ColumnTajamul Hussain Hashmi

اداروں کو فتح کرنے کی جنگ جاری

تجمل حسین ہاشمی
پانچ سالہ اسمبلی کسی دور میں بھی دن پورے نہ کر سکی۔ ملکی اندرونی حالات اور بیرونی مالیاتی اداروں کے دبائو نے معاشی اور سیاسی نظام کو گھیرا ہوا ہے۔ یہ گھیرے سیاست دانوں کے خود کی فیصلہ سازی سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، حکومت فیصلہ ساز اور اندرونی مالیاتی دبائو کے زیر اثر ہونے کے ساتھ ساتھ بیرونی قوتیں کے دبائو میں ہیں۔ دوسری طرف تمام اسلامی ممالک کی چاہت کا خیال بھی ضروری ہے کیوں کہ ہم معاشی طور پر بہت کمزور ہیں اور تین سے زیادہ جنگیں لڑ چکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ خراب معاشی صورت حال کی بڑی وجہ دہشت گردی ہے۔ پڑوسی ملک کے چکر میں ہمارے اپنے حالات کنٹرول سے باہر ہورہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک شہری اظہر نے کہا کہ آخر یہ خودکش پاکستان ہی کا رخ کیوں کرتے ہیں، سرحد کے ساتھ جڑے کئی اور ممالک بھی ہیں لیکن پاکستان سب سے زیادہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ دنیا بھر سے زیادہ سرحدی خطرات ہمیں درپیش ہیں حالانکہ کئی ممالک کے بارڈر کھلے پڑے ہیں، وہاں ایک اہلکار پوری سکیورٹی دیکھ رہا ہوتا ہے۔ وہاں کسی بھی طرح کے کوئی خطرات نہیں۔ ہمارے
عسکری ادارے دن رات جنگ لڑ رہے ہیں، عام شہریوں کی زندگیوں کو شدید خطرات ہیں، روزانہ کی بنیاد پر معصوم شہری اور عسکری اداروں کے اہلکار شہید ہورہے تھے۔ بم بلاسٹ میں بہت کمی ہے لیکن آج بھی معصوم شہریوں کو گاڑیوں سے اتار کر شہید کیا جارہا ہے۔ حکومتی پالیسیاں کہاں خراب ہیں، سب کے سامنے عیاںہے کہ حکمرانوں نے کیسے سرکاری اداروں کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے استعمال کیا۔ اسمبلی میں تاجر آچکے ہیں۔ تاجروں کو پالیسیوں کے ذریعے نوازا جاتا ہے۔ چینی کی ایکسپورٹ امپورٹ پر اربوں روپے کمانے والے یہی لوگ ہیں۔ نگران حکومت میں گندم سکینڈل سب کے سامنے ہے، اس کی وجہ سے اپنا کسان رل گیا۔ یہ سب کچھ سب پر واضح ہے۔ جن اداروں کو آئین کے مطابق احتساب کرنا تھا ان کو ہر دور حکومت میں سیاست زدہ کیا گیا۔ جنرل ( ر) ایوب خان کے دور کو ترقی کا دور کہا جاتا ہے لیکن اسی دور میں اداروں کو ذاتی مفادات میں استعمال کرنے کا سفر شروع ہوا جو اب تک جاری
ہے۔ بی بی فاطمہ جناح کیخلاف سول ادارے کو استعمال کیا گیا۔ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹے گئے، اداروں میں سیاست کی انٹری تاحال جاری ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا فرمان ہے کہ اداروں کو آئین کے مطابق کام کرنا چاہئے۔ جنرل (ر) ایوب خان نے جسٹس اخلاق حسین، جنرل (ر) یحییٰ خان نے جسٹس شیخ شوکت علی، جنرل (ر) ضیا شہید نے جسٹس غلام صفدر شاہ، جنرل (ر) مشرف نے افتخار چودھری اور جمہوری خان حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس دائر کیا۔ یہ مرحلہ وار محاذ آرائی جاری رہی، اس محاذ آرائی میں کہیں پر عوامی سہولیات نظر نہیں آئیں۔ اقتدار کی جنگ کیلئے آمر اور جمہوری وہ کچھ کرتے رہے جس کی آئین اجازت نہیں دیتا تھا۔ آج ملکی اداروں کی نیلامی جاری ہے، پورٹ قاسم سکینڈل اس حکومت کا بڑا سکینڈل ہے، زمین کو سستے داموں فروخت کر دیا گیا۔ اس پر تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی ہے لیکن نتیجہ کیسے بہتر آ سکتا ہے جب حکومت فیصلہ دے چکی ہے۔ وزیر اعظم آفس کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق زمین چھوٹے اور درمیانے انڈسٹریل پارک کیلئے دی گئی تھی۔ سینیٹر فیصل واوڈا کی جانب سے زمین اونے پونے دینے کا انکشاف کیا گیا تھا۔ اگر اداروں کو فروخت کرنا ہے تو پھر ایسی صورتحال پیدا ہوگی۔ پورٹ قاسم کے پہلو میں سٹیل مل نیلامی کیلئے تیار کھڑی ہے، پی آئی اے کی تیاری جاری ہے، سرکاری ادارے کو ختم کیا جا چکا ہے۔ لوگوں کو گھر بھیجا جارہا ہے۔ حکومت کیسے ممکنہ ترقی لا سکے گی جس کا قوم سے وعدہ ہے۔ دنیا اپنے شہریوں کی حفاظت کیلئے متحرک ہے۔ شہریوں کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ حکومتی اخراجات میں کمی کیلئے لوگوں کو بے روزگار اور اداروں کو فروخت کرکے بہتری لانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ایسی ترقی ممکن نہیں۔ عام شہری کبھی خوش حال نہیں ہوسکے گا۔ اداروں کی پرائیویٹائزیشن کا فیصلہ بہتر لیکن اگر اپنے مفادات کی آبکاری کرنی ہے، اداروں کو فاتح کرکے اپنے چند سو خاندانوں کو نوازنا ہے تو پھر ملک وہیں کھڑا رہے گا جہاں پہلے موجود تھا بلکہ مزید معاشی صورتحال خرابی کی طرف جائیگی۔ معاشی بہتری اسی صورت ممکن ہوگی جب فرد کی آمدن میں اضافہ ہوگا، قوم بچت کر سکے گی، ان بچتوں سے نیا کاروبار قائم ہوگا جس سے فرد خوش حال ہوگا لیکن بظاہر حکومتی پالیسی میں کوئی مضبوط ہوم ورک نظر نہیں آتا بلکہ قومی اثاثوں کی فروخت میں بندر بانٹ ہے۔ سرکاری اداروں کو فتح کرنے کی سوچ نے نظام کو کھوکھلا کر دیا ہے، آج کرپشن کھلے عام ہورہی ہے، حکومت کمیٹیاں بناکر خود کو بری الذمہ سمجھ لیتی ہے، کیسز کی فائلوں پر مٹی پڑی ہوئی ہے، ادارے کو کوئی پرواہ نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، سینیٹر فیصل واوڈا کے انکشاف سے معاملہ سامنے آیا ورنہ کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ ایسا کب تک چلے گا؟ سندھ سرکار کے محکمہ صحت کا ایک اور کارنامہ سامنے آگیا۔ سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کا زندہ بیٹا سرکاری ریکارڈ میں مردہ قرار دیدیا گیا اور رپورٹ عدالت کو جمع کرا کر گمراہ کیا گیا۔ ڈاکٹر لیاقت علی شاہ خیرپور کے سرکاری آنکھوں کے ہسپتال میں کنٹریکٹ پر انچارج مقرر ہیں۔ ملکی اداروں کا یہ حال ہے ایسی صورت حال میں حکومتی دعوے برائے نام ہیں۔

جواب دیں

Back to top button