ColumnRoshan Lal

ماہ رنگ بلوچ کی تضحیک کیوں؟

روشن لعل
ماہ رنگ بلوچ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران بلوچستان میں ابھرنے والی ایسی رہنما بن چکی ہے جسے عصر حاضر میں وہاں کی مقبول ترین شخصیت قرار دیا جاسکتا ہے۔ ماہ رنگ، اپنے خونی رشتوں کے ساتھ پیش آنے والے دہشت ناک واقعات کو کم عمری میں دیکھنےاور ان کے افسوسناک نتائج برداشت کرنے کے بعد، سخت رد عمل ظاہر کرنے کا عزم لے کر ، بلوچوں کی قوم پرست سیاست کا حصہ بنی۔ ماہ رنگ، خاص پس منظر کی وجہ سے جس بلوچ قوم پرست سیاسی تحریک کا حصہ بنی، اس کی تاریخ المناک ہونے کے باوجود قوم پرستی کی بنیاد پر چلنے والی ہر سیاسی تحریک کی طرح متنازعہ ہے۔ قوم پرستی پر مبنی جس سیاسی تحریک کا متنازعہ ہونا، ممکن ہو اس میں حصہ لینے والوں کے متعلق یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ ان پر تحفظات ظاہر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ لہذا اگر کوئی ماہ رنگ بلوچ پر جواز کے ساتھ تحفظات ظاہر کرے تو اس کے اظہار رائے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے اسے کچھ کہنے سے روکا نہیں جاسکتا لیکن اس کو اس حد تک اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ بلوچوں کی مقبول رہنما پر بے بنیاد الزام عائد کر کے اس کی تضحیک کرنا شروع کر دے۔ ماہ رنگ بلوچ پر صحت مند تنقید کی گنجائش موجود ہونے کے باوجود پنجاب کے کچھ نوزائیدہ قوم پرست محض سنی سنائی اور بے بنیاد باتوں کو اچھال کر اس کی تضحیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے نام نہاد پنجابی قوم پرستوں کے ناعاقبت اندیش رویوں کی
وجہ سے ماہ رنگ عام بلوچوں میں مقبول ہونے کے بعد اب کچھ بلوچ سرداروں کے لیے بھی قابل قبول ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ماہ رنگ بلوچ کی یہ قبولیت اور مقبولیت صرف بلوچوں تک محدود نہیں بلکہ بلوچستان سے باہر ملک کے دیگر صوبوں میں بھی انسانی حقوق کے نام پر اس کی ہمدردی میں آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ جن نام نہاد پنجابی قوم پرستوں نے اس وقت ماہ رنگ بلوچ کو نشانہ بنایا ہوا ہے وہ یاد رکھیں کہ بے بنیاد باتوں کو اچھال کر کی گئی تضحیک کے مقابلے میں انسانی حقوق کے نام پر ظاہر کی گئی ہمدردی ہمیشہ زیادہ موثر ثابت ہوتی رہی ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر ماہ رنگ بلوچ کے حق میں بلند ہونے والی آوازوں نے نہ صرف اس کی تضحیک کے لیے پھیلائے گئے مواد کو غیر موثر کیا بلکہ اس پر صحت مند تنقید کے عمل کو بھی بڑی حد تک معطل کر دیا ہے۔
جو لوگ ماہ رنگ بلوچ کی تضحیک کر رہے ہیں ، ان کا تعلق پست ذہن رکھنے والے اس گروہ سے ہے جس سے وابستہ لوگ ایک عرصہ سے عادی مجرموں کی طرح غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل خواتین کی کردار کشی کرتے چلے آرہے ہیں۔ ایسے لوگوں نے سب سے پہلے یہاں فاطمہ جناح کی تضحیک کی اور اس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور ان کی والدہ بیگم نصرت بھٹو پر اپنا ذہنی گند اچھالا ۔ اس طرح کے پست ذہن لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسی خواتین کی کردار کشی کر کے انہیں منظر عام سے غائب کر سکتے ہیں جو ان کے لئے غیر موافق افعال میں موثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں مگر انہیں یہ احساس نہیں کہ جو کام وہ ماضی میں نہیں کر سکے اسے زمانہ حال میں کرنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔
