CM RizwanColumn

تم کون ہو؟ بے شرمو

تحریر : سی ایم رضوان
خود بانی پی ٹی آئی کو نہیں پتا کہ ماں بہن کی عزت کس کو کہتے ہیں۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ معیشت اور اخلاقی اقدار کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی نے پاکستان کی جو بربادی کی ہے ملکی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے اور اللّٰہ کرے آئندہ بھی نہ ملے۔ ماضی قریب میں موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے متعلق ان کے بیانات ریکارڈ کا حصہ ہے جن کو دیکھ، سن کر لگتا ہے کہ وہ بدتہذیبی کے پاتال میں مکین ہیں۔ صرف معیشت اور اخلاقیات ہی نہیں اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں انہوں نے ہر شعبہ زندگی میں قوم کے ساتھ جو کچھ کیا ہے، اس کو دوبارہ ٹھیک کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ایمانداری اور اخلاقیات کے اس جھوٹے دعویدار نے ملک کی معیشت، معاشرت و اخلاقیات کو تباہ کر کے بدتمیزی اور ڈھٹائی کے کلچر کی بنیاد ڈال دی ہے جس کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے گو کہ موجودہ دور میں بہت سے راست اقدام کئے جا رہے ہیں مگر بدتمیزی کا یہ طوفان ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ خاص طور پر پی ٹی آئی کا گالم گلوج بریگیڈ آئے روز خواتین کی حرمت اور اخلاقی اقدار کی پامالی پر مبنی وہ وہ باعث شرم ٹرینڈ چھوڑتا ہے کہ کوئی بھی سنجیدہ اور غیرت مند شخص ان پر تھو تھو کرتا ہے مگر ڈھٹائی اور بے شرمی کی آخری حد تک پہنچے ان عمرانڈوز کو ایک اسلامی معاشرے میں خواتین کی عزت و مقام کا پتا ہی نہیں، یہ گالم گلوج بریگیڈ مدینہ کی ریاست کا نام لے کر حرکتیں وہ کرتا ہے جو دنیا کے کسی گندے سے گندے معاشرے میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو اس طرح تباہی کا شکار ہوتے ہوئے کسی بھی محب وطن شخص کی آنکھیں تو نہیں دیکھ سکتیں، اسی بناء پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے گزشتہ دنوں اپنے ایک خطاب میں اسلام میں ماں، بہن کی حرمت کے حوالے سے بات کی تو ان کی تقریر کے اس حصے کی ویڈیو کو پی ٹی آئی کے اس گالم گلوج بریگیڈ نے اس ٹرینڈ کے ساتھ وائرل کر دیا کہ ماں بہن کی عزت کے حوالے سے بات کرنے والے تم کون ہو، تمہارے کہنے پر تو ہماری خواتین کی بے عزتی کی جا رہی ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی خواتین اپنے کئے ہوئے جرائم کے ضمن میں سزائیں بھگت رہی ہیں۔ اس سارے طوفان بدتمیزی کو دیکھ یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ ملک کی پچھلے 70سالہ تاریخ کا سب سے بڑا مجرم اگر کوئی آیا ہے تو اس کا نام عمران خان ہے جو مریم نواز سمیت دیگر سیاسی مخالف خواتین کے متعلق ایسے ایسے جملے بولتا رہا ہے کہ انسان تو کیا حیوان بھی شرما جائیں مگر پی ٹی آئی کے ان فالوورز کو شرم نہیں آ رہی جو آج بھی پی ٹی آئی کے ہر باعث شرم اور مخرب الاخلاق ٹرینڈ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
دور کیا جانا ہے پچھلے سال آٹھ فروری کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی کے پی کے اسمبلی کے ابتدائی اجلاس میں ن لیگی خاتون رکن اسمبلی کیخلاف پی ٹی آئی ارکان نے جو اخلاق سے گری ہوئی نازیبا زبان استعمال کی تھی اور جو رویہ اختیار کیا تھا وہ آج بھی لوگوں کو یاد ہے جب صوبائی اسمبلی کی رکن ثوبیہ شاہد سے متعلق نازیبا گفتگو کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں مبینہ طور پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو نازیبا گفتگو کرتے دیکھا جا سکتا ہے کہ بدترین فحش گوئی کر کے حظ اٹھانے والے پی ٹی آئی ٹائیگرز نے بے حمیتی کی ساری حدود عبور کر لی تھیں۔ تب تو پی ٹی آئی کے کسی لیڈر نے اس شرمناک عمل کی مذمت نہیں کی تھی۔ ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے اس گند پر ہمارا مین سٹریم میڈیا بھی خاموش ریتا ہے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ کے پی کے اسمبلی میں ہونے والی اس بدتہذیبی کی ویڈیو پر تب نامکمل تبصرہ کرنے پر نیوز اینکر رابعہ انعم کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ انہوں نے بدتمیزی کرنے والی اس پارٹی کا نام نہیں لیا تھا کہ اس پارٹی کے ایم پی ایز نے صوبائی اسمبلی میں جو غنڈہ گردی کی اور ایوان کا تقدس پامال کیا تھا اور اس ن لیگی خاتون ایم پی اے سے جو سلوک روا رکھا گیا وہ انتہائی قابلِ مذمت اور پختونخوا کی روایات کی دھجیاں اڑا دینے کے مترادف تھا۔ تب انکوائری کی جانی چاہیے تھی کہ اتنے لوگوں کو کارڈ کس نے جاری کیے تھے۔ اس امر کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے تھی کہ غنڈوں کو ایوان میں کون لایا۔ تب اس خاتون ایم پی اے نے شرقی تھانے میں درخواست بھی دی تھی کہ غنڈوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے قانونی کارروائی کی جائے۔ ایف آئی اے میں بھی شفاف تحقیقات کی جانی چاہیے تھی مگر ایسا کچھ نہ ہوا تھا۔ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو بھی اس واقعے کے خلاف بولنا چاہیے تھا۔ اسمبلی میں بھی ریکارڈ موجود ہے۔ آج بھی اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کی جانی چاہیے اور اگر کے پی کے پولیس بوجوہ تحقیقات نہ کرے تو وفاقی اداروں کو تحقیقات کر کے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ آج آرمی چیف کو یہ کہنے والے کہ تم کون ہو ان کا بھی پتہ چلے کہ یہ گٹر کے کیڑے کون ہیں۔ یہ امر بھی سامنے آنا چاہئیے کہ تب خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس کے دوران بنائی جانے والی اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے کون سے حامی اس کے دفاع میں سامنے آئے تھے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ثوبیہ شاہد اس اجلاس میں صرف ایک گھڑی لہراتے ہوئے آئی تھیں جو کہ سیاست میں تنقید کا ایک پارلیمانی طریقہ ہے لیکن جواب میں اُن کی جانب جوتا پھینکا گیا اور مغلظات بکی گئیں۔
خواتین کی عزت کے یہ جھوٹے دعویدار جب طاقت میں تھے تو ان کے شر سے خواتین محفوظ نہیں تھیں جنوری 2022ء کا واقعہ ہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ غربی کراچی کی عدالت نے گھر میں داخل ہو کر شہری پر تشدد اور خواتین کی بے حرمتی کے کیس میں پی ٹی آئی کے اس وقت کے رکن سندھ اسمبلی ملک شہزاد اعوان سمیت تین ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی تھی۔ مدعی مقدمہ کے مطابق دو جولائی 2019ء کو ملک شہزاد اعوان اپنے مسلح ساتھیوں کے ہمراہ اس کے گھر میں داخل ہوا، ملزمان نے اس کی اہلیہ اور بیٹی سے بد تمیزی کی اور بیٹے کو کلاشنکوف کے بٹ مارے۔ یاد رہے کہ ان ملزمان کے خلاف مدینہ کالونی تھانے میں مقدمہ درج ہوا تھا۔
نومبر 2017ء کا ایک اور واقعہ ہے کہ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی داور کنڈی نے خیبر پختونخوا کے اس وقت کے صوبائی وزیر علی امین گنڈا پور پر 27اکتوبر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں لڑکی کو برہنہ کر کے گھمانے کے انسانیت سوز واقعہ پر ملزمان کی پشت پناہی کا الزام تھا جس پر علی امین کو فوری طور پر وزارت سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں پی ٹی آئی چیئرمین کو خط بھی لکھا تھا جبکہ ردعمل میں علی امین گنڈا پور نے کہا تھا کہ داور کنڈی متاثرہ لڑکی کے رشتہ دار ہیں اور لڑکی سے اپنی مرضی کا بیان دلوا رہے ہیں۔ داور کنڈی سیاسی مخالف ہیں، ان سے اپنا حلقہ نہیں سنبھالا جاتا، وہ مجھ پر بے بنیاد الزام تراشی کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں لڑکی کو بے لباس کر کے بازار میں گھمانے کے واقعے میں ملوث اہم ملزم ابھی تک پولیس کی گرفت میں نہیں آ سکا تھا جبکہ دیگر 4ملزمان نے اعتراف جرم بھی کر لیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے داربن کلاں میں 9ملزمان نے 16سالہ لڑکی کو بے لباس کر کے بازاروں اور گلیوں میں گھمایا، ظلم و بربریت کا یہ کھیل ایک گھنٹے تک جاری رہا، پولیس اس سلسلے میں 8ملزمان کا عدالتی ریمانڈ حاصل کر کے تفتیش کرتی رہی جبکہ ملزم سجاول کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پولیس کے مطابق ملزم کراچی فرار ہوگیا تھا جبکہ فراری میں سہولت کاری کے الزام میں بھی 2افراد کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ ان ملزمان نے متاثرہ لڑکی کے بھائی سے بدلہ لینے کیلئے لڑکی کو نشانہ بنایا تھا۔ وقوعہ سے دو سال قبل لڑکی کے بھائی سجاد پر گائوں کی ایک لڑکی سے میل جول اور تعلقات کا الزام تھا، جس پر پنچایت نے ڈھائی لاکھ روپے جرمانے کی ادائیگی کے عوض معاملہ رفع دفع کر دیا تھا۔ بدلے کی آگ میں 27اکتوبر کو ملزمان نے بے قصور لڑکی کی بے حرمتی کی۔ پی ٹی آئی کے ایم این اے داورکنڈی نے بانی پی ٹی آئی کو خط لکھا جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ ڈی آئی خان میں لڑکی کو بے آبرو کرنے والوں کی سرپرستی صوبائی وزیر مال اور ان کے قریبی ساتھی علی امین گنڈا پور کر رہے ہیں۔ انہیں فوری طور پر وزارت سے ہٹایا جائے لیکن نہ تو اس وقت پی ٹی آئی کے بانی کو شرم آنی تھی نہ کسی اور پی ٹی آئی ورکر کو اور معاملہ کھٹائی کا شکار ہو گیا تھا۔ یہ لوگ خود کئی خواتین کی بیحرمتی کے لاتعداد جرائم کر کے اب کس منہ سے کہہ رہے ہیں کہ تم کون ہو؟ حالانکہ یہ خود بڑے بے شرم ہیں۔

جواب دیں

Back to top button