ColumnTajamul Hussain Hashmi

ماہ رمضان اور ہماری مصروفیات

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
مولانا حضرات کہتے ہیں کہ کھانے پینے کی زائد مقدار، لوگوں سے زیادہ میل جول، ضرورت سے زیادہ گفتگو یہ وہ چیزیں ہیں جن سے انسان کے باطن میں تبدیلی آتی ہے اور انسان رب سے دور ہوکر ان راستوں پر بھٹکنے لگتا ہے جس میں دنیاوی اور آخرت کی تباہی ہے۔ کتاب ’’پانچ منٹ کا مدرسہ‘‘ میں حضورؐ کا فرمان ہے کہ میری امت خیر پر رہے گی جب تک ان میں دو نشے سوار نہ ہو جائیں: نمبر1، عیش پسندی کا نشہ۔ 2، جہالت کا نشہ۔ آج ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو اس نشہ میں ہر بندہ مبتلا نظر آتا ہے۔ عیش پسندی نے ہماری قوم اور مسلمانوں کو معاشی طور پر کمزور کر دیا ہے، اس کی وجہ سے نفرت، تفرق نے سماجی معاشرتی برائیوں کو بڑھاوا دیا ہے۔ پہلے عورتوں کو پیٹ کا ہلکا سمجھا جاتا تھا، آج مرد اس بیماری کا شکار ہے اور خود کو عزت والا کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے ہمیں رمضان المبارک اور روزہ نصیب فرمایا، جس میں ہم اپنی ان کمزوریوں کو بہتر کر سکتے ہیں اور اپنی روح میں پاکیزگی لا سکتے ہیں۔ رمضان المبارک میں کم کھائیں، لوگوں کے ساتھ فضول گپ شپ نہ کریں اور خود کو قابو میں رکھیں، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے، جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالا جائے۔ (نسائی) آپﷺ سے سوال کیا گیا کہ کس چیز سے پھاڑ ڈالے؟ ارشاد فرمایا، جھوٹ یا غیبت سے۔ اے مسلمانو! رمضان المبارک نور ہی نور ہے، پس اس کے ایک ایک منٹ کو اللہ تعالیٰ کیلئے وقف کر دو اور اپنی زبانوں کو بہت قابو میں رکھو۔ روزہ ایک ڈھال ہے۔ یہ حدیث مبارکہ روزے کی روحانی اور اخلاقی فضیلت کو بیان کرتی ہے۔ روزہ صرف بھوک اور پیاس سے رکنے کا نام نہیں بلکہ یہ انسان کے اخلاق اور کردار کی تربیت کا بھی ذریعہ ہے۔ اس حدیث میں تین اہم نکات بیان کئے گئے ہیں: روزہ ڈھال ہے، روزہ انسان کو گناہوں اور جہنم کی آگ سے بچانے والا ذریعہ ہے، جیسے کوئی جنگجو ڈھال کے ذریعے دشمن کے وار سے محفوظ رہتا ہے ویسے ہی روزہ انسان کو گناہوں اور اللہ کے عذاب سے محفوظ رکھتا ہے۔ فحش باتوں سے اجتناب بھی لازم ہے، روزے کا مقصد صرف کھانے پینے سے رکنا نہیں بلکہ زبان، آنکھ اور کان کو بھی ہر قسم کی بری باتوں سے محفوظ رکھنا ہے۔ گندی زبان، جھوٹ، غیبت اور بے حیائی جیسی باتوں سے روزے کا اجر کم ہو جاتا ہے۔ جہالت کی باتوں سے بچنا بھی ضروری ہے، جہالت کا مطلب ہے جھگڑا، گالم گلوچ اور دوسروں کو تکلیف دینا۔ روزہ دار کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اگر کوئی شخص جھگڑا کرے تو اسے کہنا چاہئے ’’میں روزے سے ہوں‘‘ تاکہ لڑائی سے بچا جاسکے۔ سادہ غذا استعمال کریں۔ سادہ غذا آپ کو چست رکھے گی، آپ اپنی عبادت کو بھرپور وقت دے سکیں گے۔ اگر آپ فارمیلٹیز میں پڑ گئے تو تہجد، نوافل اور دعا کے سب مواقع چھن جائیں گے۔ سحری میں تہجد اور دعا کا اہتمام کریں،
حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رمضان اور روزہ کے حقوق کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں کہ رمضان کے فضائل کا تو کم و بیش لوگوں کو علم ہے لیکن رمضان کے حقوق کے متعلق بڑی کوتاہیاں ہوتی ہیں۔ اس طرف ذہن بھی نہیں جاتا کہ رمضان المبارک کے کچھ حقوق بھی ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان آنے سے لوگ دیگر چیزوں کا تو اہتمام کرتے ہیں مثلاً دودھ، شکر، کھجوریں، سویاں وغیرہ جمع کرلی جاتی ہیں۔ یہ سب اہتمام تو ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ کبھی ذہن میں نہیں آتا کہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا ہے، غیبت سے بچنے کا کوئی وعدہ کریں۔ یہ کہیں نہیں ہوتا کہ آپس میں مشورہ کرکے چند ساتھیوں نے یہ طے کرلیا ہو کہ اگر کوئی غیبت کرنے لگے تو ایک دوسرے کو روک دیں، ٹوک دیا کریں بلکہ ہم مل کر مزید ہوا دیتے ہیں۔ دین کے کام کو ایسا آسان سمجھ رکھا ہے کہ اس میں کسی کی مدد کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی، اس لئے اس کیلئے ذہن میں آتا ہی نہیں کہ آپس میں اچھے عمل طے کر لیں، قرآن مجید سننے کا مہینہ آرہا ہے۔ کوئی ایسا حافظ تلاش کرو جو اچھا اور درست پڑھتا ہو بلکہ اگر کوئی تجوید کے ساتھ پڑھنے والا حافظ تلاش کیا جائے۔ اکثر لوگ مخالفت کرتے ہیں کہ تراویح میں دیر لگے گی، بزرگوار ہیں، ان سے کھڑا نہیں ہوا جاسکتا۔ غرضیکہ رمضان المبارک کے حقوق میں بہت ہی کوتاہی اور بہت ہی لاپروائی کی جاتی ہے۔ حقوق کی ادائیگی کا اہتمام بھی کم ہے اور لوگوں کو ان حقوق کا علم بھی کم ہے۔

جواب دیں

Back to top button