Column

درخت زندگی کا لازمہ حیات

تحریر : امتیاز یٰسین
انسان اور درخت کا چولی دامن کا محباّنہ ساتھ روئے زمین پر زندگی شروع ہونے سے قبل کا ہے جب حضرت آدمٌ کو ممنوعہ پھل کھانے پر اللہ کی ناراضی کے سزا کے طور پر برہنہ ہونے پر مارے شرمندگی کے اپنے ستًر پوشی کے لئے درخت کے پتوں کا سہارا لینا پڑا۔ زمینی ماحول میں بائیوٹک اجزاء میں شامل اور قدرتی ماحول کے قیام و دوام اور بقا کے لئے درخت اتنے ہی ضروری ہیں جتنی جاندار کے لئے ہوا ،پانی اور دیگر غذائی عوامل۔ کسی بھی ریاست کی معیشت، غذائی و ماحولیاتی ضروریات کی تکمیل،واءلڈ لائف کے بقا،ارتقا ، تحفظ،موسمیاتی تغیر و تبدل کو معتدل رکھنے کے لئے اس کے پچیس فیصد رقبہ پر جنگلات کا ہونا بہت ضروری ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ ریشو چار اعشاریہ آٹھ فیصد ہے ۔ نیشنل فاریسٹ مانیٹرنگ سسٹم پاکستان کو دنیا بھر میں جنگلات کی کمی والے ممالک میں 81ویں نمبر پر دیکھ رہا ہے۔ پاکستان میں جنگلات کی کمی کی وجہ سے شدید موسمیاتی تبدیلی ،گرمی کا دورانیہ بڑھنے، زور دارآندھیوں کا چلنا، فضائی آلودگی کا خطر ناک حد تک چلے جانا،دریائی کٹائوکے ساتھ قیمتی و نایاب جنگلی حیات کے مسکن تباہ ہونے سے ان کی نسلیں مفقود الوجود ہو ہو چکی ہیں۔ درختوں کی کمی سے انسان اور دیگر جانداروں کی حیاتیاتی تنوع پر بھیانک اثرات پڑ رہے ہیں ۔ درخت جنہیں فطرت کے پیھپڑے کہا جاتا ہے محتاط اندازے کے مطابق ایک درخت چھتیس بچوں کو آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ہمارے ہاں شجر کاری کا عمل محض کاغذی ،لفظی کاروائی تک محدود رہتا ہے۔ قیام پاکستان سے تین دہاہیوں تک باقاعدہ طور پر سڑکوں و انہار اور دریائوں کناروں سمیت وسیع خالی سرکاری رقبوں ، قطعہ جات پر سر شجر کاری کی گئی لیکن ان قیمتی سرکاری املاک کی حفاظت نہ ہونے سے ٹمبر مافیا نے عملہ کے ساتھ مل کر خوب جی بھر کر لوٹا اور ویرانی سے دوچار کر دیا۔پکڑے گئے چوروں کو قانونی گرفت میں لانے کی بجائے لاکھوں کی نایاب لکڑی کا ساز باز ہو کرچند ہزار روپئے جرمانہ کر دیا گیا جاتا ہے حالانکہ ملازمین کی ملی بھگت کے بغیر کوئی سرکاری
درخت سے مسواک توڑنے کی بھی ہمت نہیں کر سکتا۔جنگلات کے وسیع سرکاری رقبہ جات کی ویرانی غْماض ہے کہ محکمہ جنگلات کے ذمہ داروں نے اپنی ذمہ داریوں سے اغماض برت رکھا ہے۔ جنگلات گھاس پھوس کے میدانوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ ملازمین جنگلات کے لئے مختص سرکاری نہری پانی قریبی کسانوں کو فروخت کر دیتے ہیں لیکن کوئی باز پرس کرنے کی جسارت نہیں کرتے ۔ پاکستان میں شجر کاری کا موسم ماہ مارچ اور اکتوبر ہیں لیکن سرکاری سطح پر اس مہم کی کھبی بھی عملی طور پر سرپرستی نہیں کی جاتی۔ اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ رواں سیزن میں پودوں کی خریداری پر کوئی حکومتی ریلیف نہ کسانوں کو دیا گیا ہے نہ ہی سرکاری سطح پر کوئی بڑا منصوبہ شروع کیا گیا ہے نہ ہی کسانوں کی سہولت کے لئے سرکاری سطح پر رعائتی اسٹال سیل پوائنٹ لگائے گئے ہیں۔ اگر کسی ضلع میں چند ایکڑ پر پودے لگا بھی دیئے جائیں تو اسے باقاعدہ پانی نہ لگانے، بھیڑ بکری یا کسی جانوروں سے محصن، بچائو نہ رکھنے کا کوئی انتظام نہیں جس سے جلد ہی پودا ختم ہو جاتا ہے۔ درخت فضائی آلودگی کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرکے اپنی خوراک بناتے ہیں جس سے درختوں کا حجم اور بائیو ماس بڑھتا ہے جبکہ انسانی و حیوانی اور دیگر جانداروں کے نظامِ تنفس کے لئے تازہ آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ درختوں سے ہم گھریلو و عمارتی لکڑی،فرنیچر سازی،ٹرانسپورٹ کی باڈیز، کشتیاں، پھل، کاغذ،کوئلہ،بروزہ، تارپین آئل،ادویات کا خا م مال،قدرتی خوبصورتی و دلکشی،چھائوں،پرندوں جانوروں کا مسکن و ربط خوراک،ایندھن،صحرا و دریائی کٹائو سے تحفظ،بارشوں کا پیش خیمہ،مربوط آب و ہوا،جانوروں کے لئے چارہ،ان کے پتوں سے زمین کی زرخیز ی الغرض بے شمار فوائد حاصل کرتے ہیں۔یہ قدرت کی انمول نعمت ہے جس کی حفاظت اور پھیلاؤ سے ہم اپنی ذمہ داریوں سے خطر ناک حد تک غافل ہیں۔فضائی آلودگی کے حوالے سے ہمارے شہر دنیا میں لیڈ کر رہے ہیں۔آلودہ فضائی ماحول سے کینسر،ٹی بی، دمہ، بصارت اور دیگر امراض بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے میدانی علاقوں کے ساتھ ساتھ پہاڑی سلسلوں کے جنگلات بھی تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ لیہ ،بھکر،سرگودھا،ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقے ترشاوہ پھلوں کا گڑھ سمجھے جاتے تھے جو فروٹ ،قیمتی زرِ مبادلہ کے ساتھ ساتھ ماحولیات کو بہتر بنانے میں نمایاں کردار ادا کرتے تھے لیکن گذشتہ سال ترشاوہ پھلوں کی مارکیٹ میں بد ترین کساد بازای کے سبب اس قیمتی ذخیرہ کا ایک تہائی حصہ کسانوں نے تلف کر ا دیا۔اس ریاستی و کسان نقصان کی ذمہ داری ناقص حکومتی پالیسیوں اور غفلت کو جاتی ہے جنہوں نے اپنے اس نایاب پھل کو عالمی مارکیٹس میں متعارف کروانے کے لئے منڈیاں تلاش کی،درماں کیا نہ ایکسپورٹر کو سہولیات دینا درخور اعتناء سمجھا۔ محلِ نظر امر ہے یہاں جنگلات کے تحفٗظ کے دن کے مواقعوں پر بڑے بڑے سیمینار اور اجتماعات ہوتے ہیں بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن ان کا عمل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ہماری ملکی معیشت،ماحول،ضروریات اس بات کی متقاضی ہیں کہ جنگلات کو وسعت دینے کے لئے ہنگامی بنیادوں پرسنجیدہ اقدامات اٹھائے جائیں۔پودے لگانے کے فیض گستر عمل کی دیکھ بھال کا سخت انتظام کیا جائے۔ سرکاری و نجی سطح پر دس سال سے کم عمر درختوں کے کاٹنے پر پابندی عائد کی جائے۔ محکمہ جنگلات کے سہل انگاری کے مرتکب عملہ کو متحرک کیا جائے۔ایسے درختوں کی ایسی اقسام لگائی جائیں جو دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ رسلیے پھل بھی پیدا کریں اور شہد کی مکھی بھی پرورش پائے ۔

جواب دیں

Back to top button