اپنے حصے کی شمع جلانے میں مگن محمد منشاء ساجد

تحریر : رفیع صحرائی
عمومی طور پر ہم بندوں کو دو اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنے پاس بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی مزید کی خواہش اور طمع میں مرے جاتے ہیں۔ یہ آپ کو ہمیشہ وسائل کی کمی اور مسائل کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ عملی میدان میں سست اور دوسروں کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوتے۔ یہ محض باتوں کے دھنی ہوتے ہیں۔ دوسری قسم ایسے افراد کی ہے جو ہر لمحہ اور ہرگھڑی کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ان کے پاس بہت کچھ نہ بھی ہو تو یہ آپ کو وسائل کی کمی کا رونا روتے نظر نہیں آئیں گے۔ یہ وسائل خود پیدا کر لیتے ہیں۔ ان کے راستے میں پیش آنے والے مسائل خود حل ہوتے چلے جاتے ہیں۔
محمد منشاء ساجد بھی ایسے ہی 61سالہ ’’ نوجوان‘‘ ہیں جو گزشتہ 29برس سے عوام اور معاشرے کے شعور کو جگانے میں مصروف ہیں۔ یہ ایک سچے محبِ وطن پاکستانی ہیں جو معاشرے میں بگاڑ کا سبب بننے والے عناصر کا قلع قمع کر کے ملکِ عزیز کو امن، بھائی چارے اور محبت کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں۔
محمد منشاء ساجد 1964ء میں چونیاں کے نواحی گائوں پرسہ نوشہرہ میں بابا دل محمد کے ہاں پیدا ہوئے جو اس وقت گائوں کے واحد تعلیم یافتہ شخص تھے اور اسی بنا پر گائوں والوں میں بڑی قدر و منزلت سے دیکھے جاتے تھے۔ وہ طب یونانی کے ماہر اور جڑی بوٹیوں سے ادویہ سازی میں کمال رکھتے تھے۔ قدرت کی طرف سے انہیں خوب صورت آواز عطا کی گئی تھی۔ پنجابی کلاسیک اور صوفیانہ کلام سے انہیں خاص رغبت تھی۔ وہ محفلوں کی جان سمجھے جاتے تھے۔ محمد منشاء ساجد نے ایسے ماحول میں پرورش پائی جو روایتی اور سادہ تھا۔ والدِ بزرگوار کو دیکھ دیکھ کر اور ان کی شیریں زبان سے صوفیانہ کلام تواتر کے ساتھ سن کر ان کا رجحان بھی فطری طور پر پنجابی صوفیانہ شاعری کی جانب ہو گیا۔
محمد منشاء ساجد کے دل میں اپنے گائوں، علاقے اور ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کی خواہش اسے بے قرار کیے رکھتی تھی۔ 1996ء میں انہوں نے فلاحی، سماجی، ثقافتی، ادبی اور کھیلوں کی سرگرمیوں کوفروغ دینے کے لیے ’’ گُڈ وِشرز پاکستان‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور اپنی انتھک محنت، لگن اور خلوص کی بدولت اس تنظیم کو ملکی سطح پر روشناس کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ ’’ گڈ وشرز پاکستان‘‘ کے زیرِ اہتمام اب تک ہفتہ وار، ماہانہ اور سالانہ کی بنیاد پر سیکڑوں مشاعرے انعقاد پذیر ہو چکے ہیں جن میں ملک کے طول وعرض سے نامور شعراء کرام کی شرکت کو محمد منشاء ساجد اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔ انہوں نے 1996ء سے 2000ء تک شعراء کرام کی غیرمطبوعہ غزلیات پر ’’ غزل ایوارڈ‘‘ دینے کا منفرد سلسلہ جاری رکھا جو کتاب شائع نہ کروا سکنے والے شعراء کرام کی حوصلہ افزائی کا باعث بنا۔ اس سلسلے نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔ محمد منشاء ساجد خود بھی اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے ہیں۔ وہ چونیاں میں باقاعدگی سے ماہانہ مشاعرے کی روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ لاہور میں ہر تین ماہ بعد سہ ماہی مشاعرہ کا انعقاد بھی ان کے کریڈٹ پر ہے۔ محمد عباس مرزا شاعری میں ان کے استاد ہیں۔ انہیں اپنے استاد کی شاعری سے عشق ہے۔ 2003ء میں محمد منشاء ساجد نے اپنے استادِ محترم محمد عباس مرزا کی شاعری کا انتخاب ’’ مرزا عباس کے 272نشتر‘‘ کے عنوان سے گڈ وشرز پاکستان کے زیرِ اہتمام شائع کیا۔ اس کا دیباچہ بھی انہوں نے خود لکھا۔ 2011ء میں اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن بھی ان کی طرف سے شائع کیا گیا۔
محمد منشاء ساجد کی زندگی کا ایک اور خوب صورت پہلو یہ ہے کہ وہ ایک زبردست ’’ ٹریکر‘‘ بھی ہیں۔ 2017ء میں انہوں نے ٹریکنگ کا سلسلہ شروع کیا۔ 2022ء سے وہ ریگولر ٹریکنگ کر رہے ہیں۔ اب تک وہ چونیاں تا لاہور، چونیاں تا حویلی لکھا، چونیاں تا چیچہ وطنی اور چونیاں تا کشمیر مختلف مواقع پر ٹریکنگ کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی ٹریکنگ کے دوران پیش آنے والے واقعات کا تحریری مسودہ تیار کر لیا ہے جو سفرنامہ کشمیر کے نام سے منصہ شہود پر جلد ہی آ جائے گا۔ اس کے علاوہ اپنی شاعری کا انتخاب دو مجموعوں کی شکل میں ترتیب دے چکے ہیں۔ اس وقت کل چھ کتابوں کے مسودے ان کے پاس تیار اور اشاعت کے منتظر ہیں۔
2024 ء میں محمد منشاء ساجد نے ملک کے بدلتے موسمی حالات کے خطرے کو بھانپتے ہوئے ’’ سرسبز پاکستان‘‘ کے لیے اپنے حصے کی شمع جلانے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے چونیاں اور اس کے گرد و نواح کے علاوہ منڈی احمد آباد، قصور، اوکاڑا اور چیچہ وطنی سمیت پنجاب کے دیگر بہت سے شہروں میں جا کر شجرکاری کی۔ وہ اب تک ایک لاکھ سے زائد پودے خود اور اپنے دوستوں کے ہاتھوں دھرتی کے سینے پر سجا چکے ہیں۔
محمد منشاء ساجد 61سال کی عمر میں بھی تندرست و توانا اور چاک و چوبند ہیں۔ ان کا عزم پختہ اور حوصلہ جوان ہے۔ لوگ ان سے پیار کرتے ہیں۔ ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ انہیں بے وسیلہ نہیں ہونے دیتے۔ اللہ تعالیٰ ان کے جذبوں کو سدا جوان رکھے۔ ایسے لوگ ہی دھرتی کے ماتھے کا جھومر ہیں۔