Column

رمضان المبارک:بندگی کی معراج اور تربیت کا مہینہ

تحریر : عبد القدوس ملک
رمضان کا چاند نظر آتے ہی فضائوں میں نورانی خوشبو گھلنے لگتی ہے۔ دلوں پر عجب کیفیت طاری ہوتی ہے، جیسے روحیں مدتوں کے پیاسے سمندر پر جھک جائیں۔ یہ ماہِ مقدس صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں، بلکہ اپنے اندر ایک پورا پیغام چھپائے ہوئے ہے۔ روزہ ظاہری عبادت بھی ہے اور باطنی انقلاب بھی۔ یہ اللہ اور بندے کے درمیان ایسا خالص تعلق ہے، جس میں دکھاوا نہیں، صرف خالص نیت اور خالص محبت شامل ہوتی ہے۔
روزہ کب فرض ہوا: ہجرت کے دوسرے سال جب مدینہ کی فضائوں میں اسلام کا نیا سورج چمک رہا تھا، اسی وقت روزے فرض ہوئے۔ قرآن مجید میں ہے کہ ’’ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے، جیسے تم سے پہلے امتوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو‘‘۔ ( البقرہ: 183)۔
گویا روزہ صرف بھوک اور پیاس نہیں، بلکہ یہ دل کی زمین میں تقویٰ کے بیج بونے کا موسم ہے، جو ایمان کی تازگی اور روحانی روشنی کا ذریعہ بنتا ہے۔ رمضان صرف ایک مہینہ نہیں، بلکہ تربیت گاہ ہے۔ یہ صبر کا سبق دیتا ہے، شکر کا احساس دلاتا ہے، دوسروں کے دکھ درد سے جوڑتا ہے اور اللہ سے ٹوٹے ہوئے رشتے کو جوڑنے کا سنہری موقع دیتا ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا اور اسی میں شبِ قدر کا انعام چھپا ہے۔
روزے کی روحانی فضیلت: حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا‘‘۔ یہی وہ عبادت ہے جس میں ریاکاری کا دروازہ بند ہے۔ بھوک کی خلش میں محبت کا رنگ ہے اور پیاس کی شدت میں عبادت کا لطف چھپا ہے۔ روزہ دار کے منہ کی خوشبو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
روزہ کیا سکھاتا ہے : روزہ محض کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ یہ تربیت کا مکمل نصاب ہے۔ یہ بھوک کے پردے میں دوسروں کا درد سمجھاتا ہے۔ یہ پیاس کے پیچھے نعمتوں کی قدردانی سکھاتا ہے۔ یہ خواہشوں پر قابو پانے کا ہنر دیتا ہے۔ یہ ضبطِ نفس کا شاہکار بناتا ہے۔ یہ زبان کو جھوٹ سے، آنکھ کو بے حیائی سے اور دل کو کینہ سے پاک کرتا ہے۔ روزہ کیوں ضروری ہے: یہ اللہ کا حکم ہے، جس سے روگردانی گناہِ کبیرہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ خودشناسی اور اللہ شناسی کا ذریعہ بھی ہے۔ جدید سائنس کہتی ہے کہ روزہ جسم کو زہریلے مادوں سے پاک کرتا ہے، مگر دین کہتا ہے کہ یہ دل کو برائیوں کے زہر سے بھی صاف کرتا ہے۔ یہ عبادت نہیں، زندگی کا ایک نیا رخ ہے، جو انسان کو اپنی ذات سے نکال کر انسانیت کے درد سے جوڑتا ہے۔
رمضان میں مساجد کا نور: رمضان آتے ہی مساجد خوشبوئوں سے مہکنے لگتی ہیں۔ نمازیوں کے قدموں کی آہٹ اور تلاوتِ قرآن کی صدائیں ایک سماں باندھ دیتی ہیں۔ مسجدیں عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ تربیت گاہ اور اصلاحِ معاشرہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔ افطار کے دسترخوان سادگی اور سخاوت کا حسین امتزاج پیش کرتے ہیں۔
نمازِ تراویح اور قرآن کا نور: رمضان کی راتیں تراویح کے بغیر ادھوری ہیں۔ عشاء کے بعد جب حافظ قرآن تراویح میں قرآن سناتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے آسمان سے وحی کی خوشبو اتر رہی ہو۔ دل نرم پڑ جاتے ہیں، آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور ہر سانس اللہ کی رحمت کو پکارتی ہے۔
شبِ قدر اور اعتکاف کا حسن: رمضان کا سب سے حسین لمحہ شبِ قدر ہے، جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ یہی وہ رات ہے جب اللہ اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اسی رات کی تلاش میں آخری عشرے میں مساجد میں اعتکاف ہوتا ہے، جہاں دنیا سے کٹ کر صرف اللہ سے جڑنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ روحانی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
