Column

ابھی بیٹھا تھا میں دعا کر کے

تحریر : صفدر علی حیدری
دعا عربی زبان کا لفظ ہے جس کی جڑ ’’ د ع و‘‘ ہے اور اس کے معنی صدا اور کلام کے ذریعے کسی چیز کو اپنی جانب مائل کرنے کے ہیں۔ اس کے معنی التجا اور پکار کے آتے ہیں لیکن مذہبی مفہوم میں اس سے مراد اللہ سے فریاد کرنے یا کچھ طلب کرنے کی ہوتی ہے۔ اہل اسلام کے نزدیک خدا سے دعا مانگنا عبادت میں شامل ہے۔ خدا نے خود بھی بہت سی دعائیں بتائی ہیں کہ بندوں کو اس طریقے یا ان الفاظ میں دعا کرنی چاہیے ۔ اسی طرح بعض پیغمبروں نے جو دعائیں کی ہیں ان کا بھی قرآن میں ذکر ہے تاکہ عام مسلمان بھی ان موقعوں پر وہی دعا مانگیں ۔ حدیث میں بھی بہت سی دعائوں کا ذکر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض موقعوں پر مانگی یا جن کے مانگنے کا حکم دیا۔ صالحین کی دعائیں میں کتابوں میں مذکور ہیں ۔
دعا دراصل ایک التجا ہے جو اپنی یا اپنے متعلقین کی بقاء یا مشکلات اور مصائب کے حل کے لیے ( خواہ یہ مسائل مادی ہوں، خواہ معنوی ہوں، خواہ ان کا تعلق دنیاوی زندگی سے ہو ، خواہ اخروی مسائل سے ) اپنے معبود سے کی جاتی ہے ۔دعا پوری تاریخ اور تمام انسانی معاشروں اور مختلف ادیان کے پیروکاروں کے درمیان مختلف انفرادی اور اجتماعی اشکال میں رائج رہی ہے ۔
دعا کی اصطلاح اور اس کے مشتقات قرآن میں 215مرتبہ کسی کو کسی عمل کی طرف دعوت دینے، پرستش اور عبادت ، خدا سے کسی چیز کی التجا، کلام اور دعویٰ، اور منہ بولے بیٹے کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔
بہت سی آیات میں، دعا سے مراد پرستش، بندگی اور عبادت ہے اور اس بات کا اہم ترین ثبوت آیات یہ ہے کہ لفظ عبادت کو لفظ دعا کی جگہ استعمال کیا گیا ہے: ’’ مجھ سے دعا کرو، تا کہ میں ( تمہاری دعا) قبول کروں، بلاشبہ جو میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں وہ ذلت و حقارت کے ساتھ دوزخ میں داخل ہوں گے‘‘۔
اور
’’ اور میں خود آپ لوگوں سے اور جس کی آپ لوگ اللہ کے سوا دہائی دیتے ہیں علیحدگی اختیار کر لوں گا اور بس اپنے پروردگار سے دعا کرتا رہوں گا تو جب وہ ان لوگوں سے علیحدگی اختیار کر چکے، اور اس سے کہ جن کی وہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے تھے‘‘۔
دعا کسی خاص وقت اور خاص زبان سے محدود و مشروط نہیں ہے۔ دعا کے لیے اگرچہ کوئی ثابت و متعین ذکر نہیں ہے اور انسان اپنے بیرونی اور اندرونی، نیز روحانی اور جسمانی حالات اور تقاضوں کے مطابق ہر قسم کی دعا منتخب کر سکتا ہے، زبان پر جاری کر سکتا ہے یا حتی اپنے قلب سے گزار سکتا ہے۔ تاہم بعض خاص مواقعوں کا ذکر ملتا ہے کہ جو دعا کی قبولیت کے ساتھ مخصوص ہیں ۔
جیسے لیلتہ القدر میں، رات کے پچھلے پہر، فرض نمازوں کے بعد، اذان و اقامت کے درمیان، بارش کے وقت، نکاح کے وقت ، جمعہ کے دن ، زمزم پیتے وقت ، سجدے کی حالت میں، بیمار آدمی کے پاس، رات کو جب آنکھ کھلے، خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے وقت وغیرہ ۔ دعا کے حوالے سے یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ دعا پڑھی نہیں مانگی جاتی ہے۔ یہ ایک جذباتی اور روحانی کیفیت ہے۔ انسان جب خود کو بے بس پاتا ہے تو اپنے مالک کو پکارتا ہے ۔
