Column

ایک سال میں حکومت کی طرف سے عوام کو کیا فائدہ ملا؟

تحریر : عبد الرزاق برق
ملک میں جمہوریت کی عملداری کے تسلسل کیلئے گزشتہ سال 8فروری کو منعقد ہونیوالے عام انتخابات کا ایک سال مکمل ہوگیا، اس ایک سال مکمل ہونے پر حکومت کی طرف سے یوم تعمیر و ترقی اور سالگرہ کے طور پر منایا گیا جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے یوم سیاہ منایا گیا اور انہوں نے صرف صوابی میں ایک احتجاجی جلسے کا انعقاد کیا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے تو8فروری کے دن ایک سال مکمل ہونے پر سالگرہ کے طور پر منایا گیا اور اپوزیشن نے یوم سیاہ لیکن گزشتہ ایک سال میں اور اب تک عوام کو کیا ملا؟ اور عام آدمی کی زندگی میں کہاں بہتری ہوئی؟ کیا گزشتہ ایک سال میں حکومت نے ملک اور عوام کی ترقی کیلئے جو بھی پالیسیاں بنائیں ان کے ثمرات تاحال عام آدمی تک پہنچنا شروع ہوئے ہیں؟ موجودہ وزیراعظم کی یہ کوشش ضرور رہی ہے کہ وہ عوام کیلئے کچھ اچھا کر سکیں، وہ مختلف ممالک کے دوروں پر جارہے ہیں لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ سوائے چند ایک دوست ممالک سے قرضہ جات کے علاوہ کوئی بھی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر تیار نظر نہیں آرہا، نہ کوئی کارخانہ لگ رہا ہے نہ ہی پہلے سے موجود کارخانوں کا پہیہ گھوم رہا ہے نہ سرمائے کی حرکت نظر آرہی ہے۔ حکومت کا پہلا سال سمت درست کرنے اور اہداف کا تعین کرنے میں گزر جاتا ہے، اس دوران حکومت نے جو کچھ حاصل کیا اس سے کامیابی یا ناکامی کا تعین نہیں کیا جاسکتا، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ موجودہ حکومت کس تک کامیاب رہی، حکومت کی طرف سے سالگرہ منانے پر پاکستان کے مشہور اخبارات میں اپنی حمایت میں لاکھوں روپے کے اشتہارات چھاپے گئے، جس میں اخبارات کا پورا صفحہ موجودہ حکومت کی کامیابیوں اور ان کے کارناموں سے بھرا ہوا تھا لیکن ان اشتہارات میں عوام کیلئے کچھ بھی نہیں تھا، کیا جو پیسے اخبارات میں اشتہارات کیلئے خرچ ہوئے، وہ پیسے کس کے ہیں؟ عوام کے یا حکومت کے؟ حقیقی ترقی اور کامیابی اشتہارات سے نہیں بلکہ عوامی فلاح و بہبود سے ثابت ہوتی ہے، اگر حکومت نے ملک کیلئے کچھ اچھا کیا ہے تو اس کے ثمرات عوام کو نظر آنے چاہئیں نہ کہ صرف کاغذی دعووں میں اشتہارات کے ذریعے کارکردگی دکھانے کے بجائے حقیقی کام کرکے عوام کا اعتماد جیتنا چاہئے، اگر ترقی ہوئی تو عوام خود ثبوت دیں گے نہ کہ سرکاری اشتہارات۔ گزشتہ ایک سال میں وزیراعظم کی کامیاب پرفارمنس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھنے کی شرح دو سالوں میں کم ترین سطح لیکن عوام بجلی کی بلوں سے بلبلائے ہوئے اور قوت خرید سے محروم ہیں، 2024ء میں حکومت کو بڑی کامیابی پانچ تھرمل پاور کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کی معطلی کی صورت میں ملی، جس سے بجلی کے نرخوں میں دس سے 12روپے فی یونٹ کمی کا امکان، یہ بات عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ نے کہی ہے۔ سٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح پر لیکن اس سے عام آدمی کی زندگی کہاں اور کیسے بہتر ہوئی؟ بیروزگاری وافر، روزگار کے مواقع محدود تر ہوگئے مگر ملک تاحال سیاسی عدم استحکام کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے، سیاسی کھینچا تانی میں آئینی اداروں کی عزت بھی دائو پر لگ گئی، حکومت کیخلاف پی ٹی آئی نے تحریک کا آغاز کیا جس کا رخ حکومت سے زیادہ الیکشن کمیشن اور افواج پاکستان کی جانب رہا اور ملک کے اندر انتشار اور افراتفری کی فضا گرماتے ہوئے 26نومبر2024والے واقعات کی نوبت دلائی گئی اور بالخصوص سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں اور ریاستی اداروں کیخلاف بولتے رہے، اس کے سدباب کیلئے پی ایم ایل این اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اسے آزادی رائے کیخلاف