جن لوگوں نے ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کی اور جو اب ماہ رنگ بلوچ کی تضحیک کر رہے ہیں ان کی یکساں ذہنی پستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ لوگوں نے مذکورہ دونوں خواتین کی جدوجہد کو مماثل ثابت کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ اور بے نظیر بھٹو شہید میں اگر کچھ مماثل ہے تو وہ ان کا عورت ہونا ہے ، اگر ان کے رویوں اور سیاست پر غور کیا جائے تو کچھ بھی ایسا نظر نہیں آتا جسے یکساں تصور کیا جاسکے۔ یہ بات درست ہے کہ ماہ رنگ کو اپنی گمشدہ باپ کی دہشت ناک موت کے بعد اپنے بھائی کے اغوا کا دکھ بھی برداشت کرنا پڑا لیکن بے نظیر کو اپنے باپ
کے عدالتی قتل ، دو بھائیوں کو سازش کے تحت دی گئی موت ، ماں پر ہونے والے ریاستی تشدد اور اپنی اذیت ناک قید کی شکل میں جو کچھ برداشت کرنا پڑا اس کا دکھ ماہ رنگ کے دکھ سے کہیں زیادہ ہے۔ اتنے دکھ برداشت کرنے کی باوجود بھی بے نظیر بھٹو نے اپنے لیے تخریبی نہیں بلکہ تعمیری کردار ادا کرنے کے راستے کا انتخاب کیا۔ بدترین کردار کشی اور انتخابات میں پے درپے دھاندلیوں کا شکار ہونے کے باوجود ، بے نظیر نے کبھی بھی انتخابی عمل سے اپنا تعلق ختم نہ کیا اور اپنے ستم گر سیاسی مخالفوں کو ہمیشہ ایسی اصلاحات کے لیے تعاون فراہم کرنے کی غیر مشروط پیشکش کی جن کے نفاذ سے ملک کے چاروں صوبوں کے عوام میں کمتری اور تفاوت کا احساس ختم ہو سکے۔ بے نظیر بھٹو نے تاحیات جو غیر متشدد سیاسی جدوجہد کی اس کا پھل خاص طور پر چھوٹے صوبوں کے عوام کو ان کی شہادت کے بعد اٹھارویں ترمیم کی شکل میں ملا۔ بے نظیر کے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ وہ چھوٹے صوبوں کے عوام کا ان اپنے وسائل پر حق تسلیم کروانے کے لیے پارلیمانی سیاسی عمل کا حصہ بننے کی بجائے جی ایم سید جیسے لوگوں کے راستے پر چلنے کا انتخاب کرتی لیکن یہ ان کا سیاسی ویژن تھا کہ انہوں نے ناکام ثابت ہو چکے کسی بندے کی راہ پر چلنے کی بجائے ایسے راستے کا انتخاب کیا جس پر وقتی مشکلوں کے بعد بہتری کا امکان موجود تھا۔
بے نظیر بھٹو نے موسموں کی سختیاں برداشت کرتے ہوئے قربانیاں دے کر جو پودا لگایا وہ ان کی شہادت کے بعد اٹھارویں ترمیم کی شکل میں ایسا درخت بن کر ظاہر ہوا جو پھل بھی دے سکتا ہے اور سایہ بھی فراہم کر سکتا ہے۔ جو لوگ ماہ رنگ بلوچ اور اس کے صوبے کے لوگوں کے حقوق سلب کیے رکھنا چاہتے ہیں وہ اٹھارویں ترمیم کا درخت اکھاڑنے کے درپے بھی ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ماہ رنگ بلوچ جیسے لوگوں کو اٹھارویں ترمیم کے سایہ دار درخت کے نیچے پناہ لینے کی بجائے ایسی جھاڑیوں کی اوٹ میں چھپے رہنا پسند ہے جو ان کے لیے کبھی محفوظ پناہ گاہ ثابت نہیں ہو سکیں۔
ماہ رنگ بلوچ اور اس کے ساتھی بالواسطہ یا بلاواسطہ جس راستے پر چل رہے ہیں ، پاکستان بننے کے بعد بلوچستان میں سب سے پہلے اس پر خان آف قلات میر احمد یار خان کے بھائی پرنس آغا عبدالکریم احمد زئی نے چلنا شروع کیا ۔ پرنس عبدالکریم سے لے آج تک جو بھی اس کے راستے پر چلا وہ کبھی اس منزل کے قریب نہ ہوا جس کے اسے خواب دکھائے گئے۔ جو راستے خوابوں کی منزل کی بجائے پے درپے سرابوں کی طرف آگے بڑھتے رہتے ہیں ان پر چلنے کی بجائے ماہ رنگ بلوچ جیسے مشکل پسند لوگوں کو اس سمت کی طرف اپنے سفر کا رخ موڑ دینا چاہیے جس سمت میں اٹھارویں ترمیم ایک پڑائو کی شکل میں موجود ہے۔ اس سمت کا سفر تشدد کی سیاست ترک کر کے انتخابی اور پارلیمانی سیاسی عمل کا حصہ بننے کا سفر ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ماہ رنگ کی تضحیک کرنے کی بجائے اسے درست سمت میں چلنے کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی جائے۔

جواب دیں

Back to top button