ColumnFayyaz Malik

کیا عام دکانیں انتظامیہ کی حدود سے باہر ہیں ؟

 

تحریر : فیاض ملک
ہر حکومت اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے مہنگائی ختم کرنے کے دعوے تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر بات نعروں سے آگے نہیں جاتی، ہمارے ہاں رمضان المبارک کے قریب آتے ہی دو کام ضرور ہوتے ہیں، ایک حکومت کی طرف سے رمضان پیکیج اور رمضان بازاروں کا اعلان کر دیا جاتا ہے، دوسرا تاجروں کی جانب سے اشیاء کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے 20ارب روپے کے رمضان ریلیف پیکیج کا افتتاح کیا جو گزشتہ سال کے 7ارب کے پیکیج کے مقابلے میں3گنا زیادہ ہے، ادھر آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں 80رمضان سہولت بازاروں کے قیام کے حوالے سے وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کہتی ہیں کہ ان رمضان سہولت بازاروں میں معمول کے مطابق سستی اور معیاری اشیاء دستیاب ہیں، گھی، چینی، آٹا، دالیں، سبزیاں اور پھل عام مارکیٹ کی نسبت سستے داموں مل رہے ہیں۔ پنجاب حکومت نے کسی چیز پر سبسڈی ختم نہیں کی۔ لاہور میں10، راولپنڈی میں 8، جہلم، فیصل آباد، ننکانہ میں 3، 3بازار ہیں جبکہ دیگر اضلاع میں بھی رمضان سہولت بازار لگے ہیں۔ پنجاب حکومت تاریخ میں پہلی مرتبہ 30ارب روپے کا رمضان پیکیج لائی ہے جس کے تحت 30لاکھ خاندانوں میں نقدی کی صورت میں ان کے گھروں کی دہلیز تک پہنچا رہی ہے، ان رمضان بازاروں میں اشیاء مہنگی فروخت ہونے یا سبسڈی ختم کرنے کا صرف پروپیگنڈا ہے، شہریوں کو فوری ریلیف دینے کیلئے 80رمضان سہولت بازاروں کا قیام یقینا صوبائی حکومت کا قابل تحسین اقدام ہے لیکن اس صورتحال میں حکومت سے یہ بھی ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ آخر ان رمضان بازار لگانے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے؟۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ لاہور سمیت ملک کے تقریباً تمام شہروں میں ان رمضان سہولت بازاروں کے علاوہ اوپن مارکیٹ میں عام دکانوں پر اشیائے ضروریہ گھی، خوردنی تیل، سبزی، پھل، چینی، چکن، دالیں، بیسن، چاول کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں جوکہ مافیاز کی ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور حرام خوری جیسی ہوس کا نتیجہ ہے جبکہ اس صورتحال میں عوام کا یہ سوال پوچھنا جائز ہے کہ کیا عام دکانیں اس ملک کی حدود سے باہر واقع ہیں یا وہاں قیمتوں پر حکومت کا کوئی اختیار نہیں ہے؟، اس ساری صورتحال میں پرائس کنٹرول مجسٹریٹ بھی غائب ہیں، جن کی ذمہ داری ناجائز منافع خوروں کو پکڑنا اور قیمتوں کو قابو میں رکھنا ہے؟