Column

افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو پاکستان چھوڑنے کا حکم

 

ضیاء الحق سرحدی
اجتماعی طور پر پاکستانی قوم کی مہمان نوازی کی اس سے بڑھ کر مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ معاشی اور مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود پاکستانیوں نے گزشتہ4 دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔ آپس میں سیاسی اور مختلف طرح کے اختلافات کے باوجود کبھی کسی پاکستانی نے اپنے ملک میں افغان مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد میں موجودگی پر ناک بھوں نہیں چڑھائی۔ خیبر پختوانخواہو، سندھ،پنجاب یا بلوچستان ہر جگہ ان کو خندہ پیشانی سے قبول کیا گیا۔ یہ ہیروئن، کلاشنکوف اور لاقانونیت کا مزاج اورکلچر ہمراہ لے کر آئے جس نے پاکستانی سماج کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ اس سب کے باوجود پاکستانیوں نے افغان مہاجرین کو نکالنے یا انھیں واپس بھیجنے کا کبھی مطالبہ نہیں کیا تھا حالانکہ افغان مہاجرین نے مہاجر کیمپوں سے نکل کر ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر کا رخ کیا تو اس وقت بھی یہ پاکستانیوں کی دریا دلی اور افغان بھائیوں کے لیے دلوں میں موجود ایثار کا جذبہ تھا جس کی سبب انھیں روکنے کی کوشش نہیں کی گئی جو کہ یقینی طور پر بہت بڑی غلطی تھی۔ اس کے برعکس ایران میں افغان مہاجرین کی ایرانی حکام نے مہاجر کیمپوں سے نکلنے پر مکمل پابندی لگا رکھی تھی۔ پاکستان میں یہاں کی حکومتوں اور عوام کے جذبہ ایثار کے سبب جب افغان مہاجرین نے پاکستان کے طول و عرض میں کاروباری سرگرمیوں کا آغاز کیا اور بعض علاقوں میں تو ڈرا دھمکا کر مقامی تاجروں کے کاروبار پر قبضے کی شکایات بھی سامنے آئیں جس کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صرف اس لیے درگزر کا مظاہرہ کیا کہ ہمارے یہ افغان بھائی جنگ زدہ افغانستان میں اپنا گھر بار اور کاروبار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بڑی مشکل سے جان بچا کر پاکستان آئے ہیں۔ یہی مہربانیاں تھیں جن کی بدولت افغان مہاجرین پاکستان میں مہمان ہونے کے باوجود مقامی آبادیوں کے مقابلے میں پھیلتے پھولتے چلے گئے۔ گزشتہ دنوں وفاقی وزارت داخلہ نے افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو 31مارچ 2025ء تک پاکستان چھوڑنا کا حکم دے دیا۔ وفاقی وزارت داخلہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی طور پر موجود غیر ملکیوں کی واپسی کا پروگرام (آئی ایف آر پی) یکم نومبر 2023ء سے نافذ ہے اور اب تمام غیر قانونی غیر ملکی اور اے سی سی ہولڈرز کو 31مارچ 2025 ء تک رضا کارانہ طور پر ملک چھوڑ نے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی بھی یکم اپریل 2025ء سے ڈیپورٹیشن کا عمل شروع کر دیا جائے گا، افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو با عزت واپسی کے لیے کافی وقت دیا جا چکا ہے۔ وزارت داخلہ نے کہا کہ واپسی کے عمل کے دوران کسی کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی جائے گی، واپس جانے والے غیر ملکیوں کے لیے خوراک اور صحت کی دیکھ بھال کے انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔ پاکستان ذمہ دار ریاست کے طور پر اپنے وعدوں اور فرائض کو پورا کرتا رہا ہے، پاکستان میں رہنے والے افراد کو تمام قانونی تقاضے پورے اور آئین کی پابندی کرنا ہوگی۔ افغانستان کے خلاف سابق سوویت یونین کی جارحیت کے دوران لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین ہجرت کر کے پاکستان آئے اور انہوں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں پناہ لی پاکستانی عوام نے اپنے افغان بھائیوں کا دل کھول کر استقبال یا انہیں اپنے گھروں میں پناہ دی اور ان کی ہر طرح سے بھر پور مدد کی، ہجرت کر کے پاکستان آنے والے مہاجرین کو صرف افغان کیمپوں تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ انہیں ہر جگہ جانے آنے اور کاروبار کرنے کی بھی مکمل اجازت دی گئی تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی پاکستان آمد سے ملک کی معیشت پر بھی بوجھ بڑھا جبکہ ان میں متعدد مہاجرین مختلف جرائم میں ملوث رہے جس کی وجہ سے یہاں امن وامان کے مسائل بھی بڑھے ہیں۔ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلاء کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ یہ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس چلے جاتے لیکن اس کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین اب تک پاکستان میں موجود ہے گزشتہ سال حکومت نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کے انخلاء کا اعلان کیا اس دوران تقریباً 9لاکھ افغان مہاجرین وطن واپس جا چکے ہیں جبکہ اب بھی ان کی بڑی تعداد یہاں چوری چھے مقیم ہیںاب افغان مہاجرین کو چاہئے کہ وہ از خود رضا کارانہ طور پر اپنے وطن واپس جانے کی راہ لیں اور اپنے ملکی تعمیرنوو ترقی میں حصہ لیں جبکہ پاکستان نے افغان مہاجرین کے پاکستان میں قیام میں توسیع کے لیے افغان طالبان کی درخواست کو مسترد کر دیا اور کامل کو واضح الفاظ میں بتا دیا گیا ہے کہ اسلام آباد یکم اپریل سے تمام غیر قانونی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو ملک بدر کرنے کے اپنے منصوبے پر قائم رہے گا۔ افغان حکومت نے حال ہی میں اپنے شہریوں کی جبری ملک بدری اور ان کے ساتھ مبینہ ناروا سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی اور کہا ہے کہ افغان حکمت اپنے ہم وطنوں کی باوقار واپسی کے لیے ماحول پیدا کرے۔ کے پی کے وزیر اعلی علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ افغان مہاجرین کو نکالنے کی وفاقی پالیسی سے میرا اختلاف ہے، اگر افغانی پاکستان کی نیشنیلٹی لینا چاہتے ہیں تو دے دینی چاہئے۔ پاکستان نے افغانستان پر سوویت جارحیت کے دور سے کم و بیش 50لاکھ افغانوں کی میزبانی کی ہے، دنیا کے کسی ملک نے کسی بھی مہاجر کو اتنی آزادی نہیں دی جو پاکستان میں افغانیوں کو دستیاب رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ افغان مہاجر اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے، پاکستان میں ہر طرح سے بدامنی یہاں تک کہ دہشت گردی تک میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں دس سے زیادہ افغان شہری ملوث پائے گئے ہیں۔ سوشل میڈ یا پر افغان مہاجرین پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہوئے افغانستان کی تعمیر و ترقی کے گن گاتے ہیں، افغان حکومت کا بھی یہی دعویٰ ہے، لہٰذا ان مہاجرین کو چاہئے کہ نصف صدی کی میزبانی بہت ہو چکی اب یہ اپنے وطن واپس جائیں، افغان حکومت کو بھی اپنے شہریوں کے حوالے سے کشادہ ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور انہیں قبول کیا جانا چاہئے۔یہی وہ عوامل ہیں جن کے سبب وزارت داخلہ نے تمام غیر قانونی تارکین وطن اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو 31مارچ 2025ء تک ملک چھوڑنے کی ہدایت جاری کر دی ہے جس میں ان کی عزت نفس اور ملامتی و خیر خیریت کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔ افغان مہاجرین کی پاکستان سے رخصتی کے حوالے سے حکومت کے اعلان پر پاکستان کے عوام نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے بجا طور پر یہ اقدام قومی سلامتی اور معاشی دبائو کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا ہے۔ افغان مہاجرین کو بھی سوچنا چاہیے کہ پاکستان گزشتہ 4دہائیوں سے ان کی میزبانی کا فریضہ ادا کر رہا ہے۔

جواب دیں

Back to top button