Column

بے لوث ورکرز ۔۔۔ خود غرض قیادت

رفیع صحرائی
آٹھ مارچ گزر گیا۔ میں انتظار کرتا رہا۔ پھر 9مارچ بھی گزر گیا۔ اس روز بھی میرا انتظار بارآور ثابت نہ ہوا۔ مجھے امید تھی کہ اسے یاد کیا جائے گا۔ اس کی دوسری برسی پر اسے خراجِ تحسین پیش کیا جائے گا۔ تعزیتی ریفرنس ہوں گے۔ پی ٹی آئی کی قیادت سے لے کر عام ورکرز تک سب کی زبان پر اس کا تذکرہ ہو گا لیکن مجھے شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگ اسے یوں بھول گئے جیسے وہ دنیا میں کبھی آیا ہی نہ تھا۔ لیڈرشپ تو سدا کی بھلکڑ ہوا کرتی ہے۔ اسے تو اپنے روزمرہ معمولات کی یاد دہانی اور انجام دہی کے لیے بھی ذاتی مددگار ( پی اے) کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھلا مرے ہوئوں کو یاد کرنے کی فرصت اس کے پاس کہاں۔ لیکن یہ بدبختی کی انتہا ہے کہ اسے عام ورکرز بھی بھول گئے۔ وہ جو تمام سیاسی ورکرز کے لیے ہمت اور دلیری کی علامت سمجھا جاتا تھا اصل میں تو وہ ان ورکرز کے لیے بھی صرف باعثِ تفریح ہی تھا ورنہ کوئی تو اسے یاد کرتا۔ اس کے بے لوث جذبوں اور لیڈر سے والہانہ عشق کی داستان کو دہراتا۔
ظلِ شاہ پی ٹی آئی کا وہ ورکر تھا جس نے اپنے لیڈر کی محبت میں گھر تک چھوڑ دیا تھا۔
اس کی آنکھوں میں ہمیشہ ایک چمک دیکھی جاتی تھی۔ ایک انوکھی چمک، زندگی اور جذبے سے بھرپور چمک۔ گھونگریالے بالوں کی ایک لٹ ماتھے پر پڑی رہتی۔ چھ فٹ قد، پہلوانوں جیسا ڈیل ڈول اور آواز میں کھنک و گھن گرج کا امتزاج۔ وہ پنجابی فلموں کا ہیرو لگتا تھا۔ مختلف چینلوں کے نمائندے مائیک اور کیمرے اٹھائے اس کے پیچھے پیچھے ہوتے تھے۔ کوئی اس سے ڈائیلاگ سنانے کی فرمائش کرتا تو کوئی مختلف گانوں اور ترانوں پر اداکاری کرنے کو کہتا تھا۔ وہ سادہ مزاج اور بھولا تھا۔ فوراً ان کی فرمائش پوری کر دیتا۔ اسے دیکھنے اور سننے والے تالیاں بجاتے، واہ واہ کرتے اور اس کی تعریفیں کر کر کے اس کے جذبوں کو تازہ دم رکھتے تھے۔ وہ بھی اپنے ’’ چاہنے والوں‘‘ کی تعریفوں اور دادِ بے داد کو سچ سمجھتے ہوئے خود کو فلمی ہیرو سمجھنے لگتا۔ اسے کیا پتا تھا کہ یہ ’’ مقبولیت‘‘ اسے ایک دن موت کی اندھیری وادیوں میں لے جائے گی اور اس کے ’’ چاہنے والے‘‘ اس کی موت پر افسوس کرنے کی بجائے اس کی لاش کو چیک سمجھ کر کیش کرانے کی کوشش کریں گے۔
پتا نہیں وہ کون سی گھڑی تھی جب ہمارے ملک کے لاتعداد نوجوانوں کی طرح ظلِ شاہ کو بھی عمران خان کی باتیں سن کر ان سے پیار ہو گیا۔ وہ زیادہ پڑھا لکھا نہ تھا۔ کوئی کام کاج بھی نہیں کرتا تھا۔ ہم اسے دماغی طور پر کمزور نہیں بلکہ بھولا بھالا جوان کہیں گے۔ اس کی عمران خان سے محبت بڑھتے بڑھتے عقیدت اور جنون میں تبدیل ہو گئی تھی۔ جب عمران خان زخمی ہونے کے بعد زمان پارک منتقل ہوئے تو وہ ان کی گلیوں کا فقیر ہو گیا۔ یار کا در اس کے لیی والدین کے گھر سے زیادہ پیارا ہو گیا۔ وہ پروانہ وار عمران خان کے گھر کے گرد ہمہ وقت منڈلاتا رہتا۔ اس کی ایک ہی خواہش تھی کہ اس کا محبوب لیڈر اسے شرفِ ملاقات بخش دے۔ اپنی اس خواہش کا اظہار وہ پی ٹی آئی ورکرز سے اکثر کیا کرتا تھا۔ اس کے لیے اس کا سب کچھ عمران خان ہی تھا۔ ایسے جنونی چاہنے والے خوش بختوں ہی کو میسر آیا کرتے ہیں۔ سخت سردی کی راتیں اور ٹھٹھرتے دن اس نے زمان پارک کی گلیوں میں گزار دئیے۔
