ColumnRoshan Lal

بلوچستان براستہ جنوبی سوڈان

تحریر : روشن لعل
جنوبی سوڈان ، 9جولائی 2011ء کو دنیا کے نقشے پر ایک نئے اور آزاد ملک کے طور پر ابھرا تھا۔ جنوبی سوڈان جہاں بھی ہے وہاں سے کوئی ایسا راستہ نہیں، جو براہ راست بلوچستان تک جاتا ہو۔ بلوچستان اور جنوبی سوڈان کے درمیان ، براہ راست راستہ نہ ہونے کے باوجود ، صرف اس وجہ سے زیر نظر تحریر کا عنوان ’’ بلوچستان براستہ جنوبی سوڈان‘‘ رکھا ہے کیونکہ اس وقت جنوبی سوڈان ہی ایک ایسا ملک ہے جس کے ماضی اور حال کو مد نظر رکھ کر، مختلف فریق آج کے بلوچستان کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے بہتر لائحہ عمل اختیار کر سکتے ہیں۔
جنوبی سوڈان کو آزادی تو 9جولائی 2021ء کو ملی لیکن اس کی متحدہ سوڈان سے علیحدگی کی بنیاد انیسویں صدی کے وسط میں رکھ دی گئی تھی۔ متحدہ سوڈان کو ایک مملکت کی شناخت اس وقت ملی جب سلطنت عثمانیہ کے مصر میں تعینات خردیف ( وائسرائے) محمد علی کے بیٹے اسمٰعیل نے 1921میں اس کے ان وسطی علاقوں پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کی جن کے ارد گرد برطانیہ اپنی افریقی نوآبادیاں قائم کر چکا تھا۔ اس کے بعد مسلسل کئی دہائیوں تک سوڈان کے علاقے اندرونی و بیرونی حملہ آوروں کی کشمکش کا مرکز بنے رہے۔ اپنی افریقی نوآبادیوں کو بیرونی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے برطانیہ نے مصرمیں حکومت کرنے والے سلطنت عثمانیہ کے وائسرائے سے مل کر سوڈان میں مشترکہ کارروائیاں کرتے ہوئے وہاں حکمرانی کے دعویدار خلیفہ محمد احمد ابن عبداللہ کو شکست دی۔ اس کے بعد برطانوی اہلکاروں اور مصری حکمرانوں نے باہمی رضامندی سے سوڈان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جس کے بعد برطانوی نوآبادیوں سے ملحقہ ’’ جنوبی سوڈان‘‘ برطانیہ اور شمالی سوڈان مصریوں کے زیر انتظام آگیا۔ قابض ہونے کے بعد برطانوی اہلکاروں نے جنوبی سوڈان کو اس حد تک الگ تھلگ کر دیا کہ بیرونی دنیا ہی نہیں بلکہ شمالی سوڈان کے باشندوں کی جنوبی سوڈان آمد پر بھی سخت پابندیاں عائد کر دیں۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مصر میں برطانوی فوجیں تعینات رہیں لیکن مصری حکومت اپنے معاملات چلانے میں برطانوی اثرو نفوذ سے باہر نکل چکی تھی۔ اس دوران ، سوڈان کے دونوں حصوں میں برطانیہ اور مصری قبضہ سے آزادی کی تحریک زور پکڑتی گئی۔ کئی دہائیوں تک ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہنے والے جنوبی اور شمالی سوڈان کے باشندوں کو 1956میں ایک ملک سوڈان کے شہریوں کے طور پرایک ساتھ برطانیہ اور مصر سے آزادی ملی اور متحدہ سوڈان کے پہلے سے منتخب وزیر اعظم اسمٰعیل الازہری نے سربراہ مملکت کے طور پر اقتدار سنبھالا۔ آزادی کے فوراً بعد سوڈان میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ ملک کا نظام حکومت کیا ہونا چاہیے۔ اس بحث کے دوران دیکھا گیا کہ جنوبی سوڈان کے لوگوں کی رائے کو زیادہ اہمیت نہ دی گئی۔ جنوبی سوڈان جہاں کے باشندے پہلے سے ہی متحدہ سوڈان میں اجنبیت کا شکار تھے وہ نو آزاد ملک میں بغاوت کی طرف مائل ہو گئے اور یوں انہوں نے اپنی حیثیت کو نظر انداز کیے جانے پر الگ ملک کا مطالبہ کرتے ہوئے خانہ جنگی کا آغاز کر دیا۔ سوڈان کی حکومت نے جنوب میں اٹھنے والی بغاوت کو بے رحم فوجی کارروائیوں کے ذریعے دبانے کی ہر ممکن کو شش کی لیکن جنوبی سوڈان میں علیحدگی کے رجحان اور مطالبے کو دبانا ممکن نہ ہو سکا۔
