Column

ہم کبھی نہیں ہاریں گے !

تحریر : شاہد ندیم احمد
ملک میں سیاسی کشیدگی کے ساتھ دہشت گردی کی لہر بھی آئی ہوئی ہے ، اس کے خلاف سکیورٹی ادارے نبرد آزما ہیں ، لیکن کوئی بھی جنگ محض سکیورٹی اداروں کی جنگ نہیں ہوتی ہے ، یہ ملک و قوم کی مشترکہ جنگ ہوتی ہے اور اسے مل کر ہی لڑا جا سکتا ہے ، اس جنگ میں سکیورٹی ادارے تو ایک حفاظتی پشتے کا ہی فریضہ انجام دیے رہے ہوتے ہیں ، لیکن اس پشتے کی مضبوطی قومی اتفاق ویگانگت سے ہی ہوتی ہے، اگر قوم میںاتفاق ویگانگت ہے تو پھر اس قوم کو کوئی ہرا سکتا ہے نہ ہی کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے ۔
اس بات کو ہر کوئی جانتا اور ما نتا ہے ،اس کے باوجود قومی اتفاق کو اپنے ذاتی مفادات کی خا ظر دائو پر لگایا جاتا ہے ، ایک دوسرے کے خلاف اکسایا جاتا ہے ، اس کا فائدہ ملک دشمن اُٹھاتے ہیں ،اپنوں کو ہی سہولت کار بناتے ہیں اور ملک میں دہشت گردی پھیلاتے ہیں ، اس کے خلاف سکیورٹی ادارے متحرک ہیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں ، لیکن اس کاسد باب عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے ، اس لیے ہی بارہا آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا دہشت گر دی کے خاتمے کا عزم دہراتے ہوئے کہنا ہے کہ جب تک قوم بالخصوص نوجوان سیکورٹی اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں، پاک فوج پرعزم ہے اور کبھی کوئی جنگ نہیں ہارے گی۔
اس عزم پر ہر پاکستانی کو یقین ہے ، لیکن اس عز م پر یقین رکھتے ہوئے اپنی خامیوں اور اپنی کوتاہیوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے، ہم نے آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحے کے بعد سے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے قومی اتفاقِ رائے سے بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا تھا ،اس میں سکیورٹی اداروں، وفاقی و صوبائی حکومتوں اور اہم سٹیک ہولڈرز کی ذمہ داریوں کو اجاگر کیا گیا تھا، لیکن کیا ہم نے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا ہے اور اس بیس نکاتی نیشنل پلان پر پوری طرح عمل کیا ہے؟ اس نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں اپنی خامیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، ہم جب تک اپنی کوتاہیوں اور اپنی خامیوں کا ازالہ نہیں کریں گے ، دہشت گردی کے ناسور سے کبھی مکمل نجات حاصل نہیں کر پائیں گے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ سکیورٹی فورسز اپنی چیلنجز سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان سے نمٹنے کیلئے مستعد اور پُرعزم ہیں ، مگر اس کے ساتھ ضروری ہے کہ وفاقی وصوبائی حکومتیں، سیاسی قیادت، علما کرام اور نوجوان بھی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں،اس ملک کی سرحدوں کا تحفظ اور اندرونِ ملک امن وامان اسی وقت یقینی بنایا جا سکتا ہے، جب کہ معاشرے کے سبھی طبقات سکیورٹی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں اور باہم اشتراک سے اقدامات کیے جائیں، ہماری قومی ذمہ داریاں، ضروریات اور سکیورٹی کے تقاضے ہرگز اجازت نہیں دیتے ہیں کہ بے مقصد سیاسی ہیجان میں الجھ کر اپنی ترقی کا خواب کھوٹا کیا جائے، ہماری سیاسی قیادت کو اپنی اَنا سے بلند ہوکر سوچنے کی ضرورت ہے اور یہ اس صورت میں ہی ممکن ہے کہ جب سیاسی مفادات کے بجائے قومی مفادات کو تر جیح دی جائے ،اپنے ذاتی و گروہی مفادات پر ملک و قوم اور اجتماعی فلاح کی تقدیم ہی ایک سیاستدان اور مدبر رہنما میں فرق واضح کرتی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہمارے سکیورٹی اداروں کی صلاحیت ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے اور اس نے ماضی قریب میں دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پا کر اس استعداد کا مظاہرہ بھی کیا ہے ،مگر اس وقت مغربی سرحدی علاقوں میں بڑھتے سکیورٹی خطرات انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملی پر ازسر نو غور وفکر کی دعوت دے رہے ہیں،اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے ، ہمیں اپنے ذاتیات و انا کے خول سے باہر نکلنا ہو گا اور اتحاد و اتفاق سے مل بیٹھ کر اپنی پالیسیوں ،اپنی حکمت عملی کو رویو کر نا ہو گا ، ہمیں ایک کے بعد ایک نئے بیا نیہ سے نکل کر ایک مشترکہ نئی قومی پالیسی پر عمل پیراں ہو نا ہو گا۔
اس وقت ایک نئی قومی سلامتی پالیسی کا بننا اچھا اقدام ہو گا ،لیکن اس سے بھی بڑھ کر اہم کام اس پالیسی کو بنیاد بنا کر اپنی داخلی پالیسیوں او رحکمت عملی سمیت اس پر عملدرآمد کے نظام کو موثر اور شفاف بنانا ہماری ترجیحی سیاست و حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے،جب کسی پالیسی پر قوم ساتھ کھڑی ہو او راس کو واقعی یہ احساس ہوکہ یہی پالیسی ہماری سیاسی خود مختاری او ربقا کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے تو وہ اس کا حصہ بن کر خود بھی انفرادی یا اجتماعی سطح پر اپنا موثر کردار ادا کرکے ریاستی نظام کو موثر بناتے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی گورننس یا طرز حکمرانی کی مدد سے لوگوں میں اعتماد پیدا کریں کہ ریاست ان کے ساتھ کھڑی ہے او راس کی پالیسی میں کوئی تضاد نہیں ہے ،اس یقین اور اعتماد کی بحالی کے بعدہمیں کوئی ہرا سکتا ہے نہ ہی ہم کبھی ہاریں گے۔

جواب دیں

Back to top button