کالا قانون قرار دیا تھا لیکن حالات کا جبر اور المیہ یہ ہے کہ آج ہی دونوں بڑی پارٹیوں نے حکومت کے ساتھ ترامیم کرکے اسے طاقتور پیکا پہلوان ایکٹ بنایا گیا اور اس میں سخت سزائیں لاگو کی گئیں لیکن یہی اقدام اظہار رائے پر پابندی کے حوالے سے حکومت کے گلے پڑا ہوا ہے اور اسے اپنے اقتدار کے ایک سال کے دوران ملکی قومی اور عالمی سطح پر حاصل ہونیوالی کامیابیوں کو اپنے حق میں کیش کرنا بھی مشکل ہورہا ہے بلکہ اس اتحادی حکومت کو حاصل شدہ منڈیٹ کا اپوزیشن کے تیزی سے پھیلائے جانے والے منفی پروپیگنڈے کے مقابل دفاع کرنا بھی اتحادی قیادتوں کیلئے ایک بڑا چیلنج بن چکا، اگرچہ الیکشن 2024ء دھاندلی زدہ تھا اور دو ہزار اٹھارہ بھی مگر پہلے بھی عوام نے بھگتا، آج بھی عوام بھگت رہے ہیں کیونکہ اس ملک میں کوئی بھی ایسا الیکشن نہیں ہوا جس پر انگلیاں نہ اٹھائی گئی ہوں، مگر حکومت کے مخالف جماعت پی ٹی آئی ایک جانب حکومت کیخلاف احتجاج پر ہے دوسری طرف اسی پارٹی کا ایک رہنما جنید اکبر کو مرکز میں اپوزیشن کا لیڈر بن کر سرکاری درجہ حاصل ہوچکا ہے، انہیں سرکاری مراعات میسر ہیں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ایجنڈا ان کے صلاح مشورے سے ترتیب پاتا ہے، وہ ریاستی نظام کا باقاعدہ حصہ ہیں، حکومت اور مقتدرہ بھی ان کی حیثیت کو ماننے پر مجبور ہیں، سیکیورٹی کا کوئی معاملہ ہو تو ان کے نمائندے بھی اجلاس میں موجود ہوتے ہیں، ہوسکتا ہے یہ صورتحال پی ٹی آئی کو پسند نہ ہو مگر یہ سب کچھ 8فروری کے دھاندلی زدہ الیکشن سے ہی ممکن ہوا ہے، 2024ء حکومت کی سفارتی کامیابیوں کا سال ٹھہرا، جس کے دوران پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا، سرکاری و نجی سطح پر لاکھوں ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے کئے گئے، چین، سعودی عرب، قطر، ترکیہ، آذربائیجان اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی، پاکستان کی خارجہ پالیسی نے بھی گزشتہ سال میں کئی اہم موڑ دیکھے، حکومت نے عالمی سطح پر اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کی اور کچھ اہم ممالک کے ساتھ معاشی و سیاسی تعلقات کو فروغ دیا، تاہم بھارت کے ساتھ کشیدگی اور افغانستان کے معاملے میں چیلنجز نے خارجہ پالیسی کو پیچیدہ بنایا اور عالمی سطح پر پاکستان کے موقف کو موثر انداز میں پیش کرنا حکومت کیلئے ایک چیلنج رہا۔ دوسری طرف حکومت کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے معیشت کو سنبھال لیا ہے، ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے، افراط زر کم ہوچکا، سود کی شرح گر چکی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ چکے، اب حکومت نئی اڑان بھرنے کو ہے، آئندہ چار سال کے منصوبے بنا لئے گئے ہیں، جن پر عمل کرکے ملک کو طاقتور بنایا جائے گا۔ وفاقی شماریات بیورو کے مطابق اس سال جنوری میں افراط زر کی شرح 2015ء کے بعد کم ترین سطح پر رہی، ڈیفالٹ کا خطرہ بھی کہیں پیچھے رہ گیا ہے اور کریڈٹ ریٹنگ مقرر کرنے والے ادارے پاکستان کی معاشی ریکوری کو تسلیم کر رہے ہیں، تاہم معاشی ترقی کے ثبوت کے طور پر یہی کافی نہیں، جہاں تک افراط زر میں کمی کا تعلق ہے تو معاشی ماہرین اس کا کریڈٹ حکومت کو دینے کے بجائے عالمی سطح پر قیمتوں میں کمی کے رجحان کو دیتے ہیں کیونکہ گزشتہ برس کے دوران عالمی سطح پر اجناس اور پٹرولیم کے نرخوں میں کمی آئی تو اس کا اثر پاکستان پر بھی پڑا اور اسی کے نتیجے میں شرح سود بھی کم ہوئی مگر افراط زر میں نمایاں کمی کے باوجود کم آمدنی والے پاکستانیوں کیلئے صورتحال باعث اطمینان نہیں اور وہ بدستور مہنگائی اور قوت خرید کی کمی کی مشکلات سے دوچار ہیں، افراط زر کے اعدادوشمار میں کمی اپنی جگہ مگر یہاں اصل مسئلہ قوت خرید کی کمی ہے، بیروزگاری میں اضافے سے، جس میں مزید اضافہ ہوچکا ہے، اس سال جنوری میں منصوبہ بندی کمیشن کی ایک رپورٹ میں بیروزگاری کی شرح سات فیصد