مہمان اور میزبان

تحریر : ندیم اختر ندیم
مہمان سے اس کی پہلی محبت کے بارے پوچھا جارہا تھا، مہمان کی آنکھوں میں اگرچہ گئے وقتوں کے رنگوں کی چمک تھی، تاہم مارے حیا کے اس کی آنکھیں جھکی جارہی تھیں، مہمان سے اس کی پہلی محبت کے بارے کوئی ایک شخص نہیں بلکہ دوسرے بھی اس کھوج میں شریک تھے، نہ صرف مرد بلکہ خوبرو دوشیزائیں تک اس مہمان کی پہلی محبت کے بارے متفکر تھیں، کہ اس سے دریافت کیا جائے کہ اس کی پہلی محبت کون تھی، اگر مہمان نے کسی طرح یہ بات بتا ہی دی تو پھر اس سے اس کی دوسری محبت کا تذکرہ چھیڑ دیا گیا اور یہ کہ کیا محبت صرف ایک بار ہوتی ہے، یا بار بار ہوسکتی ہے، حتیٰ کہ اس سے یہ بھی پوچھا جارہا تھا کہ کیا ان دنوں بھی کوئی حسینہ اس پر فریفتہ ہے کہ نہیں، یہ ایک ٹی وی چینل کا پروگرام تھا، جس کا میزبان بلائے گئے مہمان سے ایسے سوال کر رہا تھا۔ اس ایک ٹی وی چینل ہی پر کیا موقوف، ایک سے زائد ٹی وی چینلز کے ایسے پروگرامز میں بلائے گئے مہمانوں سے ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں، نہ صرف ایسے سوالات بلکہ یکطرفہ محبت کے بارے بھی رائے لی جاتی ہے کہ اس بارے مہمان کیا رائے رکھتا یا رکھتی ہے، مہمان کو یہ سہولت دی جاتی ہے، اسے آمادہ کیا جاتاہے کہ وہ کیمرے کے سامنے اپنی محبت کو جو پیغام دینا چاہتا یا چاہتی ہے وہ دے سکتے ہیں۔ یوں محبتوں کے پیغام عام کئے جاتے ہیں، ایک پروگرام میں ایک صاحب تو ہر خاتون مہمان سے یہ تک کہہ اٹھتے ہیں مجھے آپ بہت اچھی لگتی ہیں، کیا میں آپ کو اچھا لگتا ہوں، مجھے آپ سے سچا پیار ہے، محبتوں کے فروغ کیلئے ایسے پروگرامز کے اینکرز صاحبان پوری محنت کرتے ہیں، گھروں میں لوگ اپنے بچوں کے ساتھ ایسے پروگرام دیکھ کر سوچتے ضرور ہیں کہ انہوں نے ایسے پروگرامز کو پھر سے دیکھنا ہے یا نہیں۔ علامہ اقبالؒ نے نوجوانوں کو مغرب کی ہلاکت انگیزیوں کے بارے آگاہ کیا اور اپنی تہذیب کی فلاح اور بقا میں پوری طرح سے ڈھل جانے کا درس دیا، لیکن شائد ہمارے یہ اینکر حضرات مغرب سے بھی کچھ آگے جاتے دکھائی دیتے ہیں، پہلے لوگ روحانی پیشوائوں کے پاس اپنے مسائل لے کر جاتے تھے، لیکن اب ایسے پروگرامز میں جاتے ہیں اور اپنے مسائل بیان کرتے ہیں۔ ان مسائل میں لڑکے، لڑکیاں اپنی گمشدہ محبت کے متلاشی نظر آتے ہیں یا وہ اپنی ناراض محبت کو منانے یا ان سے شکوئوں کیلئے ایسے پروگراموں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان پروگراموں کے کلپس عشاق سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے اور اپنے چاہنی والوں کو بھجواتے ہیں، اور بتاتے ہیں کہ اس نے اپنی فلاں گرل فرینڈ کے بارے فلاں ٹی وی پروگرام میں یہ بات کی ہے، بات کیا وہ تو دل کھول کر رکھ دیتے ہیں، اور کامیاب و کامران لوٹتے ہیں۔ بعض اوقات متوالوں کی ایسی کوششوں سے متاثر ہو کر ان کی چاہنے والیاں یا چاہنی والے انہیں اپنی نگاہ ملتفت سے بھی نوازتے
