Column

شب قدر

صفدر علی حیدری

وہ بے نیاز ذات سراپا عطا ہے۔ ہر دم لطف و کرم فرمانے پر آمادہ ۔
تو عطا ہی عطا
تو کجا من کجا
ہم انسان غفلت میں ہیں۔ ہم اکثر اوقات اپنی ترجیحات کو درست طور پر ترتیب نہیں دے پاتے۔ دنیا ہم میں اور ہم دنیا میں اس حد تک گھس گئے ہیں کہ ہمیں یہ تک بھول گیا ہے کہ ہم ایک مسافر ہیں۔ اور یہ دنیا ہماری منزل نہیں بس ایک راستہ ہے، ایک گزر گاہ ۔ ایک سرائے ، ایک عارضی مستقر۔ ایک وقتی پناہ گاہ ، جہان ہم نے مستقل نہیں رہنا بس سستانا ہے۔
یعنی آگے چلیں گے لیکن ذرا دم لے کر
ہمیں یہاں ہمہ وقت ہمہ دم سفر جاری رکھنا ہے ۔ ہم چاہیں یہ نہ چاہیں یہ سفر رکنے کا نہیں ہے۔ اس سے فرار ممکن ہی نہیں ہے، جبھی تو حکیم اسلام علیؓ ابن طالب نے فرمایا تھا ’’ دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے ‘‘ اور ’’ جب تم ( دنیا کو) پیٹھ دکھا رہی ہو اور موت تمہاری طرف رخ کئے ہوئے بڑھ رہی ہے تو پھر ملاقات میں دیر کیسی؟‘‘۔
کہتے ہیں انسان انس اور نسیان کا مجموعہ ہے۔ وہ پیار کرتا ہے اور کبھی اپنا بھول بھی جاتا ہے۔ پھر بھول کر پھر سے پیار کی راہ پر چل نکلتا ہے۔ کبھی کبھی تو وہ نفرت عناد اور عصبیت کے راستے کو پیار کی راہ سمجھ کر بگڈٹ دوڑنے لگتا ہے۔ قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتا، سنبھلتا اور اچھلتا کودتا ہے۔ اس کے خالق و مالک کو اس کی جذباتیت اور جلدی بازی کا خود اس سے بڑھ کر احساس ہے، جبھی تو وہ اسے سمجھنے، سنبھلنے اور اپنی سمت درست کرتے ہوئے راہ حق پر پھر سی چلنے کی توفیق دیتا رہتا ہے۔ شاید اسی لیے انسان کو سورہ حمد میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ ’’ اے اللہ مجھے سیدھی راہ پر چلا ، مجھے سیدھی راہ کی ہدایت کرتا رہ‘‘۔
دانش مند انسان وہی ہے جو اپنے رب سے ڈرتا رہے۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے۔
بزرگ کہتے ہیں کرو تو ڈرو نہ کرو تو ڈرو۔
بے باکی ہرگز مسنون نہیں۔ وہ سورہ رحمٰن میں فرماتا ہے ’’ جو اس کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے لیے دو دو جنتیں ہیں‘‘۔
وہاں تو ملے گی ہی، یہ دنیا بھی بہتر ہو جائے گی، احسن ہو جائے گی، خوش گوار بن جائے گی۔
انسان کی واپسی کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ اسے کوئی ایک بات، کوئی ایک حادثہ، عبرت کا کوئی واقعہ خواب غفلت سے جنجھوڑ سکتا ہے۔ اس کو جگا سکتا ہے۔ انسان کو اس بات کا احساس ہو سکتا ہے کہ اس نے غلط راستے کا انتخاب کر کے خود کو راہ راست سے کوسوں دور کر لیا ہے۔ اسے احساس ہو سکتا ہے کہ کسی وقتی فائدے کے لیے اس نے اپنا ابدی نقصان کر ڈالا ہے۔ کسی قلیل سی دنیاوی شے نے اسے مستقبل کے عظیم فائدے سے محروم کر دیا ہے۔
اب انسان دعا کا سہارا لیتا ہے۔ اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہو کر اپنے کرموں کی معافی مانگتا ہے۔ خسارہ پانے کا جان سوز احساس اس کا قرار چھین لیتا ہے، وہ دعا مانگنے کے ساتھ ساتھ لاشعوری طور پر ان مخصوص اوقات کا انتظار بھی کرنے لگتا ہے جب دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں۔ آخری شب نماز تہجد میں اس کو پکارتا ہے۔ روتا ہے گڑگڑانا ہے۔ جمعہ کی پر سعادت گھڑیوں میں اسے یاد کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر وہ مخصوص راتوں میں اپنے رب کو پکارتا ہے۔ ستائیس رجب کی رات، پندرہ شعبان کی رات اور سب سے بڑھ کر ماہ رمضان کے آخری عشرے کی تاک راتوں میں اپنے خالق و مالک کے آگے دست سوال دراز کرتا ہے ۔