اور پھر 8مارچ 2023ء کا دن آ گیا۔ وہ دن جب عمران خان نے احتجاج کے لیے میدان میں نکلنا تھا۔ عمران خان کو میدان میں نکلنا تھا وہ نہ نکلے۔ ورکر سڑکوں پر مار کھاتے رہے مگر عمران خان گھر سے نہ نکلے اور پی ٹی آئی کی دیگر لیڈرشپ ریلی میں شرکت کے لیے زمان پارک بھی نہ پہنچی۔ شاید ورکرز کا امتحان لینا مقصود تھا جس پر دستیاب ورکرز بہرحال پورا اترے۔ ظلِ شاہ بھی دیگر ورکرز کے ساتھ میدان میں ڈٹا ہوا تھا۔
صبح جب ہسپتال میں اس کی کچلی ہوئی لاش ملی تو اسے جاننے والوں کو ایک لمحے کے لیے تو سکتہ ہو گیا۔ پی ٹی آئی کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ پولیس نے شدید تشدد کر کے اس کو مار ڈالا ہے۔ وہ جو تین ماہ تک اپنے لیڈر کی گلیوں کی خاک بنا رہا مگر اس کی ایک نگاہ کا حق دار نہ ٹھہرا تھا یکایک اپنے محبوب قائد کا محبوب بن گیا۔ اس کی زندگی میں تو عمران خان نے اسے اہمیت نہ دی تھی لیکن اس کی موت کے بعد اس پر پوری تقریر کر ڈالی اور یہ اعتراف بھی کیا کہ وہ خود راتوں کو اس کی دیوانہ وار صدائیں سنا کرتے تھے۔ یہ الگ بات کہ تب اس کی صدائیں غیر اہم سمجھ کر نظرانداز کی جاتی رہیں۔ اس کی موت عمران خان کی سیاسی زندگی کے لیے آکسیجن جیسی تھی۔ خان صاحب نے ظلِ شاہ کے والد بزرگوار کو اپنی بارگاہ میں طلب کر کے حسبِ معمول ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر اور اپنا منہ دوسری طرف پھیر کر تعزیت بھی کی۔ اس منظر کی تصویر بنا کر سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو جاری کی گئی تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ دوسری طرف حکومت پنجاب اور پولیس ڈیپارٹمنٹ نے اس ویگو ڈالے اور اس کے سواروں کو سیف سٹی کیمروں کی مدد سے شناخت اور تلاش کر لیا جو ظلِ شاہ کی لاش کو ہسپتال چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔ وہ ڈالا پی ٹی آئی کے عہدیدار کا نکلا جس کے ڈرائیور نے گرفتاری کے بعد بیان دیا کہ اس نے ظلِ شاہ کو سڑک کنارے اسی حالت میں مردہ پایا تھا اور اٹھا کر ہسپتال پہنچایا تھا۔ ڈرائیور کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنے مالک کو وقوعہ کے بارے میں بتایا تو اس کی ملاقات عمران خان سے کروائی گئی جنہوں نے اسے شاباش دی اور خاموش رہنے کی ہدایت کی۔ پی ٹی آئی پنجاب کی صدر یاسمین راشد اعتراف کر چکی ہیں کہ انہیں ویگو ڈالے کے مالک کا پتا چل گیا تھا مگر ان کی اور بھی مصروفیات ہیں اس لیے انہوں نے اس کا ذکر کسی سے نہیں کیا۔ پولیس کا موقف ہے کہ ظلِ شاہ کو دیگر چند کارکنوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا جو دیگر دو ساتھیوں کے ساتھ پیشاب کرنے کا بہانہ بنا کر اترا اور بھاگ پڑا، بھاگتے ہوئے موڑ پر وہ اس ویگو ڈالے سے ٹکرایا۔ اسے اسی ویگو ڈالے نے ٹکر مار کر ہلاک کیا تھا۔