’’ اور آدمی پر جب مصیبت پڑتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے کروٹ کے بل یا بیٹھے یا کھڑے ہوئے ‘‘۔
’’ اور جب لوگوں پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اپنے پروردگار سے لو لگاتے ہوئے اس سے دعا کرتے ہیں ‘‘۔
ہمارا خالق و مالک ہمیں دعوت دعا دیتا ہے اور دعا نہ کرنے کو پسند نہیں کرتا
’’ کہئے کہ میرا پروردگار تمہاری پروا نہیں کرتا اگر تم دعا نہ مانگو ‘‘۔
گویا دعائیں نہ ہوتیں، خداوند متعال تم پر عنایت نہ فرماتا۔
بعض آیات میں استجابت دعا کو صرف ’’ دعا پڑھنے‘‘ سے مشروط کیا گیا ہے ، جبکہ بعض دوسری آیات میں اس کے لئے ’’ مشیت الٰہی‘‘ یا ’’ اضطرار‘‘ کی شرط کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
خدا سے حقیقی التجا، بھی اللہ کی منزلت و سلطنت کی معرفت کے بغیر، جو کہ ہر مادی سبب سے ناامید اور منقطع ہونے کا موجب ہے ، ممکن نہیں ہے۔
’’ اور قبول کرتا ہے دعا کو ان کی جو ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں اور انہیں اور زیادہ عطا کرتا ہے اپنے فضل وکرم سے اور کافر لوگ، ان کیلئے سخت عذاب ہے‘‘۔
خداوند متعال کو چپکے چپکے سے تضرع اور گریہ و زاری کرکے پکارنا: دعا در اصل اس وقت صحیح معنوں میں ممکن ہوجاتی ہے کہ بندہ اپنی مسکنت، بے بسی اور عاجزی کو پہچان لے اور پروردگار کی عزت اور صفات کمالیہ کی معرفت بھی حاصل کر لے، تا کہ اس کی دعا ریا کے شبے سے محفوظ ہوجائے۔
اللہ کو خوف اور امید کی رو سے پکارنا: ’’ اور اس سے دعا کرو خوف سے بھی اور امید سے بھی ‘‘۔ قرآن میں اسی سبب سے تہجد پڑھنے والوں کی مدح ہوئی ہے: ’’ پکارتے رہتے ہیں اپنے پروردگار کو ڈر اور امید میں‘‘۔
اخلاص، زبان اور دل کا ایک ہونا، تمام دنیاوی اسباب سے انقطاع اور دل کو صرف اور صرف اللہ کے سپرد کرنا، جس پر کلام اللہ میں تاکید ہوئی ہے: ’’ اور اس کی طرف پوری طرح لو لگائیے‘‘۔
قرآن میں انبیاء اور صالحین سے منقولہ دعائوں سے ایسے آداب نمایاں ہوجاتے ہیں جن کو اگر حالتِ دعا اور بارگاہ ربوبی میں التجا کے دوران ملحوظ رکھا جائے، تو یہ بہتر ہے۔
صفت ربوبیت سے استفادہ کرنا: ان تمام بزرگوں کا مشترکہ ادب خداوند متعال کی صفتِ ربوبیت سے توسل ہے اور وہ دعا کو لفظ ’’ ربّ‘‘ سے شروع کرتے ہیں اور اس لفظ کی دہرائی کو اللہ کی رحمت متحرک کرنے کے لئے مد نظر رکھتے ہیں ۔
انبیاء اپنی دعائوں کا اختتام اپنی حاجات سے متناسب اسمائے حسنی سے کرتے ہیں، جیسے فرزند کی عطائیگی کے لیے بارگاہ الٰہی میں جناب زکریاٌ کی دعا کے آخر میں ’’ خیر الوارثین ‘‘ آیا ہے۔
مغفرت الٰہی اور بخشش کو دوسری حاجتوں پر مقدم رکھنا: جیسے ملک و سلطنت کی التجا سے قبل سلیمانٌ کی طلب مغفرت۔ دعا کے آغاز میں پروردگار کی ثنا اور تسبیح اور اس کی عظمت اور مقام کبریائی کا تذکرہ اور اس کی نعمتیں گِنوانا: دعا کنندہ اس ذریعے سے اپنے آپ کو معرفت اور محبت میں ڈوبا ہوا دیکھتا ہے؛ جس طرح کہ ابراہیمٌ اللہ کی تمام نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہیں، جس روز سے وہ خلق ہوئے ہیں لامتناہی حدود تک، خدا کی طرف سے اسماعیلٌ اور اسحاقٌ کے عطا ہونے وغیرہ بھی ان ہی نعمتوں میں شامل ہیں۔ جس طرح کہ جناب زکریاٌ نے اللہ سے فرزند کی درخواست کی اور اپنی التجا کی وجہ اور علت بتاتے ہوئے کہا: تاکہ وہ میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو تاکہ نابکار افراد میرے مقام پر قبضہ نہ کر لیں ۔
