دہشت گردی کا عفریت اور زمینی حقیقتیں
قادرخان یوسف زئی
تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ وہ خود کو دہراتی نہیں، ہم اسے بار بار دہرانے پر مجبور کرتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کی سیاسی بساط پر ایک بار پھر وہی پتے پھینکے جا رہے ہیں جن کے نتائج ماضی میں بھی ہم بھگت چکے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی انخلاء کو ’’ شرمناک‘‘ قرار دیتے ہوئے وہاں چھوڑے گئے امریکی ہتھیار اور فوجی سازوسامان واپس لانے کا اعلان کرچکے ہیں۔ بظاہر یہ اعلان محض ایک بیان لگتا ہے لیکن درحقیقت اس کے پیچھے خطے کی بدلتی ہوئی سیاست کا نیا باب پوشیدہ ہے۔کبھی کبھی لگتا ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی نہیں بلکہ ہم اسے دہرانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کی بدلتی ہوئی بساط پر ایک بار پھر وہی کھیل شروع ہو چکا ہے جس کے نتائج ہم پہلے بھی بھگت چکے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے خطاب میں افغانستان سے امریکی انخلا کو ’’ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی شرمندگی‘‘ قرار دیا اور اس کا ذمہ دار صدر بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کو ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ وہ افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی ہتھیار اور فوجی سازوسامان واپس لائیں گے۔ پاکستان نے اس اعلان کا فوری خیر مقدم کیا۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے امریکی قومی سلامتی مشیر مائیکل والٹز سے گفتگو میں اسے مثبت قدم قرار دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اس بدلتے منظرنامے میں اپنا کردار واضح طور پر متعین کر پایا ہے؟ یا پھر ہم ماضی کی طرح وقتی فوائد کے پیچھے بھاگتے رہیں گے؟۔
یہ سوالات اس لیے بھی اہم ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر آ چکا ہے۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دہشت گرد حملوں میں 45فیصد اضافہ ہوا اور حملوں کی تعداد 517سے بڑھ کر 1099تک پہنچ گئی۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) ان حملوں میں سرِفہرست رہی۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان دہشت گردی کا مرکز بنے رہے جہاں عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ یہ وہی ٹی ٹی پی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ افغان طالبان حکومت آنے کے بعد یہ غیر موثر ہو جائے گی، لیکن ہوا اس کے برعکس۔ افغانستان میں افغان عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد پاک افغان تعلقات سرد مہری کا شکار ہوگئے۔ کل تک جنہیں ہم اپنے اثاثے سمجھتے تھے آج وہ ہمارے لیے درد سر بن چکے ہیں۔
افغان طالبان حکومت نے مضحکہ خیز الزام لگایا کہ داعش خراسان کو پاکستانی سرزمین پر تربیت دی جا رہی ہے جبکہ پاکستان بارہا کہہ چکا اور شواہد بھی فراہم کر چکا ہے کہ افغان سرزمین داعش خراسان سمیت دو درجن سے زائد دہشت گرد گروہوں کا مرکز بن چکی ہے۔ داعش خراسان کا خطرہ اب محض افغانستان تک محدود نہیں رہا بلکہ پاکستان کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ جولائی 2023ء میں باجوڑ ضلع خیبرپختونخوا میں داعش خراسان نے سیاسی ریلی پر خودکش حملہ کیا جس میں کم از کم 54افراد جاں بحق ہوئے۔ حالیہ دنوں میں خیبرپختونخوا صوبے میں کئی بم دھماکے ہوئے جن کا الزام بھی داعش خراسان پر عائد کیا جا رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ افغان طالبان نے سبکی سے بچنے سے لئے الزامات کا ایک نیا سلسلہ شروع کردیا ، جس کا مقصد عالمی برداری کی افغانستان سے توجہ ہٹانا ہے جس میں افغان عبوری حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت لڑکیوں اور خواتین پر مختلف پابندیوں کی وجہ سے عالمی مطالبات کو رد کررہی ہے ۔افغان طالبان حکومت اپنی سرزمین پر دہشت گرد گروپوں کے تربیت کے شواہد کو کس طور نظرانداز کرسکتی ہے کیونکہ یہی بنیادی وجہ ہے کہ ابھی تک افغان عبوری حکومت کو دنیا بھر میں کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا اور یہاں پاکستان کا مقف شواہد کے ساتھ ثابت کررہا ہے کہ افغان سرزمین ہی داعش خراسان سمیت دو درجن دہشت گرد گروہوں کا مرکز بن چکی ہے۔
ٹرمپ نے حال ہی میں کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے ایبی گیٹ حملے کے مبینہ ذمہ دار داعش کمانڈر محمد شریف اللہ کو گرفتار کرنے پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید پیدا ہوئی ہے۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ انسداد دہشت گردی تعاون بڑھا کر نہ صرف اپنی ساکھ بہتر بنا سکتا ہے بلکہ خطے میں استحکام لانے میں بھی کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن یہاں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان حکومت کے درمیان براہ راست سفارتی تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان امریکہ کو سامان واپس لانے کے لیے لاجسٹک سپورٹ فراہم کر سکتا ہے اور اس طرح اپنی سٹریٹجک اہمیت بڑھا سکتا ہے۔ لیکن سوال پھر یہی اٹھتا ہے کہ کیا ہماری قیادت اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتی بھی ہے؟ یا پھر ہمیشہ کی طرح وقتی فوائد کے لیے طویل المدتی نقصانات مول لے گی؟ جبکہ افغان عبوری حکومت امریکی اثاثوں کی واپسی سے مکمل انکار بھی کرچکی اور پاکستان کے افغان طالبان سے تعلقات کشیدہ بھی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ ماضی میں امریکہ کے اتحادی بن کر سوویت یونین کے خلاف عسکریت پسند گروہوں کو وقتی مفادات کے لیے استعمال کیا لیکن یہی گروہ بعد میں ہمارے گلے پڑ گئے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا جیسے صوبوں میں دہشت گرد حملوں نے عام شہریوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس بدلتے ہوئے منظرنامے کو سمجھتے ہوئے خطے میں استحکام اور امن قائم کرنے کے لیے شفاف انسداد دہشت گردی اقدامات کرے اور پڑوسی ممالک خصوصاً افغانستان کے ساتھ اعتماد سازی کو فروغ دے۔ پاکستان اگر حقیقی معنوں میں اس صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو اسے خطے اور عالمی سطح پر اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے نبھانا ہوگا۔ صرف اسی صورت پاکستان خطے میں امن و استحکام لانے والا ایک قابل اعتماد ملک بن سکتا ہے، بصورت دیگر یہ خطرناک کھیل دونوں ممالک کے لیے مزید مسائل پیدا کرے گا۔ یہ وقت فیصلہ سازی کا وقت ہے، دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ پاکستان بدلتی ہوئی عالمی سیاست کا فائدہ اٹھاتا ہے یا ماضی کی غلطیوں کو دہراتا رہے گا؟۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور خطے میں امن و استحکام لانے والا قابل اعتماد ملک بننے کی کوشش کریں۔ فیصلہ سازوں کو سوچنا ہوگا کہ کیا ہم اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کو مزید پنپنے کے لئے مزید کوئی موقع نہ دیں اور ایک ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دیں۔ فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہی ہوگا، لیکن یاد رکھیں، تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی اگر ہم نے پھر غلط فیصلے کیے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ہماری قیادت بدلتے عالمی منظر نامے سے فائدہ اٹھاتی ہے یا پھر ماضی ہی دہراتی رہے گی؟ فیصلہ آپ کا۔۔۔!