، اور اگر ان افسران کی فوج ظفر موج کی موجودگی میں بھی عام دکانوں پر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کئی گنا بڑھ جانی ہیں تو پھر ان سب کو ملازمتوں سے فارغ کرکے ان پر خرچ ہونے والی رقم تو بچاکر کسی عوامی فلاح کے منصوبے پر لگائی جا سکے، دیکھا جائے تو قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے میکانزم میں عام طور پر تین مراحل ہوتے ہیں: جن میں اشیائے ضروریہ کی طلب کے مطابق فراہمی، ان کی قیمتوں کا تعین اور مقرر کردہ قیمتوں کے مطابق اشیاء کی فروخت کرنا شامل ہیں، لیکن ہمارے ہاں ان تینوں کا بھی کوئی مخصوص میکانزم موجود نہیں ہے، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مقرر کرنے کیلئے عام طور پر ضلعی افسروں کے ذریعے سے ملحقہ اضلاع کے مقرر کردہ نرخ لے لئے جاتے ہیں، پھر ان کی روشنی میں مکھی پر مکھی مارتے ہوئے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا ہے۔ مارکیٹ میں کوئی شے کس قیمت پر مل رہی ہے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا جاتا، تو یوں ہر ڈپٹی کمشنر اپنی عزت بچانے کیلئے اور اپنے نمبر بنانے کی غرض سے دوسرے اضلاع کے مطابق یا اس سے کم قیمت مقرر کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کی واہ واہ ہو جائے، میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آ ج بھی کوئی ڈپٹی کمشنر وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی طرف سے مقرر کردہ نرخ پر گوشت، دودھ یا دہی مارکیٹ میں فروخت ہو رہاہے۔ ہم لاہور کی ہی مثال لے لیتے ہیں۔ یہاں پر ڈپٹی کمشنر صاحب نے مٹن کا فی کلو نرخ1350، بیف کا 700 روپے، دہی کا180روپے اور دودھ کا فی لٹر نرخ 160روپے مقرر کر رکھا ہے، لیکن مارکیٹ میں یہ اشیائے ضروریہ بالترتیب کم از کم2500، 1200، 220، اور 210روپے کے حساب سے فروخت ہو رہی ہیں، ہر دکان دار کا اپنا اپنا ریٹ ہے، جس کی وجہ سے شہری سخت پریشان ہیں۔ دکان داروں سے جب مہنگائی کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ سارا ملبہ انتظامیہ پر ڈال دیتے ہیں کہ جب ہمیں چیزیں مہنگی ملیں گی تو ہم سستی کہاں سے دیں؟۔
اب سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ہماری تمام حکومتیں مہنگائی کے جن کو قابو میں لانے میں ناکام کیوں ہیں؟، مسئلہ کہاں پر ہے:قوانین میں یا ان کی عملداری میں؟، اس تمام تر صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں بطور صحافی اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہمارے موجودہ قوانین میں کوئی بڑا سقم موجود نہیں ہے، صرف ان کی عملداری میں سرکاری افسروں کی بدنیتی و بد دیانتی، ان کی سیاسی مصلحتیں، سیاسی دبائو اور ان کے ذاتی مفادات آڑے آ جاتے ہیں، ان بے چاروں کو اپنی پوسٹنگ بچانے کیلئے یا اچھی پوسٹنگ حاصل کرنے کیلئے نہ جانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں؟، کس کس کا احسان مند ہونا پڑتا ہے؟، اور
