمی نظام تیزی سے بدل رہا ہے۔ تاہم، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ BRICSواقعی امریکی ڈالر کے متبادل کے طور پر ایک نئی کرنسی متعارف کروا سکے گا یا نہیں۔ البتہ، یہ واضح ہے کہ دنیا ایک نئے معاشی ورلڈ آرڈر کی طرف بڑھ رہی ہے، جہاں طاقت کے نئے مراکز ابھر رہے ہیں اور روایتی عالمی نظام چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس عالمی تبدیلی میں دانشمندی کے ساتھ اپنی معاشی اور سفارتی حکمت عملی ترتیب دے تاکہ وہ مستقبل کے ممکنہ بحرانوں سے محفوظ رہ سکے۔