ماہ رمضان کی یوں تو ہر گھڑی سعادت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت ہے تو دوسرا مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے نجات ہے۔ اسی آخری عشرے کی طاق راتوں میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس مبارک رات کی عبادت بے پناہ اجر و ثواب رکھتی ہے۔ اسے شب قدر قرار دیا گیا ہے۔ یہ رات صبح تک سلامتی ہی سلامتی ہے، اس رات کو مانگی گئی دعا حتمی طور پر قبول ہوتی ہے۔ ماہ مقدس کے آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں سے کسی ایک رات شب قدر ہوتی ہے۔ کسی ایک مخصوص رات کا تعین اس لیے نہیں کیا گیا کہ لوگ ثواب کی آس میں پانچ راتیں عبادت میں گزاریں گے۔ پھر بھی مسلمانوں نے خود سے اس کا تعین کر لیا۔ ایک طبقہ تئیس کی رات کو شب قدر قرار دیتا ہے اور ایک دوسرا طبقہ ستائیس کی رات کے بارے سوچتا ہے کہ یہ شب قدر ہے۔ ظاہر اس حوالے سے ہر دو طبقوں کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں۔ مثلاً ستائیس کی رات کو شب قدر قرار دینے والے ابن عباس کی ایک مزاحیہ بات کو اپنے موقف کے حق میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لیلتہ القدر میں نو حروف ہیں اور یہ لفظ سورہ میں تین بار آیا ہے، سو اس سے ثابت ہوا کہ ستائیس کی رات ہی شب قدر ہے۔ اب ظاہر ہے اس علمی لطیفے کی کوئی اصل نہیں۔ لیلتہ القدر کا لفظ تین بار اس لیے آیا ہے کہ اس رات کی اہمیت کا اظہار ہو سکے۔ جیسا کہ القارعہ کا لفظ تین بار آیا ہے۔
کچھ علماء کا موقف یہ ہے کہ لیلتہ القدر ہے تو آخری عشرے کی کسی ایک طاق رات میں مگر ایسا نہیں ہے کہ ہر بار ایک ہی رات لیلتہ القدر ہو۔ یہ بدلتی رہتی ہے سو کبھی یہ اکیس کی رات کو ہوتی ہے، کبھی تئیس کی رات، کبھی پچیس، کبھی ستائیس اور کبھی انتیس۔ یہ بات بڑی گہری اور خاصی معنوی ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ انسان اسے تلاش کرے اور کسی ایک رات پر تکیہ کر کے کسی بڑے ثواب سے محروم نہ ہو جائے۔ علماء نے اس رات کی خاص نشانیاں بھی بیان کی ہیں، مثلاً یہ کہ اس صبح سورج طلوع ہو تو اس میں تمازت نہیں ہوتی۔ یہ رات معتدل ہوتی ہے۔ یہ ایک روشن رات ہوتی ہے نہ تو گرم اور نہ سرد ہوتی ہے اور اس میں کوئی ستارہ نہیں پھینکا جاتا، یعنی شہاب ثاقب نہیں گرتا۔ فضا میں خوشبو سی رچی ہوتی ہے۔ جب انسان اس رات کو پاتا ہے تو اسے اپنے دل میں عجیب سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ رات نصیب والوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اس رات دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ یقیناَ آپ کو بھی اس کا تجربہ ضرور ہوا ہو گا۔ ایک تجربہ احقر کو بھی ہوا ہے۔ راقم الحروف کو ایک بار اس کا ذاتی تجربہ ہوا تھا۔ یہ کوئی بارہ برس قبل کا ذکر ہے۔ ان دونوں میں روزنامہ خبریں لاہور میں تسلسل سے کالم نگاری کیا کرتا تھا۔ میری بڑی خواہش تھی کہ کالم کے ساتھ ساتھ میں افسانے اور کہانیاں بھی لکھوں مگر مجھے یہ کام بہت مشکل لگتا تھا ۔ ماہ رمضان کی تئیس تاریخ کو رات کے وقت میں نے اپنے رب سے دعا مانگی کہ افسانے کہانیاں لکھنا میرے لیے آسان ہو جائے ۔ وہ یقیناً قبولیت کا لمحہ تھا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ میرے قلم سے کہانیاں افسانے انسانچے تواتر سے رقم ہونے لگے۔ میں نے بلا مبالغہ ہزاروں افسانے لکھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دس کتابیں شائع ہو گئی۔ پندرہ مزید کتابوں کا مواد اور بھی موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ رات بار بار نصیب کرے، آمین ثم آمین!
صفدر علی حیدری

جواب دیں

Back to top button