Column

سب کچھ تو اغوا ہوچکا

تحریر : مظفر اعجاز
پاکستان میں اغوا برائے تاوان کا دھندا تو پرانا ہے اور بہت چلتا ہے بلکہ اب حکومت نے بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ کامیاب بزنس بن گیا ہے۔ لیکن انسانوں کے علاوہکچھ ایسی چیزیں بھی اغوا ہوجاتی ہیں جن کا تذکرہ اس حوالے سے نہیں ہوتا ، بلکہ اسے اغوا تسلیم ہی نہیں کیا جاتا اسے تو قابل فخر قرار دیا جاتا ہے۔ اس ملک کا ہر ادارہ اغوا ہوچکا ہے، لیکن پھر بھی اسے ادارہ کہنے پر اصرار کیا جاتا ہے ۔
چند روز قبل بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کے اغوا کی خبر آئی تو ہمیں بالکل حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ہم کو ہر چیز اغوا شدہ نظر آرہی ہے کون سی چیز ہے جو اغوا نہیں ہوئی، پارلیمنٹ، آئین، عدلیہ، سیاسی پارٹیاں، سیاسی لیڈر، اور ہاں ، سب کے اغوا میں آلہ کار بننے والا میڈیا۔ سب کچھ تو اغوا ہوچکا ہے، ابھی زیادہ دن تو نہیں گزرے ایک الیکشن ڈرامہ ہوا تھا، ڈرامہ کیا تھا اب تک ٹرامہ بنا ہوا ہے۔ میڈیا کے ذریعہ عوام کے ذہن اغوا کئے جارہے ہیں سوشل میڈیا کے ذریعہ نوجوانوں کے ذہن اغوا ہورہے ہیں ، چونکہ( مرکزی دھارے کے) مین اسٹریم میڈیا میں اتنا جھوٹ بولا گیا ہے کہ اب سوشل میڈیا کے جھوٹ کو لوگ سچ سمجھنے لگے ہیں، اور اس نے مزید تباہی پھیلادی ہے۔ سوشل میڈیا سے سچ کو چھان کر نکالنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ کوئی حق کا متلاشی ہو، ورنہ جو پوسٹ دل کو بھا گئی وہ سچ تصور کی جائے گی، کیونکہ اس میں میرے موقف کو فائدہ ہے۔ اسی وجہ سے نہیں اسی نام پر پیکا ایکٹ لایا گیا ہے۔ لیکن قانون پر قانون لانے سے کیا فرق پرتا ہے، قوم کا ضمیر اغوا ہوچکا، قومی سوچ اغوا ہوچکی، نظریہ پاکستان اغوا ہوچکا، تو قوانین کی بھرمار سے کیا ہوگا۔
اب ذرا یہ دیکھتے ہیں کیا کیا اغوا ہو چکا ہے، جب ہم گریجویشن کر رہے تھے تو پولیٹیکل سائنس خاص مضمون تھا، اس کے استاد محترم فقیر محمد نذیر تھے انہوں نے ایک دن بتایا کہ 1956ء کے دستور کا اصل مسودہ اغوا ہوچکا ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ 1962ء میں کراچی سے دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا تو بہت سارا ریکارڈ بھی بذریعہ ٹرین اسلام آباد روانہ کیا گیا، اسلام آباد کے اثرات تو اس کے بسنے سے پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہوگئے کہ 1956ء کے دستور کا اصل مسودہ اسلام آباد میں نہیں پہنچا، فقیر محمد صاحب جن دنوں یہ لیکچر دیا کرتے تھے ان دنوں میں جنرل ضیاء الحق نے نیا نیا ملک اغوا کیا تھا، ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کہ 90دن میں انتخابات کروا کر ملک میں نظام مصطفٰی نافذ کر دیا جائے گا۔ تو انہوں نے کہا کہ یہ مارشل لاء تو پہلے بھی آچکے ہیں۔ لیکن یہ ذرا مختلف لگ رہا ہے، آپ سیاسیات پڑھ رہے ہیں میرا مشورہ ہے ’’ دیکھیں ، سنیں ، اور انتظار کریں ‘‘، اور یوں گیارہ سال بعد پتا چلا کہ نظام مصطفیٰ کی تحریک ہی اغوا ہوگئی تھی، اس عرصے میں آئین میں دھڑا دھڑ ترامیم کرکے اسے بھی اغوا کرلیا گیا۔ اور اہم سیاسی پارٹیوں کے ٹکڑے یا دھڑے بنا دئیے گئے، جے یوپی کے دو، جے یو آئی کے دو، پی پی پی کے دو، مسلم لیگ کے دو بلکہ زیادہ اور جماعت اسلامی میں بھی کراچی اور لاہور گروپ بنانے کی کوشش کی گئی، کم از کم تاثر تو پیدا کر ہی دیا تھا۔ وہ تو مولانا مودودی مرحوم کا بنایا ہوا نظام تھا اس میں دراڑ ڈالنا مشکل ہوگیا، جنرل ضیاء کے جانے کے بعد سے سیاست کا حال بھی تباہ ہے لیکن یہ لوگ بار بار کسی نہ کسی عنوان سے جمع ہوکر کچھ بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں تو اس مسئلے کا حل بھی نکال لیا گیا ، ضلعی انتظامیہ کی نکیل تو پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہوتی ہے، الیکشن کمیشن وہیں سے عملہ حاصل کرتا ہے، پھر بھی کوئی سفید بھیڑ نہ رہ جائے اس کے لئے الیکشن کمشنر اغوا کر لئے گئے، لیکن اب بھی اڑچن رہ گئی تھی تو عدالتی ٹربیونل مرضی کے بنائے جانے لگے، اس میں بھی سب کچھ کھل جانے کا خدشہ رہتا تھا، چنانچہ عدلیہ ہی کو اغوا کرلیا گیا، آئینی ترامیم کی زنجیروں سے عدلیہ کا قلم باندھ دیا گیا۔ ورنہ اب تقرر اور تبادلہ بھی اغوا شدہ پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ ایسے میں ٹرین اغوا ہوگئی تو کیا ہوا، جس ملک میں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سر عام اغوا کرکے بچوں سمیت امریکہ کو بیچ دیا جاتا ہو، اسے واپس لانے کے لئے قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ نہ ہونے کا بہانہ کیا جاتا ہے اور اسی دوران شریف اللہ کو کسی معاہدے کے بغیر امریکہ کے حوالے کر دیا جاتا ہے، عافیہ صدیقی کی واپسی کے لئے مقدمے کی سماعتیں ہی ہورہی ہیں اور شاید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تک یہ سماعت ہی کرتے رہیں گے، بلکہ اب تو حکومت مقدمے ہی سے جان چھڑانا چاہتی ہے، اتنی پیشیاں اتنے سوال اتنے بہانے ہورہے ہیں کہ کسی طرح کیس سے جان چھڑا لی جائے۔ ہمارا عدالتی نظام بھی اس قدر پیچیدہ ہے کہ عام مقدمات ہی کو طویل کیا جاسکتا ہے۔ اور عافیہ جیسا مقدمہ تو خوب گھمایا جاتا ہے۔ ہر پیشی پر سرکار کا کوئی نہ کوئی ادارہ بے نقاب ہوجاتا ہے، پتہ چلتا ہے کہ کس کس نے عافیہ کو بیچا تھا۔ اس ایک اغوا کے حقائق چھپانے کے لئے کس کس ادارے کو اغوا کیا گیا۔
تو پھر ایک ٹرین کے اغوا پر تشویش کیوں ؟ اور اس واقعے کے حقائق جس طرح پیش کئے گئے ہیں اس کا مقصد خواہ کچھ بھی ہو بلوچستان کے بارے میں خدشات میں اضافہ ہی ہوتا آرہا ہے۔ لوگ کہیں گے کہ آپ تو ملک کے ٹوٹنے بات کر رہے ہیں، لیکن جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش ہورہی تھی اس وقت یہی کہا جارہا تھا کہ ملک مضبوط ہاتھوں میں ہے، ہمارا جرنیل کہہ رہا تھا کہ بھارتی ٹینک میری لاش پر سے گزر کر ڈھاکہ میں داخل ہونگے، اور چند ہی روز بعد ایک زندہ لاش اپنا پستول جنرل اروڑا کے حوالے کر رہی تھی۔ اور میڈیا پر نغمے دشمن کی کلائی ضرب گراں سے توڑ دی، والے چل رہے تھے۔ اب پھر بلوچستان میں پاکستان کے دشمنوں کا منہ توڑنے کے اعلان ہورہے ہیں، بری نظر ڈالنے والی آنکھیں نکال لینے کی بات ہورہی ہے، لیکن لگتا ہے کہ ذمہ داروں کی یہ خصوصیت بھی اغوا ہوچکی ہے، اب دشمن کا منہ کوئی پکڑ کر لادے تو ہم اسے توڑ دیں گے اور آنکھیں بھی نکال دیں گے، لیکن یہ سارے اعلانات ہم پہلے سے سنتے آرہے ہیں، جنرل پرویز سے بھی سنے اور بھٹو صاحب سے بھی سنے۔ پاکستان بچانا ہے تو اس کا ایک ایک اغوا شدہ ادارہ رہا کرنا ہوگا۔ اغوا شدہ قومی ضمیر، نظریہ پاکستان، پارلیمنٹ، عدلیہ، آئین اور سب سے بڑھ کر اور قومی سوچ کو رہا کرنا ہوگا۔ ورنہ کچھ نہیں بچے گا۔

جواب دیں

Back to top button