جنوبی سوڈان کے علیحدگی پسندوں کی طرف سے شروع کی جانے والی خانہ جنگی کے دوران وہاں معدنی تیل کے ذخائر کی نشاندہی اور تلاش کا کام شروع ہو چکا تھا۔ سوڈان میں 1972میں تیل دریافت کے بعد عالمی طاقتیں یہ سمجھ گئیں کہ جب تک وہاں خانہ جنگی ختم نہیں ہوگی اس وقت تک تیل کی پیداوار اور برآمد ممکن نہیں ہو سکے گی۔ لہذا سرمایہ دار عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کے عمل دخل سے سوڈان میں پہلی خانہ جنگی کا اس وقت خاتمہ ہوا جب جنوبی سوڈان کو داخلی خود مختاری دینے کے ساتھ وہاں کے گوریلا باغیوں کو قومی فوج میں جذب کر لیا گیا۔
سوڈان میں خانہ جنگی کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوا جب 1983میں فوجی آمر جعفر نمیری نے اپنے لڑکھڑاتے اقتدار کو سہارا دینے کے لیے مسلم اکثریتی آبادی کے شمالی سوڈان سمیت اس جنوبی سوڈان پر بھی اسلامی شریعہ کا نفاذ کر دیا جس کی آبادی 62فیصد کرسچین، 32فیصد قدیم مقامی مذاہب کو ماننے والوں اور صرف 6فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ جعفر نمیری کا یہ قدم بھی معاشی بحرانوں میں مبتلا سوڈان میں اس کے اقتدار کو تحفظ نہ دے سکا۔ سوڈان میں جاری خانہ جنگی اور معاشی بحرانوں کے دوران مختلف حکومتیں قائم اور ختم ہوئیں۔ سوڈان میں صدر عمر البشراپنے 1993 سے 2019تک جاری رہنے والے طویل اقتدار کے دوران تمام تر جبر کے باوجود جنوبی سوڈان کے باغیوں کی جارحانہ کاروائیوں کے سامنے بے بس ہو کر ان کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہوا۔ امریکہ اور برطانیہ کی ثالثی میں عمر البشر اور جنوبی سوڈان کے باغیوں کے درمیان 2005میں یہ معاہدہ طے پایا کہ 2011میں جنوبی سوڈان کے علاقوں میں اس سوال پر ریفرنڈم ہوگا کہ وہاں کے لوگ متحدہ سوڈان کے حق میں ہیں یا اپنے لیے الگ ملک چاہتے ہیں۔ اس کے بعد جب 2011میں ریفرنڈم ہوا تو 99فیصد لوگوں نے جنوبی سوڈان کے علیحدہ ملک بننے کے حق میں ووٹ دیا۔
معدنی تیل کی دولت سے مالا مال جنوبی سوڈان کے آزاد ہونے پر دنیا میں عمومی خیال یہی تھا کہ اب اس کی غریب قبائلی آبادی کو خوشحال ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ جنوبی سوڈان کی آزادی کے فوراً بعد یہ خیال خام ثابت ہوگیا۔ طویل خانہ جنگیوں کا شکار رہنے والے جنوبی سوڈان میں صنعتوں کا نام و نشان نہ ہونے کی وجہ سے روزگار کے مواقع ناپید تھے ۔ وہاں نوجوانوں کی اکثریت کا فنی تعلیم کیا عام تعلیم سے بھی کوئی سروکار نہیں تھا کیونکہ نصف صدی تک کسی ہنر کی بجائے انہیں بغاوت کرنا اور گولی چلانا سکھایا جاتا رہا۔ قبل ازیں جنوبی سوڈان میں روزگار کے جن مواقع سے شمالی سوڈان کے نسبتاً بہتر تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان فائدہ اٹھاتے تھے، آزادی کے بعد وہ مواقع دیگر ملکوں کے لوگوں کے حصہ میں آئے۔ جنوبی سوڈان کے بے روزگار نوجوانوں کا احساس محرومی جب آزادی کے بعد بھی برقرار رہا تو وہاں قبائلی بنیادوں پر خانہ جنگی کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ تیل کی دولت سے مالامال جنوبی سوڈان میں ، معاشی بحران اور افراط زر کا حجم اس سے کہیں زیادہ ہو گیا جتنا متحدہ سوڈان کے دور میں ہوا کرتا تھا۔ جنوبی سوڈان کے جن لوگوں نے بہتر زندگی کے خواب دیکھتے ہوئے قربانیاں دے کر آزادی حاصل کی ، خانہ جنگی کی وجہ سے ان کی زندگیاں اب بھی اس حد تک بدحالی کا شکار ہیں کہ انہیں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ جنوبی سوڈان کے لوگوں نے آزادی کے لیے جو طویل جنگ لڑی اس میں اگر بیس لاکھ لوگ مارے گئے تھے تو آزادی کے بعد جنوبی سوڈان کے اندر جاری خانہ جنگی میں اب تک چار لاکھ لوگوں کی جانیں لی جاچکی ہیں۔
ہمارے بلوچستان کے حالات کو مد نظر رکھ کر اس وقت جو کچھ کہا جارہا ہے وہ سب کے سامنے ہے ، مختلف فریقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بلوچستان کی متعلق جو کچھ کہہ ہے ہیں، انہیں چاہیے کہ کچھ کہنے سے قبل وہ ایک نظر جنوبی سوڈان کے ماضی و حال پر بھی ڈال لیں۔

جواب دیں

Back to top button