حاجات اور درخواستوں کی ترتیب اور ہر ایک کے دوسرے کے حصول نیز انسانی سعادت میں کردار کو مد نظر رکھنا:مثلا تین حاجتوں یعنی ’’ شکر نعمت، عمل صالح کی انجام دہی اور نسل کی اصلاح‘‘ کی ترتیب، انسانی سعادت کے مراتب ’’ انسانی سعادت‘‘ ، ’’ جسمانی سعادت‘‘ اور ’’ بیرونی سعادت‘‘ کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
’’ پروردگار! ہماری گرفت نہ کرنا اگر بھول جائیں ہم یا چوک جائیں ہم۔ پروردگارا! اور ہم پر ویسا بوجھ نہ ڈالنا جیسا ان پر ڈالا تھا جو ہم سے پہلے تھے اور پروردگارا! ہم پر ایسا بار نہ رکھنا جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں اور ہمیں معاف کر اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر، تو ہی ہمارا مالک ہے، تو کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما ‘‘۔
دعا میں دوسروں کو شریک کرنا: مثال کے طور پر خداوند متعال رسول اکرمؐ کو حکم دیتا ہے کہ اپنے والد اور والدہ کے لئے دعا کریں، اور علاوہ ازیں مومنین کے لئے بھی طلبِ مغفرت کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بارہا حکم دیا گیا ہے کہ مومنین کے لئے استغفار کریں، نیز اللہ نے مومنین کو فرمان دیا ہے کہ رسولؐ خدا کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپؐ سے درخواست کریں کہ ان کے لئے استغفار کریں، اور دیگر آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی شفاعت پر دلالت کرتی ہیں ۔
دعا مومن کا سرمایہ ہے، اس کا ساتھی ہے ۔ اس کا آسرا اور امید ہے ۔ جبھی تو اسے مومن کا اسلحہ کہا گیا ہے ، یہ مومن کی ڈھال ہے ، عبادت کا مغز ہے، دعا آسمانوں اور زمین کا نور ہے، دعا رحمت کی کنجی ہے ، دعا کامیابی کی کنجی اور فلاح کا راز ہے ۔ دعا ہر دکھ امور مرض کی دوا ہے ، دعا دشمن سے نجات اور وسعت رزق کا وسیلہ ہے ، دعا اللہ کی قربت کا وسیلہ ہے ۔ عبادت کی حقیقت ’’ دعا‘‘ ہے اور دعا بہترین عبادات میں سے ہے۔ خالق کل خود یہ چاہتا ہے کہ اس کا بندہ اس کے سامنے دست سوال دراز کرے ۔
’’ مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا ‘‘۔
دعا کے آداب درج ذیل ہیں : خدا کی مدح و ثنائ، خدا کی نعمتوں کا تذکرہ، شکر و سپاس، محمد و آل محمد پر سلام و صلوات، خدا کے فضل اور اس کی رحمت کی درخواست، دھیمی آواز سے پروردگار کو پکارنا، دوسرے لوگوں کو بھی دعا میں شامل کرنا گناہ کا اعتراف اور خدا کی پناہ کی طلب کرنا ، سمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر عاجزی اور خضوع اور التجا و تضرع، شوع قلب اور دلی خوف و خضوع کی کیفیت اور سجدے کی حالت میں اشک ریزی، قرآن، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور اہل بیت علیہم السلام سے توسل، دعا کے آخر میں ’’ آمین‘‘ کہنا۔ دعا کو ’’ ماشاء اللہ لاحول ولاقوۃ لا باللہ‘‘ پر ختم کرنا۔
