Column

چیمپئنز ٹرافی: پاکستان کو آج بھارت کیخلاف بقا کی جنگ لڑنا ہو گی

تحریر : عمر شاہین
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے سلسلے میں پاکستان کے لئے بقا کا سوال لئے موجود پاک بھارت ٹاکرا آج دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں ہوگا جس کے لئے ماہرین بھارت کو فیورٹ قرار دے رہے ہیں، بھارت نے ایونٹ کے پہلے میچ میں بنگلہ دیش کو شکست دی تھی جبکہ پاکستان کو چیمپئنز ٹرافی کے افتتاحی میچ میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں 60رنز سے بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طرف جہاں بھارت کو بنگلہ دیش کے خلاف پہلی کامیابی سے تقویت ملی وہیں پاکستان کی ٹیم کا مورال نیوزی لینڈ سے شکست کے بعد انتہائی ڈائون ہو گیا ہے کیونکہ پاکستان کی نیوزی لینڈ کے ہاتھوں یہ مسلسل تیسری شکست تھی، چیمپئنز ٹرافی کے افتتاحی میچ سے قبل پاکستان کو نیوزی لینڈ نے تین ملکی کرکٹ سیریز کے فائنل اور لیگ میچ میں شکست سے دوچار کیا تھا۔ چیمپئنز ٹرافی گروپ اے میں چاروں ٹیموں نے ایک ایک میچ کھیل لیا ہے جس کے بعد پاکستان کی ٹیم گروپ میں چوتھے اور آخری نمبر پر موجود ہے، بنگلہ دیش کی ٹیم نیٹ رن ریٹ کی بنیاد پر تیسرے، بھارت کی ٹیم دوسرے اور نیوزی لینڈ کی ٹیم پہلے نمبر پر موجود ہے۔ پاکستان کی ٹیم اگر آج بھارت کو شکست دیتی ہے تو نا صرف یہ ایک معجزہ ہوگا بلکہ چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی واپسی بھی ہوگی جس کے بعد پاکستان کی ٹیم کو اپنا آخری میچ بنگلہ دیش کے خلاف کھیلنا ہے،کامیابی کی صورت میں پاکستان کے لئے سیمی فائنل میں رسائی کا امکان موجود رہے گا تاہم اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنا نیٹ رن ریٹ بھی بہتر بنانا ہوگا۔ دونوں ٹیموں کے مقابلوں کی بات کی جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان اب تک 135ون ڈے انٹر نیشنل میچ کھیلے جا چکے ہیں جس میں سے پاکستان نے 73جیتے ہیں اور 53میں اسے شکست ہوئی ہے، جبکہ پانچ میچ بلا نتیجہ رہے۔ آئی سی سی کے ون ڈے فارمیٹس کے ایونٹ میں پاکستان نے اب تک صرف اک بار بھارت کو شکست دی ہے جب اس نے2017ء کی چیمپئز ٹرافی کے فائنل میں بھارت کو شکست دی تھی، اس کے علاوہ 1992ء کے ورلڈ کپ سے اب تک پاکستان کی ٹیم بھارت سے مسلسل ہارتی آرہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کی ٹیم اس وقت دنیا کی سب سے بہترین ٹیم بن چکی ہے، اس کی بیٹنگ کے ساتھ ساتھ اس کی بولنگ بھی متوازن ہے،بنگلہ دیش کے خلاف شبمان گل نے بطور اوپنر سنچری اسکور کی، شبمان گل واحد بیٹر ہیں جو اس وقت بھارتی بیٹنگ کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں کیونکہ روہیت شرما تو آئوٹ آف فارم ہیں ہی، ویرات کوہلی کے بیٹ سے بھی رنز نہیں آرہے۔ ان دونوں بڑے بیٹرز کی ناکامی کے باجود اگر بھارتی ٹیم مسلسل فتوحات سمیٹ رہی ہے تو اس میں شبمان گل کا بہت بڑا ہاتھ ہے، جنہوں نے بنگلہ دیش کے خلاف سنچری سے قبل انگلینڈ کے خلاف بھی سنچری اسکور کی تھی اور آخری میچ میں 112رنز بنائے تھے اور اگر اس سے پہلے کے دو میچوں کی بات کی جائے تو ان میں 60اور87رنز کی اننگز کھیل رکھی ہیں، گویا اگر وہ پاکستان کے خلاف اتوار کو سنچری اسکور کرتے ہیں تو یہ ان کی مسلسل تیسری سنچری ہوگی۔ پاکستان کو اگر بھارت کے خلاف رنز کے سیلاب کے آگی بند باندھنا ہے تو یقینی طور پر شبمان گل کو بڑا اسکور کرنے سے روکنا ہوگا۔ اس کے علاوہ شریاس لایئر بھی مڈل آرڈرز میں مستقل مزاجی سے رنز بنا رہے ہیں، گو کہ بنگلہ دیش کے خلاف وہ صرف 15رنز ہی بنا سکے لیکن اس سے قبل انگلینڈ کے خلاف 59،44اور 78رنز کی اننگز کھیل چکے تھے۔ مڈل آدڑز میں کھیلنے والے آل رائونڈر اکثر پٹیل کو نظر انداز کرنا بے وقوفی ہوگی جو حالیہ کرکٹ میں بھارت کے لئے بہت کار آمد ثابت ہو رہے ہیں، انہوں نے بھی بنگلہ دیش کے خلاف میچ سے قبل انگلینڈ کے خلاف رنز بھی کر رکھے ہیں اور وکٹیں بھی لی ہیں۔ وکٹ کیپر کے ایل راہول بھی بھارتی بیٹنگ لائن میں ایک اہم حیثیت کے حامل ہیں، وقت کی نزاکت اور ٹیم کی ضرورت کے مطابق بیٹنگ کرنے والے راہول مڈل آرڈر میں آتے ہیں اور اگر بھارتی ٹیم کسی ہدف کے تعاقب میں ہو تو کے ایل راہول احسن انداز سے میچ کو فنش کرنا بھی جانتے ہیں، ہر دیک پانڈیا بھی ایک خطرناک قسم کے آل رائونڈر ہیں جو بیٹنگ اور بولنگ میں یکساں مہارت کے ساتھ بھارتی ٹیم کی فتوحات میں کردار ادا کر رہے ہیں، اس کے باوجود کہ انگلینڈ کے خلاف ان کی کارکردگی اس قدر بہترین نہیں تھی لیکن پاکستان کے خلاف وہ ہمیشہ اچھا کھیل پیش کرتے ہیں اس لئے وہ اتوار کو پاکستان کے لئے بہت بڑا خطرہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کی بائولنگ لائن کی بات کی جائے تو پاکستان کے صرف ایک مستند اسپنر ابرار احمد موجود ہے جس نے ابھی تک اپنی پرفارمنس سے کسی کو بھی متاثر نہیں کیا ہے، اس کے علاوہ پارٹ ٹائم اسپنرز سلمان علی آغا اور خوشدل شاہ ہیں جو ابھی تک کوئی خاص تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے ہیں، بھارتی بیٹرز ویسے بھی اسپنرز کو بہت اچھا کھیلتے ہیں اس لئے یہ کہنا کہ پاکستان کے اسپنرز مڈل اوورز میں بھارتی بیٹرز کے رنز کے سیلاب کو روک سکیں گے، درست نہ ہو گا، اگر فاسٹ بائولرز کی بات کی جائے تو کس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے َ؟۔ یہ بات کپتان محمد رضوان بھی نہیں جانتے۔ شاہین آفریدی، نسیم شاہ اور حارث رف پر مشتمل پاکستان پیس اٹیک ٹرائیکا اپنے ہوم گرائونڈ پر ابھی تک مسلسل ناکام ہوا ہے۔ نیوزی لینڈ کے بیٹرز نے پاکستان کے پیش اٹیک کے خلاف تینوں میچوں میں آزادانہ رنز بنائے جبکہ ساتھ افریقہ نے بھی پاکستان کے خلاف352رنز کا پہاڑ کھڑا کر دیا تھا۔ مڈل اوورز کے مسائل اپنی جگہ لیکن آخری اوورز میں پیس بائولرز کی جانب سے فراخ دلی سے رنز دئیے جانے کی خامی تو اب کھل کر سامنے آچکی ہے، حیرت اس بات کی ہے کہ پاکستان وائٹ بال کے ہیڈ کوچ عاقب جاوید جو کہ خود بھی ایک اچھے فاسٹ بائولر رہے ہیں، کی جانب سے ابھی تک اس خامی کو دور کرنے پر کوئی کام نہیں کیا گیا، اور تو اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پاکستان کے فاسٹ بائولرز خود بھی اس خامی پر قابو پانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ چیمپئز ٹرافی کے پہلے میچ میں نیوزی لینڈ نے آخری10.4اوورز میں 120رنز بنائے تھے جبکہ آخری70رنز صرف31گیندوں پر اسکور کئے گئے تھے۔ جس طرح پاکستان کی بائولنگ کی خامیاں کھل کر سامنے آرہی ہیں اسی طرح ٹیم سلیکشن اور بیٹرز کی ناقص کارکردگی بھی اپنی جگہ ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ صائم ایوب کے انجرڈ ہونے کے بعد تازہ کمک کے طور پر شامل کئے گئے فخر زمان بھی ایک ایسے ایونٹ کے پہلے میچ کے بعد ہی ٹیم سے باہر ہو گئے جس کے نا صرف ہم میزبان ہیں بلکہ اس کے دفاعی چیمپئن بھی ہیں۔ کیا یہ بات کسی المیہ سے کم نہیں ہے کہ ہم گزشتہ کئی ماہ سے سن رہے ہیں کہ ہم چیمپئنز ٹرافی کے لئے ایک مضبوط ٹیم بنانے جا رہے ہیں اور جب چیمپئنز ٹرافی کا پہلا میچ ہوتا ہے تو پاکستان کی اننگز کا آغاز وہ دو بیٹرز کرتے ہیں جو کہ بنیادی طور پر اوپنرز ہی نہیں ہیں، جی ہاں! بابر اعظم کے ساتھ سعود شکیل نے نیوزی لینڈ کے خلاف اننگز کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد فخر زمان ٹیم سے باہر ہوئے تو ہمیں امام الحق یاد آگئے۔ انہوں نے جمعہ کے روز دبئی میں ٹیم کو جوائن تو کر لیا تھا لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ وہ بھارت کے خلاف میچ میں فائنل الیون میں شامل بھی ہونگے۔ پاکستان کے کپتان محمد رضوان کے لئے سب سے بڑا درد سر یہ ہے کہ بابر اعظم رنز نہیں کر رہے اور اگر کر بھی رہے ہیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے لئے کھیل رہے ہیں، نیوزی لینڈ کے خلاف بیٹنگ کے دوران تو یہ بات پورے پاکستان نے محسوس کی۔ بلا شبہ بابر اعظم دور حاضر کے سپر اسٹار بیٹر ہیں، لیکن ایسے سپر اسٹار کا کیا کریں جو وقت پڑنے پر لاچار اور بے سہارا چھوڑ جائے۔ گو کہ نیوزی لینڈ کے خلاف بابرا عظم نے 64رنز ضرور کئے لیکن اس کے لئے90گیندیں بھی کھیلیں، یہی نہیں بلکہ یہ ان کا گزشتہ چار میچوں کا سب سے بہترین اسکور بھی تھا، اس کے علاوہ انہوں نے 10،23اور29 رنز بنائے تھے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف سلمان علی آغا اور کپتان محمد رضوان کی سنچریوں کے بعد اس بات کی امید ہو چلی تھی کہ چلو پاکستان کی مڈل آرڈر بیٹنگ فارم میں واپس آجائے گی، رضوان اور سلمان آغا کے ساتھ ساتھ طیب طاہر اور خوش دل شاہ پاکستان کے لئے اچھا کھیلیں گے لیکن لگتا ہے کہ یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہی ہے بلکہ اگر کہا جائے کہ یہ سب ’’ رانگ نمبر‘‘ ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ بھارت کے خلاف میچ میں پاکستان کی ٹیم کس طرح کا کھیل پیش کرے گی یہ تو اتوار کو ہی علم ہو سکے گا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے پاس چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کو ہرانے والی بیٹنگ لائن ہے اور نا ہی بولنگ لائن۔ اگر پاکستان کی ٹیم بھارت کو ہرانے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ ایک ’’ معجزہ‘‘ ہوگا اور ہم وہ قوم ہیں جو ہر وقت کسی نہ کسی معجزے کی تلاش میں رہتی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button