Column

ماہ مبارک میں دہشتگرد حملے، عوام ہر روز سوگوار

محمد ناصر شریف

رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں دہشت گرد حملے ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے، روزانہ اس حوالے سے کوئی نہ کوئی خبر ملک کو سو گوار کر دیتی ہے، مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے عوام اپنی جان و مال کے حوالے سے بھی شدید تحفظات کا شکار ہیں۔ گزشتہ روز کوئٹہ سے نوکنڈی جانے والے سیکیورٹی فورسز کے قافلے میں شامل ایک بس سے خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی ٹکرائی، جس کے دھماکے سے بس مکمل طور پر تباہ ہو گئی اور اہلکاروں سمیت 5افراد شہید ہوگئے، شہدا میں 3سکیورٹی اہلکار اور 2شہری شامل ہیں۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز سے شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد 3دہشت گردوں کو جہنم واصل بھی کیا ، فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر کلیئرنس آپریشن مکمل کیا، جبکہ فورسز دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہیں۔ ایک اور واقعے میں تھانہ مچنی گیٹ کی پولیس چوکی پر حملے میں پولیس اہلکار شہید ہوگیا، جبکہ خزانہ میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے کانسٹیبل کو زخمی کردیا۔ ضلع کرک کی تحصیل تخت نصرتی کے پولیس اسٹیشن تحصیل بانڈہ میں خرم پولیس اسٹیشن اور یونین کونسل ٹیری کے علاقہ گائوں عیسک خماری میں سوئی گیس کی تنصیبات پر ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب تینوں جگہوں پر دہشت گردوں کی طرف سے حملے کئے گئے، جس میں سب انسپکٹر اسلام نور جام شہادت نوش کر گئے۔ دوسرا حملہ پولیس اسٹیشن حرم پر کیا گیا، جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ تیسرا حملہ تحصیل بانڈہ دائود شاہ کے گائوں عیسک خماری میں سوئی گیس کی تنصیبات پر کیا گیا، جس میں ایک ایف سی اہلکار شہید ہوا۔ خیبر میں تھانہ باڑہ کی حدود میں برقمبر تکیہ چوکی پر دہشت گردوں نے بھاری ہتھیاروں سے حملہ کر دیا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
خیبرپختونخوا پولیس کے اعلامیے کے مطابق کارروائی کے دوران پشاور، کرک، ڈی آئی خان، ٹانک میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے دہشت گرد ہلاک کئے گئے۔ اس سے قبل پاک فوج نے جنوبی وزیرستان، اپر جنڈولا قلعے پر خودکش حملہ ناکام بنانے کا دعوی کرتے ہوئے 10دہشت گرد مار دیئے تھے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ خوارج نے جنوبی وزیرستان اور ٹانک کی سرحد پر جنڈولا میں سیکیورٹی فورسز پوسٹ پر حملے کی کوشش کی، جسے ناکام بنا دیا گیا۔
بلوچستان میں سانحہ جعفر ایکسپریس میں 18سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 26افراد شہید ہوئے۔ مرنے والوں میں ریلوے پولیس کے 3اہلکار اور 5عام شہری شامل ہیں، 354یرغمالیوں کو بحفاظت بازیاب کرایا گیا ہے، جن میں 37زخمی بھی شامل ہیں۔
بلوچستان میں دہشت گردوں نے منظم انداز میں دہشت گردی کی کارروائی کی۔ جعفر ایکسپریس واقعہ انتہائی دشوار گزار علاقے میں پیش آیا۔ ٹرین سے پہلے دہشت گردوں کی بڑی تعداد نے ایف سی چیک پوسٹ پر حملہ کیا۔ جہاں ایف سی کے 3جوان شہید ہوئے۔ دہشت گردوں نے آئی ای ڈی کی مدد سے ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑایا اور مسافروں کو ٹرین سے اتار کر ٹولیوں میں تقسیم کیا۔ اس دوران سوشل میڈیا پر جعلی ویڈیوز کے ذریعے پاکستان کیخلاف بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ بھارتی میڈیا نے فیک ویڈیوز سے ملکی تشخص خراب کرنے کی کوشش کی۔ دہشت گردوں نے 11مارچ کی رات یرغمالیوں کے ایک گروپ کو لسانی بنیاد پر چھوڑا، جس کی کچھ لاجسٹک وجوہات تھیں کیونکہ اتنے لوگوں کو قابو نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرا یہ کہ انہیں خود کو انسانیت دوست ہونے کا تاثر دینا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ دہشت گردوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کو ٹرین پر چھوڑا اور ایک بڑی تعداد پہاڑوں میں اپنے ٹھکانوں کی جانب چلی گئی، جن کی نگرانی کرنے کے بعد سکیورٹی فورسز نے انہیں نشانہ بناکر ختم کیا اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ 12مارچ کی صبح ہماری فورسز نے اسنائپرز کے ذریعے دہشتگردوں کو نشانہ بنایا تو یرغمالیوں کا ایک گروپ دہشت گردوں کے چنگل سے بھاگ نکلا، جنہیں ایف سی کے جوانوں نے ریسکیو کیا، جبکہ دہشت گردوں کی فائرنگ سے کچھ یرغمالی شہید بھی ہوئے۔ 