کھلے مین ہول یا ڈیتھ ہول

تحریر : فیاض ملک
ویسے بھی ڈھکن کی قدر کرنا کوئی جاپان حکومت سے سیکھے، جہاں پر ٹوکیو کی بلدیہ نے شہر میں تجرباتی طور پر گٹر کے ہائی ٹیکنالوجی ڈھکن لگا دیئے ہیں، جن پر ایل ای ڈی ڈسپلے میں مختلف کامک اور کارٹون کردار دیکھے جا سکتے ہیں۔ ابتدائی تجرباتی طور پر کل 27گٹروں پر ایل ای ڈی ڈسپلے نصب ہیں، جن پر بعض ڈیزائن تیزی سے رنگ بدلتے نظر آتے ہیں، شام کو پانچ بجتے ہی یہ ڈھکن ازخود روشن ہوجاتے ہیں اور رات دو بجے بند ہوجاتے ہیں۔ یاد رہے کہ جاپان میں مین ہول کے ڈھکنوں کو سجانے کا رواج 1980ء سے جاری ہے، اس ساری تمہید کو باندھنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دنیا میں انسانی جانوں کی حفاظت کیلئے ضروری اقدامات کرنا کسی بھی حکومت کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتے۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں اگر کسی راہگیر کو فٹ پاتھ یا سڑکوں پر کسی طرح کا نقصان پہنچ جائے تو اس کو حکومت معاوضہ ہرجانہ کے طور پر دینا پڑتا ہے۔ اسی لئے ترقی یافتہ ممالک میں انتظامیہ بہتر اقدامات کرتی ہے اور ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ کئی ادوار سے پنجاب سمیت ملک کے دیگر صوبوں کے پسماندہ اور ترقی یافتہ اضلاع میں سے اکثر ایسی خبریں اخبارات اور ٹی وی چینلز پر نشر ہوتی آرہی ہیں کہ فلاں علاقہ میں انتظامیہ کی غفلت و لاپروائی کی وجہ سے بغیر ڈھکن کے گٹر میں معصوم شہری گر کر جاں بحق ہو گیا، پھر ہوتا یوں ہے کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر اس واقعہ کو لیکر انتہائی شور مچتا ہے جس کے بعد نوٹسز کا ایک طویل سلسلہ وزیر اعلیٰ، چیف سیکرٹری، سیکرٹری، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور ایم ڈی واسا کے دفاتر سے شور مچاتا ہوا نکلتا ہے اور اس کے بعد متعلقہ ایس ڈی او کے ساتھ ساتھ نچلے عملے کو کو معطلی کا پروانہ تھما کر پھر کسی نئے سانحے کا انتظار کیا جاتا ہیں، گزشتہ دنوں بھی چونیاں روڈ پر امام بارگاہ چوک کے قریب ایک ایسا ہی افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا، جس میں خاتون کھلے مین ہول میں گر گئی تھی جس کو بچانے کیلئے 2راہگیر نوجوان بھی گٹر میں کود گئے تھے جن کو مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت باہر نکالا، اطلاع ملنے پر ریسکیو ٹیم نے موقع پر پہنچ کر خاتون اور دونوں نوجوانوں کو تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال پتوکی منتقل کیا، جہاں پر 60سالہ زینت بی بی اور 25سالہ کاشف دم توڑ گئے جبکہ ایک نوجوان کو لاہور ریفر کر دیا گیا، اس افسوناک واقعہ پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور غفلت کے مرتکب افسروں اور ملازمین کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی، جس پر معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ڈی سی قصور اور اے سی پتوکی تبدیل کرکے او ایس ڈی بنادیاگیا جبکہ پتوکی کے چیف آفیسر میونسپل کارپوریشن اور ایم او انفراسٹرکچر اینڈ سینیٹیشن کیخلاف مقدمہ درج کر دیا گیا، اور یوں اس واقعہ کا بھی، خس کم جہاں پاک، ہوگیا، اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ علاقے میں گٹروں کے کوئی ڈھکن نہیں ہیں جس کی وجہ سے لوگ گرتے رہتے ہیں، کسی کی ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے تو کسی کا بازو ٹوٹ جاتا ہے، ناقص سیوریج لائن اور کھلے مین ہول کی متعدد بار شکایات کرائی گئیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ یہ دو افراد تو ضلعی انتظامیہ کی غفلت کا شکار ہوکر موت کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے گئے لیکن اپنے پیچھے ایک سوال بھی چھوڑ گئے، کیا اب بھی انتظامیہ چپ سادھے تماشہ دیکھے گی یا اس مسئلے کا فوری حل نکالا جائے گا، پاکستان بھر میں مین ہول میں گر کر جاں بحق ہونے کے واقعات عمومی صورتحال کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ علاقہ شہری ہو یا دیہی، سیوریج لائن کے اکثر و بیشتر مین ہولز پر ڈھکن موجود نہیں ہوتے ہیں۔ جس کے باعث انسانی جان کے ضیاع کے واقعات روزانہ کا معمول بن چکا ہے۔ قارئین کرام! ٹی وی چینلز پر آئے روز یہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، جس میں اپنے لخت جگر کی موت پر ماں باپ، رشتے دار رو رہے ہوتے ہیں، دل دہلانے والی آہ و بکا سے سارا محلہ سوگوار ہوتا ہے۔ مقامی انتظامیہ سے پوچھا جائے کہ یہ غریب کے بچے آخر گلیوں میں نہ کھیلیں تو کہاں جائیں، سوال تو یہ ہے کہ اگر متعلقہ حکام ان گٹروں پر لوہے کے مضبوط ڈھکن لگا دیں مسئلہ تو حل ہو جائے گا۔ لیکن لگتا ہے، ہم بھول چکے ہیں کہ ہم سب نے ایک دن اللہ کی بارگاہ میں جواب دینا ہے، کیونکہ جان تو وہ انمول نعمت ہے جو ایک صرف ایک بار ملتی ہے دوبارہ نہیں ملتی نہ ہی یہ خریدی جاسکتی ہے، جو لوگ ایسے حادثات و واقعات کے ذمہ دار ہیں لگتا ہے کہ نہ تو وہ قانون سے ڈرتے ہیں نہ ان کو خوف خدا ہے۔ وہ تنخواہوں کے ساتھ مراعات بھی لیتے ہیں لیکن ان کی جو ذمہ داریاں ہیں ان کو کماحقہ پورا نہ کر کے ناانصافی کے مرتکب ہو رہے ہیں، آج بھی مین شاہراہوں پر موجود متعدد مین ہولز کھلے ہوئے ہیں، جنہیں بند کرانا ضلعی انتظامیہ کے بس سے ہی باہر ہوچکا ہے، مین ہولز کے ڈھکن غائب ہونے کے بعد کئی کئی روز اور کئی کئی ہفتے تک دوبارہ ڈھکن نہیں لگائے جاتے، شہری اپنی مدد آپ کے تحت درختوں کی ٹہنیاں رکھ کر کھلے مین ہول کی نشاندہی کر لیتے ہیں، ایسی صورتحال میں کھلا مین ہول جان لیوا حادثے کا سبب بھی بن سکتا ہے، لیکن ضلعی انتظامیہ یا دیگر متعلقہ اداروں کی جانب سے اس اہم اور سنگین مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی، یہ کیسا ترقی یافتہ زمانہ آگیا ہے، گھر سے باہر نکلنے کے بعد ہر طرف جان کا خطرہ ہی سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ زیادہ تر حادثات کی وجہ سڑکوں پر گٹر ہی ہیں جن کے ڈھکن یا تو چرا لئے جاتے ہیں یا ناقص مٹیریل کی وجہ ٹوٹ جاتے ہیں، ایسے ڈھکن پائیدار نہیں ہوتے جب اس پر سے ہیوی ٹریفک کے ساتھ، بسوں ٹرکوں اور ویگنوں کاروں کے گزرنے سے ان پر وزن اور دبائو پڑتا ہے، جس سے یہ ٹوٹ کر سیوریج لائن میں گر جاتا ہے، جس کے باعث سارا گندا پانی وہاں سے ابل کر سڑک پر آجاتا ہے۔ انہیں ناقص ڈھکنوں کی وجہ سے آئے روز کتنی جانیں چلی جاتی ہیں، کبھی لوہے کے بنے ہوئے دھکن گٹروں پر رکھے جاتے تھے جب ان کی چوریاں ہونے لگیں تو ان کی جگہ پر ریت اور سیمنٹ کا کچا پکا ڈھکن گٹر پر رکھ دیا جانے لگا اور اس کی وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ نشئی لوہے کا ڈھکن اٹھا کر لے جاتے ہیں، لہذا کیوں نہ لے کر جائیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے جگہ جگہ کھلے مین ہول میں گر کر بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کا نہ تو یہ کوئی پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی یہ کوئی آخری واقعہ ہوگا، اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ گٹر کے ڈھکن کی قیمت تو محض 500سو روپے سے لیکر800سو روپے تک ہے مگر بدقسمتی یہ بھی کہ ہمارے معاشرے میں معصوم جان کی کوئی قیمت نہیں، خیر یہاں پر یہی نظام ہے سیوریج کا اور بغیر ڈھکن کے گٹروں کا، یہ بھی سچ ہے کہ جب تک ہم خود اپنے گلی محلوں کی ذمہ داری نہیں لیں گے، تب تک یہ نظام بھی نہیں بدلے گا اور ایسے ہی خونیں حادثات مائوں کی گود کو اجاڑتے رہیں گے اور حکومتیں ہر سانحہ کے بعد عوامی پریشر سے بچنے کیلئے معطلیوں اور ٹرانسفرز کا کھیل کھیلتے ہوئے اپنا فرض ادا کرتی رہے گی، بلاشبہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندے کو چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا بھی اجر دیتا ہے۔ سڑک پر پڑے ایک پتھر کو بھی وہاں سے ہٹا دینے کا ثواب ہے اور ایسے افسران جو بڑی بڑی تنخواہیں لے ہیں پھر بھی وہ عوام اور معاشرے کی خدمت کرکے نیکیاں نہیں کما سکتے۔ تو اس پر کیا کہا جاسکتا ہے، سوائے افسوس کرنے کے، میری اس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے درخواست ہے کہ وہ پتوکی کہ اس افسوسناک واقعہ کو ایک مثال بنا دیں ، دو انسانی جانوں کے ضیاع کو صرف معطلی، او ایس ڈی اور معمولی دفعات کے تحت درج ہونے والے مقدمے کی نذر نہ ہونے دیں بلکہ جن ذمہ دار افسروں کی وجہ سے دوبے گناہوں کی جانیں گئی ہیں ان کے کڑا احتساب کو ایک مثال بنائیں اور ساتھ ہی کھلے مین ہولز کے ڈھکنوں کی چوری کا تدارک غیر روایتی انداز سے بنائے جانے والے فائبر یا کیکر کے ڈھکنوں سے کیا جاسکتا ہے تاکہ مائوں کے لال اور قوم کے مستقبل کو گٹروں میں گر کر فنا ہونے سے بچایا جاسکے۔