بتائی گئی جبکہ ورلڈ بینک کے مطابق یہ 10.3فیصد ہے، 2023ء میں یہ 6.3فیصد تھی، جہاں تک مزدوروں کی آمدنی کا تعلق ہے تو یہ جولائی 2019ء سے یہ مسلسل گراوٹ کا شکار ہے، اگرچہ بظاہر اجرت میں اضافہ ہوا مگر بڑھتی ہوئی مہنگائی نے مزدور کی قوت خرید کو بہت حد تک کم کر دیا ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق کرونا وبا سے پہلے کے زمانے کی نسبت 2024ء میں مزدوروں کی قیمت خرید30فیصد کم ہوچکی تھی چنانچہ یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہے کہ افراط زر میں کمی کے دعووں کے باوجود عام آدمی کی زندگی کیوں مشکل ہے، پائیدار معاشی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ اس کے ثمرات عام آدمی کی زندگی پر بھی نظر آئیں اور اس کیلئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، روزگار کے مواقع میں اضافہ اس کیلئے پہلا عملی قدم ہونا چاہئے جوکہ نئی سرمایہ کاری اور صنعت کاری پر منحصر ہے، فی الوقت ملک کے معاشی اور سکیورٹی حالات اس راستے کی بڑی رکاوٹ ہیں، ضروری ہے کہ ان پہلوئوں پر بھی غور کیا جائے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ سیاسی ہم آہنگی کے بغیر معاشی اور سماجی ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا، اس لئے بغیر وقت ضائع کئے اس کیلئے کمر باندھ لینی چاہئے۔ پاکستان کی سیاست کو اپنے ماضی سے جان چھڑانا اور نئی روایت قائم کرنا ہوگی، یہ بات پلے باندھنے کی ہے کہ سیاسی دائو فریب کی حکمت عملی اور انتقامی حربے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کیلئے سخت نقصان دہ ہیں، ہمارے ہاں سیاسی حکومتوں کا عدم استحکام دوسرے لفظوں میں جمہوری نظام میں جان نہ پڑنے کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈروں نے ذاتی مفاد اور انا کو قومی مفاد پر ترجیح دی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی جماعتوں میں جس قسم کا اعتماد قائم ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں دھڑوں کو عوامی منڈیٹ حاصل ہے اور ان کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ پارلیمان کو اس کے بہترین مقاصد میں استعمال کریں اور جمہوری ساکھ مستحکم کریں، داخلی سلامتی اور پائیدار امن کا قیام سیاسی فریقین کی ترجیح ہونی چاہئے اور انہیں اس کیلئے مل کر کام کرنا چاہئے۔ وزیراعظم اور حکومت ملک کو واقعی معاشی دلدل سے نکالنے میں سنجیدہ ہیں تو اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ اشرافیہ کی عیاشیوں اور حکومتی شاہانہ اخراجات کو ختم کیا جائی، جس کے وعدے اور دعوے تو روزانہ سننے کو ملتے ہیں لیکن عمل درآمد کی نوبت اب تک نہیں آئی۔
خود ایف بی آر کے سربراہ کا اعتراف ہے کہ سب سے زیادہ کمانے والا 5فیصد طبقہ کھربوں روپے چوری کرتا ہے، ان کی کل تعداد 33لاکھ ہے اور27افراد انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، اشرافیہ کے بارے میں 2022ء کی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں تفصیلات موجود ہیں کہ17ارب ڈالر کی عیاشیاں اور مراعات حاصل کر رہی ہے، وزیراعظم کو چاہئے کہ اب سخت فیصلوں کا رخ عوام کے بجائے اشرافیہ کی جانب کریں، ان کی ناجائز مراعات اور ٹیکس چوری اگر روک دی جائے تو وزیراعظم اپنی خواہش یعنی 15فیصد تک ٹیکس میں کمی کے اعلان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ ان بڑی مچھلیوں پرہاتھ ڈالنے کے بجائے ایک بار پھر تنخواہ دار طبقہ کو قربانی کا بکرا بنانا کہاں کا انصاف ہے؟ اس وقت ملک کو ایک نئے سماجی، سیاسی اور معاشی میثاق کی ضرورت ہے، جس میں جمہوری حکومت اور اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے، صرف قانون کی عملداری پاکستانی عوام کو کنگال ہونے سے بچا سکتی ہے لیکن عوام کے ہر مسئلے کا حل بزور طاقت بنگلہ دیش کے عوام کی طرز پر ملک پر ناجائز قبضی کو ختم کرنے سے ممکن ہے۔

جواب دیں

Back to top button