فرنٹ بیک دونوں چینل

تحریر : سیدہ عنبرین
اولاد سب کو عزیز ہوتی ہے انسان ہوں یا جانور، کہتے ہیں بلی کے پائوں جلنے لگیں تو وہ اپنے بچوں کو پیروں تلے رکھ لیتی ہے، بلی ایسا کرتی ہے یا نہیں کچھ معلوم نہیں، البتہ سیاسی بلے جو کچھ کرتے ہیں وہ زندگی میں متعدد بار دیکھا۔ سیاسی بلوں کے پائوں نہیں جلتے، ان کا سر حد درجہ گرم ہو جاتا ہے، ایسے میں وہ اپنے سیاسی بچوں کو اپنے سر پر سوار کر لیتے ہیں تاکہ وہ اپنا منہ بند رکھیں۔
صوبہ خیبر سے تعلق رکھنے والے ایک بچے نے اچانک زبان کھولی تو زلزلہ آ گیا، یہ صاحب عمر کے اعتبار سے تو بزرگ ہیں، لیکن ہر بزرگ کے اندر ایک بچہ ہوتا ہے، لہٰذا اس بچگانہ زلزلے کو روکنے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام شروع کر دیا گیا۔ موصوف نے بیان جاری کیا کہ انہیں سیاسی جماعت بنانے کا کہا گیا، انہوں نے اینٹ روڑا اکٹھا کیا اور سیاسی جماعت بنا لی، پھر وعدہ کیا گیا کہ ملک بھر سے چن چن کر اہم شخصیات کو اس میں شامل کرایا جائے گا، مگر ایسا نہ ہو سکا، پھر وعدہ کیا گیا کہ تمہیں الیکشن میں عظیم الشان کامیابی دلوائی جائے گی۔ عظیم الشان کامیابی کیا ملتی ان کو اپنے ہی گھر سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، وہ قومی اسمبلی کا انتخاب ہار گئے، مسلم لیگ ( ن) سے تعلق رکھنے والے امیدوار نے انہیں شکست دے دی۔ اگر الیکشن میں اپنی نشست جیت جاتے تو کم از کم ایک وفاقی وزارت تو پکی تھی، اب ہارے ہوئے کی جھولی میں کوئی کیا ڈالے، لیکن گرم سیاسی بیان جاری کرنے کے بعد انہیں وفاقی حکومت میں مشیر مقرر کر دیا گیا ہے، ان کا عہدہ اور مراعات وفاقی وزیر کے برابر ہوں گی، یہ ہے جمہوریت کا وہ مکروہ چہرہ جو صرف پاکستانی جمہوریت میں نظر آتا ہے۔ پارٹی کے اپنے جیتے ہوئے ممبر قومی اسمبلی کو کسی نے پوچھا تک نہیں کہ کس حال میں ہو، نوازشات کی برسات ادھر شروع ہو گی جو اپنی نشست نہ بچا سکے۔ یاد رہے جنہیں وفاقی حکومت میں مشیر مقرر کیا گیا ہے وہ مسلم لیگ ( ن) سے تعلق نہیں رکھتے، ان کا تعلق بلکہ کسی حد تک ناجائز تعلق ایک نوزائیدہ جماعت سے ہے، جسے ڈھنگ کا نام بھی نہیں مل سکا۔
کم ریکٹر سکیل پر آنے والا سیاسی زلزلہ تھم گیا ہے، اس کے آفٹر شاکس بھی نہیں آئیں گے، لیکن ایک مختلف نوعیت کا سیاسی بھونچال کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔ صوبہ خیبر ہی کی ایک اور سیاسی جماعت کے سربراہ سے بھی دلکش وعدے کئے گئے تھے، ایک بھی وفا نہیں کیا گیا، یہ بھونچال وقتی طور پر رکا ہے، اس کی وجہ ایک بڑا واقعہ ہے، جس میں 8 افراد اور ایک جماعت کے سربراہ جاں بحق ہو گئے ہیں۔ جے یو آئی ( س ) کے سربراہ مولانا حامد الحق مدرسے کے صدر دروازے سے اپنی رہائش گاہ کی طرف جا رہے تھے کہ ایک شخص نے انہیں گلے ملنے کیلئے روکا، یہ خود کش بمبار تھا، جس نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس واقعے میں 20سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے۔ مولانا حامد الحق مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے تھے۔ مولانا سمیع الحق کو چند برس قبل ان کی رہائش گاہ پر نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا، ان کے قاتل کون تھے کہاں سے آئے اور کہاں چلے گئے، یہ سربستہ راز ہے۔
