Column

وفاقی محتسب: ایک سال میں دو لاکھ سے زائد درخواستیں

 

ڈاکٹر رحمت عزیز
خان چترالی

وفاقی محتسب اعجاز احمد قریشی نے سال 2024ء کی سالانہ رپورٹ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان آصف علی زرداری کو پیش کی ہے جس میں ادارے کی کارکردگی اور عوامی شکایات کے ازالے سے متعلق اعداد و شمار شامل ہیں۔ یہ رپورٹ نہ صرف ایک ادارہ جاتی کارکردگی کا مظہر ہے بلکہ پاکستان میں عوامی مسائل کے حل میں وفاقی محتسب کے کردار کی وسعت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔
وفاقی محتسب کی یہ رپورٹ کئی پہلوئوں سے اہمیت کی حامل ہے۔
سال 2024ء میں محتسب کو 226372 شکایات موصول ہوئیں، جو گزشتہ سال کی نسبت 17%زیادہ تھیں۔
223198شکایات کا فیصلہ کیا گیا، جو گزشتہ سال کی نسبت 16%زیادہ ہے۔
محتسب کے فیصلوں پر 93.21%عملدرآمد ہو چکا ہے، جو ادارے کی موثر کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔
وفاقی محتسب نے اپنی موجودگی ملک کے 25شہروں تک بڑھائی ہے جس میں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان بھی شامل ہیں۔ لیکن ایک اور دور دراز علاقہ چترال اب بھی وفاقی محتسب کی برانچ رجسٹری سے محروم ہے۔ چترال اور کالاش کے لوگوں کو وفاقی اداروں کی بد انتظامی کے خلاف شکایت درج کرنے کے لیے پشاور آنا پڑتا ہے۔
وفاقی محتسب کی طرف سے کھلی کچہریوں اور آئی آر ڈی ( تنازعات کے غیر رسمی حل) جیسے اقدامات کی بدولت عوام کے مسائل حل کرنے میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
وفاقی محتسب کو عوامی مسائل حل کرنے کے حوالے سے ’’ غریبوں کی عدالت‘‘ کہا گیا ہے جو ایک مثبت پہلو ہے۔
تمام بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر یکجا سہولیاتی مراکز قائم کیے گئے جہاں 24 گھنٹے سٹاف موجود رہتا ہے۔
سال 2024ء میں 149060بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل حل کیے گئے۔
یہ اقدام بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے ایک بڑی سہولت ہے جس سے ان کے مسائل کے فوری حل میں مدد ملی۔
وفاقی محتسب نے ایشین اومبڈسمین ایسوسی ایشن (AOA)میں پاکستان کے بھرپور کردار پر روشنی ڈالی۔
پاکستان کو AOAکی صدارت حاصل ہے، جس کے ذریعے ایشیا میں محتسب کے تصور کو فروغ دیا جا رہا ہے جوکہ خوش آئند بات ہے۔
اگرچہ شکایات کے فیصلوں کی تعداد حوصلہ افزا ہے، لیکن اس رپورٹ میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ان فیصلوں کا معیار اور موثریت کیا تھی۔ کیا فیصلے فریقین کے لیے قابل قبول تھے؟ کیا فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی شرح میں کوئی اضافہ ہوا؟
رپورٹ میں 93.21%فیصلوں پر عملدرآمد کا ذکر کیا گیا ہے لیکن اس کے معیار پر تفصیل سے روشنی نہیں ڈالی گئی۔ کیا محتسب کے فیصلوں پر متعلقہ اداروں نے بروقت عمل کیا؟
کیا عوام کو مکمل انصاف ملا، یا صرف کاغذی کارروائی مکمل کی گئی؟
اگرچہ محتسب نے 25شہروں میں اپنی موجودگی کو یقینی بنایا ہے مگر چترال، کالاش اور دیگر دیہی اور دور دراز علاقوں میں عوام تک رسائی کا کوئی واضح خاکہ پیش نہیں کیا گیا ہے۔
پاکستان کے کئی پس ماندہ علاقے اب بھی اس نظام سے محروم ہیں جن میں چترال بھی شامل ہے یہاں پر وفاقی محتسب کا دفتر یا برانچ رجسٹری موجود نہیں۔
ہوائی اڈوں پر سہولیاتی مراکز ایک اچھا اقدام ہے، لیکن کیا بیرون ملک پاکستانیوں کو سفارتی سطح پر بھی مدد دی جا رہی ہے؟ کیا سفارتخانوں میں ان کی شکایات کے ازالے کے لیے کوئی مضبوط میکانزم موجود ہے؟
یہ رپورٹ وفاقی محتسب کے ایک فعال اور موثر ادارہ ہونے کی تصدیق کرتی ہے، جو عوامی مسائل کے حل کے لیے کام کر رہا ہے۔ شکایات کے حل کی بڑھتی ہوئی شرح، بین الاقوامی سطح پر محتسب کے کردار اور عوامی رسائی کے فروغ جیسے پہلو اس رپورٹ کو مثبت انداز میں نمایاں کرتے ہیں۔ تاہم محتسب کے فیصلوں کے معیار، شفافیت، اور دیہی علاقوں میں سہولتوں کی دستیابی جیسے امور پر مزید تحقیق اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اگر یہ پہلو مزید بہتر بنا دئیے جائیں تو وفاقی محتسب پاکستان میں انصاف کی فراہمی کے ایک ماڈل ادارے کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ امید ہے کہ ان چند سفارشات پر عمل کرکے وفاقی محتسب کے ادارے کو ایک مثالی ادارہ بنایا جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button