Column

کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ نہیں امن کی ضرورت ہے

محمد ناصر شریف

یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی نے وائٹ ہائوس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی نائب صدر جے ڈی وینس سے کشیدگی کے بعد ایک ویڈیو پیغام جاری کر دیا۔ وائٹ ہائوس میں جمعے کو ہونے والی ملاقات میں ولودیمیر زیلنسکی، ڈونلڈ ٹرمپ اور جے ڈی وینس کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔ اس ملاقات کے دوران زیلنسکی نے جب امریکا کی مجوزہ جنگ بندی کی شرائط کو قبول کرنے سے انکار کیا تو ٹرمپ اور وینس نے ان پر ’’ ناشکری‘‘ کا الزام عائد کیا۔اب لندن میں روس یوکرین جنگ کے حوالے سے اہم سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد یوکرینی صدر زیلنسکی نے سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر جاری کیے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ہر کوئی اصل مسئلے پر متحد ہے، حقیقی امن کے قیام کے لیے ہمیں حقیقی تحفظ کی ضمانتوں کی ضرورت ہے اور برطانیہ، یورپی یونین اور ترکی کا بھی یہی موقف ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ بلاشبہ ہم امریکا کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور ہم امریکا سے ملنے والی تمام تر مدد کے شکر گزار ہیں۔ یوکرینی صدر نے کہا کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب ہم امریکا کے شکر گزار نہ ہوئے ہوں اور یہ شکر گزاری ہماری آزادی کے تحفظ کے لیے ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ یوکرین میں ہماری مشکلات سے نکلنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمارے شراکت دار ہمارے لیے اور اپنی سلامتی کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں۔
ولودیمیر زیلنسکی نے یہ بھی کہا ہمیں کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ نہیں بلکہ امن کی ضرورت ہے اور اسی لیے ہم نے یہ کہا کہ حفاظتی ضمانتیں اس کی کلید ہیں۔ ٹی وی پر براہ راست دکھائی جانے والی اوول آفس کی کارروائی میں جب بحث چھڑ گئی تو اس نے پوری دنیا کو ششدر کر دیا۔ امریکی صدر اور ان کے مہمان یوکرینی صدر اونچی آواز میں ایک دوسرے سے جملوں کا تبادلہ کرتے رہے جبکہ یہ بحث امریکی نائب صدر کے تبصرے کی وجہ سے شروع ہوئی جو یوکرینی صدر پر انگلی اٹھا کر تنقید کرتے نظر آئے۔
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے یوکرینی صدر کو ایسے جال میں پھنسایا کہ وہ غلطی کر بیٹھے۔ جی ہاں، بہ ظاہر یہ اچانک شروع ہونے والی بحث تھی لیکن یہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔ یہ صورت حال ٹرمپ کے ’’ میک امریکا گریٹ اگین‘‘ کے حامیوں کو خوش کرنے کے لیے پیدا کی گئی تھی۔ امریکی دائیں بازو کے میڈیا نے اس بحث پر جیسا ردعمل دیا، تعریف کی کیونکہ اس سے ان کے اس موقف کو تقویت ملی جو وہ بارہا اختیار کر رہے تھے کہ امریکا ایک بے معنی جنگ میں اپنا پیسہ جھونک رہا ہے۔
روس اور یوکرین تنازع پر مغرب تقسیم نظر آرہا ہے ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی ہم منصب ولودومیر زیلنسکی کے درمیان جھڑپ کے بعد لندن میں 18ممالک کا یوکرین کی حمایت میں اجلاس ہوا، یورپی ممالک نے یوکرین کی حمایت کیلئے عالمی اتحاد تشکیل دینے اور دفاعی اخراجات بڑھانے پر اتفاق کرلیا ہے، برطانوی نیوز ایجنسی کے مطابق یورپی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وہ ٹرمپ کو دکھائیں گے کہ وہ امریکا کے بغیر بھی براعظم کا دفاع کر سکتے ہیں ، برطانوی وزیراعظم اسٹارمر کیئر نے کہا ہے کہ برطانیہ، یوکرین اور فرانس سمیت دیگر ممالک نے مرضی کے حامل ممالک کا اتحاد ( کولیشن آف ولنگ) تشکیل دینے پر اتفاق کرلیا ہے، یہ اتحاد مستقبل میں بھی روسی جارحیت کے خلاف اقدامات کرے گا جبکہ یوکرین کی حمایت اور جنگ بندی کے حوالے سے منصوبہ ٹرمپ کے ساتھ زیر بحث لایا جائے گا، قیام امن کیلئے کسی بھی مذاکرات میں یوکرین کی شمولیت ضروری ہے۔ اطالوی وزیراعظم جارجیا میلونی نے تقسیم کے خطرے کو دور کرنے کیلئے اتحاد کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے ، نیٹو اور یورپی کمیشن کے سربراہان نے یورپ سے دوبارہ مسلح ہونے اور دفاعی اخراجات بڑھانے کا مطالبہ کر دیا ہے، پولینڈ کے وزیراعظم ڈونلڈ ٹسک نے کانفرنس کے بعد کہا کہ یورپ اب جاگ اٹھا ہے، یوکرین کے معاملے پر امریکا میں بھی تقسیم واضح نظر آرہی ہے، ریبپلکن رہنمائوں بشمول امریکی مشیر برائے قومی سلامتی مائیک والٹز اور امریکی ایوان نمائندگان کے ریپبلکن اسپیکر مائیک جانسن نے یوکرینی صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے جبکہ ڈیموکریٹ رہنما سینیٹر کرسی مرفی کا کہنا ہے کہ ’’ وائٹ ہائوس کریملن کا بازو بن گیا ہے‘‘۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے یوکرین جنگ کے خاتمے کیلئے ٹرمپ کی عقلمندی کی تعریف کرتے ہوئے یورپی رہنمائوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ یوکرین کے گرد جمع ہوکر اس جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں۔
لنکاسٹر ہائوس میں ہونے والے اجلاس کی میزبانی برطانوی وزیر اعظم کیئرسٹارمر نے کی جس کے اختتام پر یوکرین میں امن کے لیے چار نکات پر اتفاق ہوا۔ اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ کسی بھی امن مذاکرات میں ’’ کیف ، یعنی معدنیات سے بھرے علاقے‘‘ کو شامل کیا جائے گا جبکہ یورپی رہنما مستقبل میں روسی جارحیت کو روکنے کے لئے اقدامات کریں گے ۔ یوکرین کے لئے فوجی امداد کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ یوکرین کے دفاع اور وہاں امن کی ضمانت کے لئے ’’ مرضی کے حامل ممالک کا اتحاد‘‘ قائم کیا جائے گا جبکہ برطانیہ یوکرین کو نئے میزائلوں کی خریداری کے لئے 1.6ارب پائونڈ دے گا۔ ان نکات کو امریکی صدر کے سامنے بھی پیش کیا جائیگا، یورپی رہنمائوں نے اتفاق کیا کہ ٹرمپ کو یہ دکھانے کے لیے دفاع پر زیادہ خرچ کرنا چاہیے کہ براعظم اپنی حفاظت کر سکتا ہے اور بہت سی اقوام پہلے سے ہی مالی اخراجات کے ساتھ یہ جدوجہد کر رہی ہیں، کیئر اسٹارمر نے کہا کہ کسی بھی امن معاہدے میں اہم کردار یورپ کو ادا کرنا ہوگا لیکن اس معاہدے کے لیے امریکا کی حمایت ضروری ہوگی۔ یورپ کی سلامتی کے لئے ضروری ہے کہ امریکا کے ساتھ قریبی ہم آہنگی میں کام کرے۔ اجلاس کے بعد صدر ولادیمرزیلنسکی اور برطانوی بادشاہ چارلس کی ملاقات بھی ہوئی۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ صدر زیلینسکی نے کنگ چارلس سے ملاقات کے دوران بھی سوٹ کے بجائے فوجی طرز کی سیاہ شرٹ زیبِ تن کی ہوئی تھی۔
نیٹو کے سربراہ مارک روٹے نے سربراہی اجلاس کے موقع پر کہا کہ یورپ اتحاد کو مضبوط رکھنے کے لئے اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ یورپ میں سب کو مزید رقم دینا پڑے ہوگی۔ یورپی کمیشن کی سربراہ ارسولا وان ڈیر لیین نے بھی متنبہ کیا کہ ہمیں فوری طور پر یورپ کو دوبارہ مسلح کرنا ہوگا، وان ڈیر لیین نے کہا کہ وہ جمعرات کو یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں ایک جامع منصوبہ پیش کریں گی، انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں دفاع میں اضافہ کرنا ہوگا اور ہمیں بڑے پیمانے پر دفاعی خرچ بڑھانا ہوگا۔
امریکا کے موجودہ صدر ٹرمپ ملکی معاملات کو کاروبار کی طرح چلانا چاہتے ہیں اور ان کی پالیسیاں نجی سیکٹر کے ایسے سی ای او کی طرح ہے جو ’’ لین دین‘‘ پر یقین رکھتا ہے۔ وہ متعدد بار یہ پوچھتے نظر آتے ہیں کہ آخر امریکا کیوں یورپ کی سلامتی کے لیے ادائیگیاں کرے جبکہ وہ خود خسارے کا شکار ہے؟ ٹرمپ مبالغہ آرائی کرتے ہیں حتیٰ کہ اعداد و شمار کے معاملے میں جھوٹ بھی بولتے ہیں جیسے انہوں نے کہا کہ امریکا نے یوکرین جنگ پر 350ارب ڈالر خرچ کیے جبکہ حقیقت میں یہ رقم 185ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
موجودہ صورتحال میں یورپی یونین کو یہ احساس ہو رہاہے کہ اسے امریکا پر انحصار کرنے کے بجائے خود کو مضبوط کرنا ہوگا، اگر ایسا ہوتا ہے اور امریکا کے مدمقابل یورپی یونین کھڑی ہوتی ہے تو امید ہے دنیا میں مثبت تبدیلی رونما ہوں۔ تمام تر معاملے میں واحد مثبت چیز یہ نظر آرہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر جنگ کے لیے ناپسندیدگی ظاہر کی ہے۔

جواب دیں

Back to top button