احسانات کا بدلہ چکانے کیلئے انہیں نہ جانے کہاں تک جانا پڑتا ہے؟۔ موجودہ حالات یہ ہے کہ اس وقت پنجاب کے 39اضلاع میں 1260کے لگ بھگ پرائس مجسٹریٹ، یعنی اوسط 32مجسٹریٹ فی ضلع کام کر رہے ہیں، ان مجسٹریٹ صاحبان کا کام کرنے کا طریقہ کیا ہے، ذرا یہ بھی ملاحظہ فرمائیں؟۔ انہیں ڈپٹی کمشنر صاحبان کی طرف سے جرمانے کے ٹارگٹ دیئے جاتے ہیں۔ اس کی رپورٹ روزانہ کی بنیاد پر حکام بالا کو بھیجی جاتی ہے۔ اس رپورٹ میں پہلا کالم معائنہ کا ہوتا ہے، دوسرا کالم جرمانے کا، تیسرا کالم سزا کا اور چوتھا کالم ایف آئی آر کے اندراج کا ہوتا ہے۔ یہ مجسٹریٹ صاحبان با امر مجبوری ہفتے میں ایک یا دو دن دفاتر سے باہر نکلتے ہیں، چند غریب ریڑھیوں اور ٹھیلے والوں کو پکڑتے ہیں، ان سے جرمانہ وصول کرکے، مہنگائی کنٹرول ہے، سب اچھا ہے کی رپورٹ روزانہ کی بنیاد پر حکام بالا کی خوشنودی کی خاطر ارسال کرتے رہتے ہیں۔
موجودہ مہنگائی کے حوالے سے سینئر صحافی کامران خان نے اپنی سوشل میڈیا کی وال پر موجود تحریر بھی مہنگائی کنٹرول کے دعوئوں کی قلعی کھول دی ہے، من و عن تحریر کچھ یوں ہے کہ ای میرے پروردِگار رحمتوں کا مہینہ رمضان آ گیا، تیرے بندوں نے اس ماہ مبارک میں مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا ہے، اشیائے خورد و نوش کی فہرست میں ہر مہینے آنیوالی 450والی کھجور آج 590کی لایا ہوں، ہر مہینے بچوں کیلئے آنیوالا روح افزاء آج 60روپے مہنگا آیا ہے، ہر مہینی آنیوالا آٹا مارکیٹ سے غائب ہونے کے باعث آج خرید نہیں سکا، 360روپے والا چاول 380کا لایا ہوں، بوندی پیکٹ 80والا 100کا ہوگیا ، 1950والا گوشت 2150ہے ، 1120والا گوشت آج 1390میں آیا ہے، آئل ، ساگو دانہ ، صابن، سرف، مصالحے، دالیں تقریباً تمام اشیاء پچھلی قیمتوں سے اضافی ہیں، نوٹ: سب سے مزے کی بات چینی گھر آکر تولی تو وزن میں کم ہے، فروٹ وغیرہ کا معاملہ ابھی اس سے الگ ہے، میرے مولا ! آپ تو سب ہی جانتے ہیں، یا اللہ تو میرے حال پہ رحم فرما دے، مجھ پر اپنا خاص کرم فرما دے، میرے لیے آسانیاں پیدا فرما، آمین! اے میرے پروردِگار رحمتوں کا مہینہ رمضان آ گیا، تیرے بندوں نے اسے طوفان بنا دیا، اہم نوٹ: جیسے شراب حرام ہے، جیسے زنا حرام ہے، ایسے ہی ناجائز منافع، کم تولنا، جھوٹ بول کر سودا بیچنا، اچھا دکھا کر برا دینا، دھوکہ، یہ سب کام بھی حرام ہیں، آپ شراب نہیں پیتے، زنا نہیں کرتے، دیکھ لیں پھر بھی آپ حرام میں ملوث تو نہیں؟۔ خود کو برائی سے پاک کریں۔
قارئین کرام! کامران خان کی یہ تحریر ایک عام آدمی کی فریاد ہے جو وہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے کر رہا ہے کہ ( بابوکریسی) کی مہنگائی کنٹرول کارکردگی کے دعوئوں جھوٹ کا پلندہ ہیں، وہ ان پر یقین کرنے کی بجائے خود بھیس بدل کر صوبے کے کسی بھی بازار میں جاکر خریداری کریں تاکہ ان کو اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی ہوئی خود ساختہ قیمتوں کا اندازہ ہوسکے، ’ پنجاب کی یہ دھی رانی‘ فوری طور پر کنٹرولڈ ریٹس پر عملدرآمد اور منافع خوروں کیخلاف عملی طور پر ایکشن لے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ ذخیرہ اندوز مافیا پر ہاتھ ڈالا جائے ان کا ذخیرہ کیا گیا مال باہر آئے گا تو ہی مہنگائی کے طوفان کی شدت کچھ کم ہو سکے گی۔

جواب دیں

Back to top button