36گھنٹے کے اندر انتہائی دور افتادہ مقام پر خودکش بمباروں کی موجودگی کے باوجود پاک فوج، ایئرفورس اور ایف سی نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اس آپریشن کو مکمل کیا۔ 2024ء میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے روزانہ اوسط 180آپریشن، 563جوان اپنی جان اللہ کو سپرد کر چکے، افغانستان میں فتنہ الخوارج کی مراکز میں تربیت ہورہی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 2024ء میں قانون نافذ کرنے والے ادراوں نے 59ہزار 775انٹیلی جنس بیسڈ چھوٹے بڑے آپریشن کئے۔ 2025ء میں مارچ کے وسط تک 11ہزار 654انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کئے۔ اس کا مطلب ہے کہ روزانہ اوسطاً 180آپریشن کر رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ 1250کے قریب دہشت گرد 2024اور 2025میں واصل جہنم کئے جا چکے ہیں۔
اس کے باوجود دہشت گرد حملوں کا نہ رکنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دہشت گرد مائنڈ سیٹ کیساتھ تیزی سے لوگ جڑ رہے ہیں، ایسا کیوں ہورہا ہے اس کی جانب توجہ دینے اور اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔اطلاعات کے مطابق دہشت گرد تنظیموں نے آن لائن پلیٹ فارمز کو آپریشنل پلاننگ ٹولز میں تبدیل کر دیا ہے۔ جہاں جسمانی موجودگی (فزیکل پریزنس) کے بغیر دنیا کے مختلف خطوں میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کیلئے آن لائن پلیٹ فارمز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ( اے آئی) سمیت جدید ٹیکنالوجی دہشت گردی کے پھیلاؤ کیلئے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کو نئی راہیں فراہم کر رہی ہے۔
اے آئی کے ذریعے باآسانی ڈیپ فیک مواد تیار کیا جا رہا ہے۔ دہشت گرد ایڈوانس ٹیکنالوجی جس میں ڈرون، جی پی ایس سسٹم، انکرپٹڈ میسیجنگ سروز، فائل شیئرنگ پلیٹ فارمز، آرکائیونگ سائٹس، وی پی این اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا موثر استعمال کر رہے ہیں۔ خاص طور پر انکرپٹڈ میسجنگ ( Encrypted messaging)ایپلی کیشنز نے دہشت گرد تنظیموں کو منظم ہونے اور رابطے کیلئے محفوظ چینل فراہم کئے ہیں۔
ڈارک ویب فورمز بھی غیر قانونی سرگرمیوں اور نظریاتی تبادلوں کیلئے ان تنظیموں کا ایک محفوظ ذریعہ ہیں، جہاں نوجوانوں کو اپنے نظریات کا حامی بنایا جا رہا ہے۔ مختلف تنظیموں اور انتہا پسندوں کی جانب سے اے آئی سمیت جدید ایپلی کیشنز کے ذریعے مختلف مقامی زبانوں میں ٹارگٹڈ پروپیگنڈے کااستعمال کرتے ہوئے اپنا پیغام پہنچایا جا رہا ہے اور نوجوان ان کا خاص ہدف ہیں۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے دہشت گرد تنظیمیں فنڈ ریزنگ کیساتھ نوجوان کو بھرتی کرکے اپنی آپریشنل صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کیساتھ ان پلیٹ فارمز کو بطور ڈیجیٹل ہتھیار استعمال کر رہی ہیں۔ دہشت گرد گروپ اور افراد فنڈنگ کیلئے کرپٹو کرنسی سمیت دیگر ڈیجیٹل کرنسی کا استعمال کر رہے ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کو اب ٹریننگ کیمپس کی ضرورت نہیں رہی ۔ آن لائن پلیٹ فارمز انہیں متنوع اقوام کے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
پہلے ان کی سرگرمیاں کسی ایک علاقے، ملک یا خطے تک محدود تھیں تاہم آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے وہ دنیا بھر میں اپنا بیانیہ اور پیغام پہنچا رہے ہیں اور بغیر ہتھیار ( Weapon less)دہشت گردی کر رہے ہیں۔ یہ گروپ اپنے آپریشنل سیلز کو مختلف بر اعظموں میں پھیلانے کیساتھ آن لائن رہنمائی بھی دے رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی خاص طور پر مصنوعی ذہانت بہت تیزی سے دہشت گرد تنظیموں کے رابطے اور بھرتی کے طریقہ کار کو تبدیل کر رہی ہے۔ انسداد دہشت گردی کیلئے بنائی گئی روایتی حکمت عملی اب ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ناکافی ہے اور اداروں کو اس حوالے سے ایک مکمل ،ہمہ گیر اور جامع منصوبہ بندی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button