ہونگے، یوں اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے پاکستان، جس کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے، میں محبتوں کا کاروبار کیا جارہا ہے۔ ایسی آتشیں باتیں کہ جذبات بھڑک اٹھیں اور پھر باتوں کو دراز کرتے سلسلے شانوں پر بکھرے ہوئے بال، ہونٹوں پر مسکراہٹوں کی رقص کرتی تتلیوں میں محبتوں کی باتوں کے چمکتے جگنو، دیکھنے سننے والوں پر دو آتشہ کام کرتے ہیں۔ خواتین کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے اینکر کسی غیر ملکی ایجنسی کیلئے کام کرنے والے نمائندے محسوس ہوتے ہیں۔ ہم کوئی عالم دین نہیں، نہ مبلغ ہیں، لیکن ایمان کو جہاں تک بچایا جا سکے بچانا لازم ہے۔ ہم ایسے پروگرامز کے ذریعے جن ہیجان انگیزیوں سے کام لے رہے ہیں اس سے تربیت پا کر ہماری نوجوان نسل بہک کر کتنی دور نکل جائے گی، اس کی شائد ان کو خبر بھی نہ ہو۔ میں خود ایسے پروگرامز شوق سے دیکھتا ہوں، جس کی وجہ پروگرامز میں مزاح کا شامل ہونا ہے اور طنز و مزاح کو میں ادب کا اہم حصہ سمجھتا ہوں، بلکہ میں سمجھتا ہوں مزاح ایک سنجیدہ کام ہے، مزاح نگاری ایک تخلیقی عمل ہے ( جگت) کو، مزاح میں شامل نہیں کیا جاسکتا، البتہ تخلیقی جگت کو مزاح کے کسی کونے میں رکھا جا سکتا ہے۔ ہماری ہاں بہت اچھا مزاح لکھنے والے ہیں، جن کی مزاح نگاری میں تخلیقی عنصر پایا جاتا ہے، ہم بہت دور کی بات نہیں کرتے، مشتاق یوسفی کو پڑھئیے، پڑھتے آپ ہنس دیں گے اور داد بھی دے اٹھیں گے۔
طنز و مزاح ایک مشکل امر ہے، ہم سنجیدہ ادب کے تخلیقی عمل میں مزاح کو شامل کریں تو یہ اور مشکل ہو جاتا ہے، مزاح نثر میں ہو کہ شاعری میں اس کی اپنی ایک اہمیت اور قدر و منزلت ہے، لیکن مزاح میں غیر معیاری باتوں کو شامل کرنا مزاح نہیں بلکہ ایک سنگین نوعیت کا مذاق ہے اور یہ اتنا ہی خطرناک بلکہ وحشت ناک ہے جتنا ایسے پروگرامز میں حسن و جمال عشق و محبت کے معاملات کو ڈسکس کرنا ہے۔ ہنسنے اور ہنسانے کے لئے بھی معیاری مزاح لازم ہے، ایسا مزاح جس میں انسان بے ساختہ ہنس دے، نہ صرف ہنس دے بلکہ داد دئیے بغیر نہ رہ سکے، عہد حاضر میں سہیل احمد المعروف ( عزیزی) مناسب بات اور بہترین کام کرتے ہیں، ان کے پروگرام میں کہیں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہوتی۔ بس ایسے پروگراموں کے میزبانوں کو اپنے پروگرام میں سنجیدہ مزاح شامل کرکے قابل اعتراض باتوں سے گریز کرنا چاہئے، تاکہ ان کے ناظرین کو ان سے کوئی شکوہ نہ ہو۔
ندیم اختر ندیم