اس بار کیا مختلف ہوگا؟

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
اللہ پاک نے جتنی چیزیں پیدا فرمائی ہیں وہ سب کی سب انسان کی خدمات میں پیش پیش ہیں اور انسان کو جس مقصد کیلئے اشرف المخلوقات بنایا وہ اس مقصد حیات سے بہت دور چلا گیا ہے، انٹر نیٹ کی تیزی نے نئے رجحانات، نئی سوچ اور نئے چیلنج کو جنم دیا ہے، اب ترقی پزیر ممالک کے پاس وہ وسائل نہیں کہ اس تیزی کا سامنا کر سکے۔ پاکستان اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ اس کے محرکات دنیا کے سامنے ہیں اور ہمارے رہنما بھی بخوبی واقف ہیں۔ جس معاشی بہتری کے نعرے ابھی یا ماضی کی حکومتوں نے مارے ہیں، ان کا زہر قوم کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ آج کل کروڑوں روپوں کے اشتہارات جاری کئے ہیں، کیا اس طرح کی تشہیر سے غربت میں کمی اور انصاف کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔ یہ طرز عمل کتنا نوجوانوں کیلئے باعث سکون ہوگا۔ گزشتہ روز جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا اچھا ہوتا میری عدالت کی بنیادوں میں بارود رکھ کر اڑا دیتے۔ ایسے ریمارکس کمزور انصاف کی عکاسی ہے۔ اس طرح کی صورت حال میں معاشی صورتحال کی حکمت عملی کارآمد نہیں رہ سکتی جب تک سیاسی حکمران انصاف پسند نہیں ہوں گے، جب فیصلے آئین پر نہیں ہوں گے۔ ان کے بیانیہ میں شعور، صحت اور تعلیم بنیادی نہیں ہوگی وقتی ریلیف مل جائیگا، مستقل نہیں ہوگا۔ ہماری ناکامی کی کئی وجوہات ہیں۔ کئی دفعہ ذمہ داروں کا تعین ہوا لیکن جمہوریت والوں نے کسی کی چلنے نہیں دی۔ صوبوں کی کارکردگی میں بڑا فقدان ہے۔ امن و امان کا تعلق آپ کے معاشی نظام اور انصاف سے جڑا ہے، گزشتہ چند سالوں سے عسکری اداروں نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو کمزور کیا، ان کے نیٹ ورک کو توڑا، ان کی پلاننگ کو خاک چٹا دی، جوان بیٹوں نے شہادتیں دیں، وطن کی جنگ لڑی اور لڑ رہے ہیں۔ حقیقت میں عسکری ادارے نے اپنی ذمہ داری کو پور کیا لیکن سیاسی جماعتیں ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہیں۔ انہوں نے اپنے کردار میں کمزوری دکھائی۔ سول اداروں اور پولیس کو مضبوط کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے، جس میں وہ ناکام ہیں، مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا جمہوری حکومتوں کا کام ہے۔ وہاں یہ جماعتیں ایک دوسرے کیخلاف محاذ کھولے کھڑی ہیں۔ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا ان کو برداشت نہیں۔ ریاست کے سافٹ کارنر سے شرپسندوں اور ملک مخالف گروپس نے فائدہ اٹھایا، دہشت گردی کی نئی لہر شروع کردی ہے۔ حالیہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری آرمی چیف کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہمیں بہتر گورننس کے ساتھ پاکستان کو ایک ہارڈ اسٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے، ہم کب تک سافٹ سٹیٹ کی طرز پر بے پناہ جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے۔‘‘ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ ’’ملک کی سلامتی سے بڑا کوئی ایجنڈا نہیں، کوئی تحریک نہیں، کوئی شخصیت نہیں، پائیدار استحکام کیلئے قومی طاقت کے تمام عناصر کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔‘‘ سوال پھر وہی رہے گا کہ آگے کیا ہوگا؟ حالیہ سالوں میں جو گرمائش سیاست میں دیکھی گئی ہے اس میں بہتری کیلئے کون کردار ادا کرے گا۔ ہم آج بھی ملک کو 2001، 2009 یا 2014کی طرح ڈیل کر رہے ہیں، سیاسی جماعتوں نے بھی اسی ڈگر کو اپنایا ہوا ہے جبکہ عسکری ادارے، قوم دہشت گرد تنظیموں کیخلاف لڑ رہے ہیں۔ ان تنظیموں کی حکمت عملی میں تبدیلی آچکی ہے۔ انہیں پروپیگنڈا نیٹ ورک، جدید اور ماڈرن ٹیکنالوجی اور ہمارے دشمن ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان کو مالی سپورٹ دی جارہی ہے۔ دہشت گردی کیخلاف موثر حکمت عملی میں سب سے اہم سیاسی استحکام ہے، جس پر سیاسی جماعتیں متفق نہیں۔ صدا بہار اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔ باپ، بیٹا اور بیٹی کی سیاست چاہتے ہیں۔ مقتدر حلقوں نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ تمام عناصر کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے حکومتی بیانیہ پر عدم اعتماد رہتا ہے، ایسی صورت حال میں لئے گئے فیصلے کمزور سمجھے جاتے ہیں، ایسے فیصلوں پر عوامی ردعمل کے سامنے آنے کا خدشہ رہتا ہے۔ اس بار ریاست سخت اور لمبی حکمت عملی پر ایکشن کرے گی۔ اس ایکشن میں ہم آہنگی اور دوسرے عناصر کو بھی شامل حال رکھنے کی حکمت عملی لگ رہی ہے، انصاف اور اصولوں پر کام ہوگا، معاشی دہشت گردوں اور قبضہ مافیا کو سختی سے ہینڈل کیا جائیگا، اداروں کی سرپرستی میں مافیا کی کمر توڑی جائیگی، دہشت گردی کے ساتھ ساتھ ان عناصر کو بھی کریش کیا جائیگا جو کاروباری لوٹ مار کر رہے ہیں۔