احادیث میں ایسے امور کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے جو دعا کنندہ کے لئے غیر شائستہ ہیں: ایسی چیز کی درخواست، جو معلوم نہیں ہے کہ اس کی مصلحت میں ہے یا نہیں، اور نظام تکوین کے برعکس دعا کرنا: جیسے ’’ موت کا سرے سے حذف کیا جانا ۔ مناسب ہے کہ انسان دوسرے انسانوں بالخصوص والدین ، اہل خانہ ، فرزندوں، مومنین اور مصائب و مشکلات میں گھرے انسانوں کے لیے دعا کرے ۔ کیوں کہ دوسروں کے حق میں دعا استجابت سے قریب تر ہے اور دعا کنندہ کی حاجت برآری کے اسباب فراہم کرتی ہے۔
بعض مواقع پر گناہ کو کلی طور پر دعا کی استجابت میں رکاوٹ قرار دیا گیا ہے ۔ جیسا کہ ظلم و ستم کرنا، والدین کی نافرمانی، عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ قطع تعلق کرنا، زنا، شراب نوشی؛ نماز سے بے اعتنائی برتنے والا، حرام خواری، خون ناحق بہانا، چغل خوری، ساز و آواز سننے اور بجانے والا، عہد خداوندی کی وفا نہ کرنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے غفلت برتنا اللہ کے اوامر اور نواہی کی عدم پابندی ۔ ان ہی گناہوں میں سے ہیں جو دعا کی استجابت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ دعا غافل شخص کو ایک قسم کا انتباہ اور نادان شخص کو آگاہ کرنے کا نام ہے، جو بندگی کے آداب کے منافی ہے۔ دعا، دعا کنندہ کی چاہت کو خدا کی مشیت پر ترجیح دینے اور مقدم رکھنے، اور یہ درحقیقت خدا کے بجائے مطلوب کی طرف لو لگانے کے مترادف ہے اور قضائے الٰہی پر راضی ہونے کے مقام کے منافی ہے۔ ابن سینا دعا کی فلسفی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دعا کے وقت ایک قوت اللہ کی جانب سے انسان کے اوپر فیض افشانی کرتی ہے جس کے نتیجے میں دعا کنندہ عناصر کے اوپر اثر انداز ہوجاتا ہے اور عناصر اس کے ارادے کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں ۔
دعائے کمیل کے جملے کتنے شان دار ہیں’’ اے بہت جلد راضی ہو جانے والے رب اس بندے کو بخش دے جس کے اختیار میں سوائے دعا کے کچھ نہیں ‘‘ اور’’ خدایا میرے وہ گناہ بخش دے جن سے نعمتیں زائل ہوتی ہیں، اے معبود! میرے وہ گناہ معاف فرما جو دعا کو روک لیتے ہیں ‘‘۔
قصہ مختصر دعا عبادت کا جوہر ہے بلکہ اصل عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر وقت دعا کرتے رہنے اور دعائے عافیت مانگنے کی توفیق دے ، آخر میں ایک اپنے نبیؐ اور ایک اس کی ولی کی دعا پیش کر رہا ہوں
’’ اے اللہ مجھے اپنی محبت عطا فرما، اور اس کی محبت جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور ہر اس چیز کی محبت جو مجھے تیری محبت کے قریب کر دے اور اپنی محبت کو میرے لیے آب سرد سے زیادہ من پسند بنا دے ‘‘، ’’ یا اللہ میری عزت کے لیے یہی کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں، میرے فخر کے لیے یہی کافی ہے کہ تو میرا پروردگار ہے۔ تو ویسا آقا ہے جیسا میں چاہتا تھا۔ پس مجھے ویسا بنا دے جیسا تو چاہتا ہے ‘‘۔
اتنی جلدی قبولیت ہو گی
ابھی بیٹھا تھا میں دعا کر کے

جواب دیں

Back to top button