نوشہرہ میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں پیش آنے والے اس واقعے سے قبل مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے بعض تیز و تند بیانات آئے، انہوں نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران بلوچستان کے حوالے سے صورتحال پر جس انداز میں روشنی ڈالی، اس سے بھی ایک سیاسی ارتعاش پیدا ہوا، انہی ایام میں ایک سکیورٹی تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا، جو اکثر ایسے موقعوں پر جاری کیا جاتا ہے جب اپوزیشن کوئی سیاسی اجتماع کرنے جارہی ہو۔ مولانا حامد الحق کے مدرسے میں پیش آنے والے سانحے سے قبل کوئی سکیورٹی تھریٹ الرٹ سامنے نہیں آیا، لیکن اس واقعے کے بعد سے ان کی ایک شعلہ فشان تقریر کا کلپ وائرل ہے، جس میں وہ اسرائیل کو للکار رہے ہیں، فلسطینیوں کے خون کے انتقام کی بات کرتے ہوئے سوئے ہوئوں کو بیدار ہونے کی تلقین کر رہے ہیں۔
اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت کی طرف سے متعدد چھوٹی سیاسی جماعت کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوششیں خاص حد تک کامیاب نظر آتی ہیں، ان کی جانب سے مولانا فضل الرحمٰن کو بھی دعوت دی گئی ہے، لیکن انہوں نے ابھی تک واضع طور پر یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کب تک حکومت کے اتحادی رہیں گے اور کس موقع پر ان سے علیحدہ ہوں گے۔ پی ٹی آئی کو مولانا کی طرف سے نیک خواہشات تو بہت ملی ہیں، لیکن فقط نیک تمنائوں کے اظہار سے اپوزیشن کو کوئی فائدہ ماضی میں ملا نہ ہی مستقل میں ملنے کی امید ہے۔ 26ویں ترمیم کی تیاریوں کے سلسلے میں مولانا حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ساتھ تواتر سے ملتے رہے۔ ایک موقع پر تو یہ تاثر ملا کہ مولانا اس موقع پر حکومت کے ساتھ نہیں دیں گے اور 26ویں ترمیم منظور نہ ہو سکے گی، لیکن انہی ملاقاتوں کا تحریک انصاف کو نقصان ہوا، وہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ تحریک انصاف کو موت کا منظر رکھا کر بخار پر راضی کر لیا گیا، اس کی وجہ ایک تو یہ ہو سکتی ہے کہ پی ٹی آئی لیڈر شپ نے علامہ اقبالؒ کا وہ شعر نہ سن رکھا تھا جس میں وہ فرماتے ہیں۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
کبھی مسلم لیگ ( ن) کے تاحیات لیڈر کی بغل میں بھی ایک طائر لاہوتی ہوا کرتا تھا، جسے وہ موقع محل دیکھے بغیر نکالتے اور قوم کے سامنے پیش کرتے، پھر کہیں سے اسے رزق میسر آ جاتا تو وہ دانا چگنے کے بعد کہیں کسی کونے کھدرے میں منہ ڈال کر پڑا رہتا۔ مسلم لیگ ( ن) اور اس کے اتحادیوں کو مرکز میں حکومت اور پنجاب میں حکومت ملنے کے بعد تو یوں محسوس ہوتا ہے جسے طائر لاہوتی ملک چھوڑ کر کسی دوسرے دیس جا بسا ہے، اب شاید نئے عام انتخابات کے بعد اسے پاکستان کا ویزا ملے تو قوم کو اس کی زیارت نصیب ہو، تب تک کیلئے چیلوں، کووّں اور گدھوں پر گزارا کرنا پڑے گا۔ وزیراعظم پاکستان بننیں کیلئے نصف درجن چہرے ہیں، آنے والے ایام میں پاکستان میں دو شخصیات کے مابین سخت مقابلہ شروع ہونے والا ہے۔ جناب نواز شریف کی ایک خواہش تو پوری ہو گئی وہ اپنی بیٹی کو اکثریت نہ ملنے کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب بنوانے میں کامیاب رہے ہیں، اب وہ چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی میں ہی وہ وزیراعظم پاکستان بھی بن جائیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ہم پلہ ہو جائیں کہ ان کی خاتون وزیراعظم کے بعد ادھر سے بھی خاتون وزیراعظم آ گئی ہیں۔ اس منصب کیلئے دوسرے اہم امیدوار جناب بلاول بھٹو زرداری ہیں، ان کی بھی فطری خواہش ہے کہ بلاول بھٹو ان کی زندگی میں ہی ایک مرتبہ وزیراعظم پاکستان بن جائیں مختلف حوالوں سے جناب بلاول بھٹو کے نمبر زیادہ بنتے ہیں لیکن کم نمبروں والے امیدوار کو ’’ انٹرویو‘‘ میں صد فیصد نمبر دے کر میرٹ لسٹ میں اوپر لانے کا نظام موجود ہے۔ بعض اوقات تو اہم ترین امتحان کے پرچے بھی گھر بیٹھ کر حل کرنے کی سہولت مل جاتی ہے اور بغیر انٹرویو کے بیک ڈور چینل کامیابی کی راہ ہموار کر دیتے ہیں۔ آج کل تو فرنٹ بیک دونوں چینل ایکٹو ہیں۔