ColumnQadir Khan

نام نہاد قوم پرستوں کی دہشت گردی کیخلاف خاموشی ؟

 

قادر خان یوسف زئی
بلوچستان میں دہشت گردی کے سانحات کو ہمیشہ ایک سازش کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جہاں ملک دشمن عناصر اور دہشت گردوں کی حمایت کرنے والے ہمیشہ خود کو نام نہاد مظلوم ’’ قوم پرست‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جعفر ٹرین اور نوشکی سانحات اور معصوم شہریوں کے ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات اس امر کا غماز ہیں کہ ان کی خاموشی اور مذمت نہ کرنا دراصل ان کی دہشت گردوں کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کی غمازی کرتا ہے۔ جعفر ٹرین سانحہ ایک ایسی وحشت انگیز مثال ہے جس نے پوری پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس سانحے میں معصوم پاکستانی شہریوں کی زندگیوں کا خاتمہ ہوا۔ دہشت گردوں نے ایک پورے ٹرین کو نشانہ بنایا اور بے گناہ مسافروں کی جان لے لی، اور پھر اس پر وہی نام نہاد قوم پرست خاموش ہو گئے جو ہمیشہ دہشت گردوں کے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولتے۔ اگر یہ قوم پرستی کا علمبردار ہوتے تو وہ اس سفاکانہ کارروائی کی مذمت کرتے، لیکن یہ صرف اپنے مفادات کی خاطر دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اسی طرح، نوشکی سانحہ بھی ایک اور افسوسناک واقعہ تھا جس میں دہشت گردوں نے ریاستی اداروں پر حملہ کیا اور کئی معصوم پاکستانی شہریوں کو شہید کر دیا۔ ان سانحات کی مذمت میں ان قوم پرستوں کی خاموشی ایک واضح اشارہ ہے کہ ان کے مفادات کسی اور سمت میں ہیں۔ ان کی خاموشی یا پھر دہشت گردوں کے حق میں آواز اٹھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ عناصر دہشت گردوں کو سیاسی فائدہ پہنچانے کے لیے ان کے ساتھ ہیں۔
جب جعفر ٹرین اور نوشکی جیسے سانحات ہوتے ہیں، تو یہ نام نہاد قوم پرست ہمیشہ اپنی زبانیں بند رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک، ریاستی اداروں اور ان کے محافظوں کی شہادتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ بلکہ، ان کی حمایت کے بجائے، یہ دہشت گردوں کو اس طرح کی کارروائیوں کے ذریعے ایک موقع فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کو پورا کر سکیں۔ جب ان سانحات کے بعد ان قوم پرستوں کی خاموشی کا جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کا اصل مقصد دہشت گردوں کو سیاسی جواز فراہم کرنا اور ریاستی اقدامات کے خلاف عوامی رائے کو موڑنا ہے۔ یہ درحقیقت دہشت گردوں کے لئے سہولت کاری کر رہے ہیں ، غور کیا جائے اور بتایا جائے کہ کیا یہ محض ایک حادثہ تھا کہ یہ قوم پرست اس قدر دہشت گرد کارروائیوں پر خاموش ہیں؟ کیا ان کی خاموشی اس امر کا غماز ہے کہ یہ ان کی منظم سازش کا حصہ ہے؟ اگر یہ واقعات اتنے سنگین نہیں تھے تو ان قوم پرستوں نے ان دہشت گردی کی کارروائیوں کی مذمت کیوں نہیں کی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ان کی پوری سیاست اور کردار پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔
نام نہاد قوم پرستوں کا یہ کہنا کہ وہ صرف بلوچستان کے عوام کی حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں، ایک دھوکہ ہے۔ جب ان کے سامنے دہشت گردی کے ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن میں بے گناہ افراد کی زندگیوں کا خاتمہ ہوتا ہے، تو ان کی خاموشی یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کا اصل مقصد کچھ اور ہے۔ یہ قوم پرست دراصل دہشت گردوں کے لیے جواز فراہم کرتے ہیں تاکہ ان کی کارروائیاں جاری رہ سکیں۔ ان کی حمایت اور خاموشی، دونوں ایک ہی بات کو ظاہر کرتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ یہ عناصر دہشت گردوں کے اس مقصد میں شریک ہیں جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ دہشت گردوں کی حمایت کرنے والے عناصر نے ہمیشہ اپنی خاموشی کو جواز بنایا ہے اور ہر سانحے کو سیاست کا حصہ بنا دیا ہے۔ ان کی اس خاموشی اور پراپیگنڈے کی روشنی میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ حقیقت میں قوم پرستی کے علمبردار ہیں یا پھر دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے سازشی عناصر؟۔
جب بھی دہشت گردوں کی کارروائیوں کی خلاف پاکستان کے موقف کو ثابت کرتے ہوئے عالمی سطح پر اٹھتی ہیں، ان ’ قوم پرست‘ عناصر کی طرف سے منفی پراپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے اور جھوٹے بیانیے کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔ ان کا مقصد ہمیشہ سے یہی رہا ہی کہ وہ پاکستان کے خلاف عالمی رائے کو مسموم کریں اور دہشت گردوں کی حمایت کر کے ان کی کارروائیوں کو ایک سیاسی رنگ دیں۔ سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر ان ’ قوم پرست‘ عناصر کی جانب سے کیے جانے والے منفی پراپیگنڈے نے بلوچستان کی عوامی رائے کو نقصان پہنچایا ہے۔ جب دہشت گردی کی کارروائیاں ہوتی ہیں اور معصوم لوگوں کی جانیں جاتی ہیں، تو ان عناصر کا کردار زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ دہشت گردوں کی کارروائیوں کے اثرات کو کم کریں اور انہیں اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کریں۔
دہشت گردی کے واقعات پر ان قوم پرستوں کی خاموشی ایک بات ثابت کرتی ہے کہ ان کے مقاصد میں بے گناہ پاکستانیوں کی زندگیوں کا تحفظ شامل نہیں۔ ان کی خاموشی اور پراپیگنڈے کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ دہشت گردوں کے ساتھ مل کر اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جعفر ٹرین اور نوشکی جیسے سانحات کے بعد ان کی خاموشی اور ریاستی اقدامات کی مخالفت ایک واضح اشارہ ہے کہ ان کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کی حکومت کو کمزور کرنا ہے۔ جب تک ان دہشت گردوں کی حمایت کرنے والے عناصر کے چہرے بے نقاب نہیں ہوں گے، تب تک پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں اور ان کے حمایتی عناصر کو تقویت ملتی رہے گی۔ ان کی یہ سیاسی چالاکیاں پاکستان کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہیں۔
بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور ان پر ’ قوم پرست‘ عناصر کی خاموشی ایک امر ثابت کرتی ہے کہ یہ عناصر اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے دہشت گردوں کے ساتھ ہیں۔ جعفر ٹرین اور نوشکی سانحات دوسرے صوبوں سے آنے والے شہریوں کا قل عام جیسے سانحات کی خاموشی اور مذمت نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ لوگ دہشت گردوں کی حمایت کر کے پاکستان کے استحکام کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ پاکستان کی ریاست ان عناصر کی سازشوں کو بے نقاب کرے، اور پاکستان کی سلامتی کے لئے ایک مضبوط اور موثر حکمت عملی تیار کرے تاکہ ان دہشت گردوں اور ان کے حمایتیوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ان دہشت گردوں کی حمایت کرنے والے قوم پرستوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ان کی خاموشی اور حمایت پاکستان کے عوام اور ریاست کے لئے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے، اور ان کے اس عمل کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

جواب دیں

Back to top button