پی ٹی آئی اس کی موت کو کیش کراتی رہی لیکن اس کے غریب والد کی کوئی مالی مدد کرنے کو تیار نہیں ہوا۔ ظلِ شاہ اپنی جان دے کر سیاسی طور پر کیش تو ہوا لیکن اس کے والدین کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ اس کے جنازے میں کوئی آخری درجے کا لیڈر بھی شامل نہیں ہوا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے عمران خان کی خاطر جان دی۔ مگر چونکہ اس کے والد نے خان کے سیاسی مخالفین کے خلاف عمران خان کی مرضی کی ایف آئی آر درج کروانے سے انکار کیا تھا اس لیے اس کا والد عمران خان کی نظر میں غیر اہم ہو گیا۔ یہ پیغام ہے ظلِ شاہ جیسے ہر پارٹی کے جنونی ورکرز کے لیے کہ آپ لوگوں کی حیثیت مچھلی پکڑنے والے کانٹے میں لگے کینچوے سے زیادہ نہیں ہے۔ جن لیڈروں کی خاطر جانیں دے رہے ہو ان کی اپنی اولادیں کدھر ہیں؟، کیا انہیں اپنے باپوں سے پیار نہیں ہے؟۔ یہ سیاستدان اپنے جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں میں اپنے خاندان کی تمام خواتین و حضرات کو شامل کیوں نہیں کرتے؟ اپنے جہاد سے اپنے خاندان کے افراد کو محروم کیوں رکھتے ہیں؟ آخر عام ورکرز ہی ان سیاسی جنگوں کا ایندھن کیوں بنتے ہیں؟۔
یہ واقعہ صرف ظلِ شاہ ہی کا نہیں ہے۔ یہ اس حقیقت کی نشاندہی ہے کہ سیاست میں اکثر سچ کو مار دیا جاتا ہے۔ لاشیں صرف بیانیے بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ عام ورکرز کی کیا بات کریں عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کو جب دس سال قید کی سزا ہوئی تو اس نے روتے ہوئے کہا تھا ’’ میں نے اپنے ماموں عمران خان کے لیے جو قربانیاں دیں ان کا صلہ یہ ہے کہ ڈیڑھ سال قید کے دوران مجھے نہ تحریکِ انصاف نے پوچھا اور نہ ہی عمران خان نے‘‘۔ حسان نیازی کے بیان نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ خود کو لیڈر کی ناک کا بال سمجھنے والے سیاسی ورکرز دراصل وہ ٹشو پیپر ہوتے ہیں جنہیں ناک صاف کرنے کے بعد پھینک دیا جاتا ہے۔
ظلِ شاہ کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ صرف لیڈرشپ کے ذہنوں ہی سے محو نہیں ہوا بلکہ اس کے ساتھی ورکرز نے بھی محض دو سال میں اسے بجلا ڈالا ہے۔ یہ پیغام ہے باقی سیاسی ورکرز کے لیے کہ اپنے لیڈر کے ساتھ سیاسی ہمدردی ضرور رکھیے۔ ووٹ کے ساتھ ساتھ اسے سپورٹ بھی کیجیے مگر خود کو سیاست کا ایندھن مت بنائیے۔ آپ سیاسی لیڈر شپ کے لیے استعمال ہونے والی ’’ چیز‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں ہیں لیکن اپنے گھر والوں کا سب کچھ آپ ہیں۔

جواب دیں

Back to top button