افطاری اور سماجی محبت: رمضان میں افطار کروانے کا اجر بے حد ہے۔ روزہ دار کو کھجور اور پانی سے افطار کروانے والے کو روزے دار جتنا ثواب ملتا ہے۔ رمضان غریب اور امیر کے درمیان فاصلے مٹاتا ہے اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔ روزہ عبادت بھی ہے، تربیت بھی اور محبت بھی۔ یہ دلوں کو جوڑتا ہے، نفس کو قابو میں کرتا ہے اور انسان کو انسانیت کے قریب کرتا ہے۔ رمضان کا اصل پیغام یہی ہے کہ خود کو بدلو، دل کو بدلو، زندگی کو بدلو۔ یہی تبدیلی بندے کو اللہ کا محبوب بناتی ہے اور یہی روزے کا حقیقی مقصد ہے۔
رمضان المبارک رحمتوں، برکتوں اور بخششوں کا موسمِ بہار ہے۔ یہ صرف عبادات کا مہینہ نہیں بلکہ تزکیہ نفس، اصلاحِ کردار اور معاشرتی ہمدردی کا پیغام بھی ہے۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو انسان کو اپنے نفس کی غلامی سے نکال کر بندگانِ خدا کا ہمدرد اور خدمت گار بناتا ہے۔ روزہ انسان کے اندر بھوک کی شدت اور پیاس کی لذت کو محسوس کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے تاکہ وہ ان لوگوں کے درد کو سمجھے، جن کی جھولیاں خالی اور دسترخوان ویران ہیں۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ اور کھانا کھلاتے ہیں، اس کی محبت کے باوجود، مسکین اور یتیم اور قیدی کو‘‘۔ ( سورۃ الدھر: 8)۔ یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ حقیقی نیکی دوسروں کے لیے ایثار میں پوشیدہ ہے، اور رمضان اسی ایثار کا عملی مظہر ہے۔ جب ہم سحری کے وقت اپنے دسترخوان پر بیٹھتے ہیں، اور افطار کے وقت طرح طرح کی نعمتیں کھاتے ہیں، تو یہی وقت ہے اپنے اندر یہ سوال بیدار کرنے کا کہ کیا ہمارے ہمسائے، ہمارے محلے کے یتیم، مسکین اور بے سہارا بھی اسی سہولت میں ہیں؟۔
نبی کریمؐ نے فرمایا : ’’ وہ شخص مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کر سو جائے اور اس کا ہمسایہ بھوکا ہو۔ ‘‘ ( المعجم الاوسط)۔
روزہ صرف اپنے پیٹ کو بھوکا رکھنے کا نام نہیں، بلکہ اپنے دل کو دوسروں کے لیے بیدار کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک تربیت ہے کہ جو بھوک اور پیاس ہمیں چند گھنٹے کے لیے پریشان کرتی ہے، وہی بھوک اور پیاس کسی غریب کی عمر بھر کی ساتھی بن جاتی ہے۔
نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ جس نے کسی روزہ دار کو افطار کروایا، اس کے لیے روزہ دار کے برابر اجر ہے، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی ہو‘‘۔ ( ترمذی)۔
یہ حدیثِ مبارکہ محض افطاری کرانے کا ذکر نہیں بلکہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مسلمان کا ایمان مکمل ہی تب ہوتا ہے جب وہ اپنی ذات کے ساتھ دوسروں کی فکر بھی کرتا ہے۔ وہ اپنے دسترخوان پر دوسروں کو جگہ دیتا ہے اور اپنی خوشیوں میں غریبوں کو شریک کرتا ہے۔
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ تم نیکی کو ہرگز نہ پا سکو گے جب تک اپنی محبوب چیز میں سے خرچ نہ کرو‘‘ ۔ ( آل عمران: 92)۔
یہ محبوب چیزیں ہمارا مال، ہماری راحت، ہمارا وقت، ہماری خوشیاں اور ہمارے دسترخوان سب شامل ہیں۔ رمضان ہمیں سکھاتا ہے کہ نیکی صرف نوافل، اذکار اور اعتکاف میں نہیں بلکہ اپنے اردگرد ضرورت مندوں کو تلاش کرنے اور ان کے چہروں پر خوشی بکھیرنے میں بھی ہے۔
خدمتِ خلق اور سحری و افطاری میں دوسروں کو شریک کرنا، نہ صرف ہمارے رزق میں برکت کا باعث ہے بلکہ یہ عرشِ الٰہی سے رحمتوں کے نزول کا سبب بھی بنتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ سب سے زیادہ سخی رمضان میں ہوتے تھے، اور آپؐ رمضان میں خیر و بھلائی میں تیز ہوا سے بھی زیادہ بڑھ جاتے تھے۔ ( صحیح بخاری)۔
یہی وہ درس ہے جو رمضان ہمیں دیتا ہے کہ اپنی عبادت کو خدمت کے نور سے روشن کرو۔ اپنے نفس کی بھوک کو دوسروں کی بھوک مٹانے کا وسیلہ بنائو۔ اپنے دسترخوان کو غریبوں کے لیے وسیع کرو اور اپنے مال میں مسکینوں کا حق ادا کرو۔آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی اصل روح کو سمجھنے، بھوک کا احساس کرنے اور خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
عبدالقدوس ملک

جواب دیں

Back to top button